حیات جاوید
ہمیشہ کی زندگی، ابدی زندگی
گمان مبر کہ بپایان رسید کار مغان ہزار بادہ ی ناخوردہ در رگ تاک است
مطلب: تو یہ گمان مت کر کے مے سازی کا کام ختم ہو گیا (ابھی تو) کتنی ہی ان چکھی شرابیں انگور کی رگوں میں پوشیدہ ہیں ۔ مراد ہے خالق کائنات کے کام سے فارغ ہو کر نہیں بیٹھ گیا ابھی اور بہت کچھ تخلیق کرنا باقی ہے ۔
چمن خوشست و لیکن چو غنچہ نتوان زیست قبای زندگیش از دم صبا چاک است
مطلب: چمن اچھا ہے لیکن کلی کی طرح کیا جینا ، اس کی زندگی کی قبا صبا کے ایک جھونکے میں چاک ہو جاتی ہے (تو مضبوط بن تا کہ مخالفتوں کے تند و تیز طوفان میں بکھر نہ سکے) ۔
اگر ز رمز حیات آگہی مجوی و مگیر دلی کہ از خلش خار آرزو پاک است
مطلب: اگر تو ہستی کے بھید سے باخبر ہے تو مت کھوج اور نہ قبول کر ایسا دل جو آرزو کے کانٹے کی کھٹک سے خالی ہے ۔
بخود خزیدہ و محکم چو کوہساران زی چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است
مطلب: پہاڑوں کی طرح زیست کر اپنے آپ میں اکٹھا اور اٹل سوکھی ہوئی گھاس ایسی زندگی مت گزار کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ (مراد ہے زندگی طوفانوں سے بھری ہوئی ہے اس میں ثابت قدم رہنے کے لیے مضبوط حوصلہ، بلند ہمت اور خود کو قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرنے والا بننا پڑے گا ۔ ) اقبال نے اس نظم میں ابدی زندگی حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے کہ اپنے دل کی آرزو یعنی کسی نصب العین کو حاصل کرنے کی آرزو سے آباد کرو ۔