(۲۶)
سخن تازہ زدم کس بہ سخن وا نرسید جلوہ خوں گشت و نگاہے بہ تماشا نرسید
مطلب: میں نے اپنی شاعری میں (روایت سے ہٹ کر) باتیں کی ہیں ۔ کوئی بھی یہ باتیں پسند نہیں کرتا ۔ میرے جلوے یعنی مضامین کا خون بہہ گیا اور ایک بھی نگاہ اس کے نظارے کے لیے نہ پہنچی ( میں نے ایسے ایسے نئے مضامین پیدا کئے ہیں جنھیں لوگ پڑھنا گوارا نہیں کرتے) ۔
سنگ می باش و دریں کارگہ شیشہ گزر واے سنگے کہ صنم گشت و بہ مینا نرسید
مطلب: پتھر ہو کر اس شیشے کے کارخانے (دنیا) سے گزر جا ۔ افسوس ہے اس پتھر پر جو بت تو بن گیا لیکن صراحی نہ بن سکا جس میں کم از کم شراب ڈال کر مے خواروں کو تو پلائی جاتی (بے کار شے سے کارآمد شے بہتر ہے) ۔
کہنہ را در شکن و باز بہ تعمیر خرام ہر کہ در ورطہ لا ماند بہ الا نرسید
مطلب: پرانی چیزوں کو توڑ کر از سر نو تعمیر کا عمل شروع کر دے ۔ کیونکہ جو کوئی بھی لا (لا الہ یعنی کوئی معبود نہیں ) کے بھنور میں پھنس گیا وہ الا (الا اللہ یعنی اللہ معبود ہے) کے ساحل تک نہ پہنچا (پہلے تمام باطل معبودوں کی نفی کر کے ایک خدا کی ربوبیت کو تسلیم کرنا ہی مقصود فطرت ہے) ۔
اے خوش آں جوے تنک مایہ کہ از ذوق خودی در دل خاک فرو رفت و بدریا نرسید
مطلب: تھوڑے پانی والی وہ ندی کتنی خوش قسمت ہے کہ جو ذوق خودی کے بل بوتے پر مٹی دل میں تو چلی گئی لیکن دریا تک نہ پہنچی (اپنی انفرادیت اور خودی کے حصار میں رہی) ۔
از کلیمے سبق آموز کہ داناے فرنگ جگر بحر شگافید و بہ سینا نرسید
مطلب: کسی کلیم (اللہ سے ہم کلام ہونے والے) سے وہ سبق سیکھ (جو تجھے معرفت سے آشنا کر دے) کیونکہ یورپ کے دانشوروں علما اور سائنس دانوں نے سمندر کی گہرائیوں کو تو جانچ لیا لیکن وادی سینا تک نہیں پہنچ سکے(اہل یورپ کائنات کے راز تو جانتے ہیں لیکن معرفت حق سے نا آشنا ہیں ) ۔
عشق انداز تپیدن ز دل ما آموخت شرر ماست کہ بر جست بہ پرواز نرسید
مطلب: عشق نے تڑپنے کا انداز ہمارے دل کی تڑپ سے سیکھا ۔ یہ ہمارے عشق ہی کی چنگاری ہے جو ہمارے دل سے نکلی اور پروانے تک پہنچی اور اسے بھی رموز ، عشق سے آگاہی کر دیا ۔
(۲۷)
عاشق آں نیست کہ لب گرم فغانے دارد عاشق آن است کہ بر کف دو جہانے دارد
مطلب: اسے عاشق نہیں کہتے جو اپنے لبوں سے نالہ و شیون کرتا ہے ۔ بلکہ عاشق تو وہ ہے جو دونوں جہان اپنی ہتھیلی پر رکھتا ہے (سچا عاشق نالہ و فریاد نہیں کرتا بلکہ وہ تو اپنے عشق سے دنیا پر حکمرانی کرتا ہے) ۔
عاشق آن است کہ تعمیر کند عالم خویش در نسازد بہ جہانے کہ کرانے دارد
مطلب: عاشق وہ ہے جو اپنی دنیا آپ تعمیر کرتا ہے اور دوسرے کے تعمیر کردہ دنیاؤں میں نہیں رہتا (دوسروں کا زیر دست نہیں ہوتا ) وہ ایسی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا جس کی کوئی حد مقررر ہو ۔
دل بیدار ندادند بہ داناے فرنگ ایں قدر ہست کہ چشم نگرانے دارد
مطلب: یورپ کے دانشوروں کو (کارکنان قضا و قدر نے) روشن دل نہیں دیا ۔ صرف اس قدر ہے کہ وہ چشم بینا رکھتے ہیں (جس سے وہ ستاروں کا مشاہدہ تو کر سکتے ہیں لیکن دلوں کے اندر نہیں جھانک سکتے) ۔
عشق ناپید و خرد می گزدش صورت مار گرچہ در کاسہ زر لعل روانے دارد
مطلب: اہل یورپ میں جذبہَ عشق کا فقدان ہے اور ان کی عقل انہیں سانپ کی طرح ڈس رہی ہے ۔ (وہ عقل سے کائنات کے اسرار تو سمجھ سکتے ہیں لیکن خدا کی معرفت سے دور ہیں ) اگرچہ وہ سونے کے جام میں لعل و جواہر کی طرح قیمتی اور چمکتی شراب رکھتے ہیں (عیش و عشرت کے سبھی لوازمات موجود ہیں ) لیکن ان کے دل معرفت الہٰی سے خالی ہیں ۔
درد من گیر کہ در میکدہ ہا پیدا نیست پیر مردے کہ مے تند و جوانے دارد
مطلب: مجھ سے پیالو ں سے بچی ہوئی تلجھٹ لے ( میں نے اپنی شاعری میں خود شناسی اور خدا شناسی کی جو بات کی ہے اسے سمجھنے کی کوشش کر) کیونکہ شراب خانوں میں ایسی شراب موجود نہیں ۔ جو میرے پاس ہے یہ شراب مجھ تک میرے اسلاف کے ذریعے پہنچی ہے ۔ اور ایسا ساقی تلاش کر جس کی شراب تیز اور تازہ ہے (معرفت الہٰی کے نشہ سے بھرپور ہو) ۔
(۲۸)
دریں چمن دل مرغاں زماں زماں دگر است بشاخ گل دگر است و بآشیاں دگر است
مطلب: اس چمن میں رہنے والے پرندوں کا دل لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے ۔ پرندہ اگر شاخ پر بیٹھا ہو تو اس کا دل اور ہوتا ہے اور اگر وہ اپنے گھونسلے میں ہو تو پھر دل اور ہوتا ہے ۔ اہلِ دنیا کے دل حرص و ہوس کے تابع ہوتے ہیں جبکہ مردانِ حق اللہ کے طالب ہوتے ہیں ) ۔
بخود نگر گلہ ہاے جہاں چہ میگوئی اگر نگاہ تو دیگر شود جہاں دگر است
مطلب: دنیا کو سمجھنے کی بجائے اپنے اندر جھانک کر دیکھ اور خود کو پہچاننے کی کوشش کر ۔ دنیا کی شکایت کرنا چھوڑ دے ۔ اگر تیری نگاہ بدل جائے گی تو تیرا جہاں بھی تبدیل ہو جائے گا ۔
بہ ہر زمانہ اگر چشم تو نکو نگرد طریق میکدہ و شیوہ مغاں دگر است
مطلب: اگر تیری آنکھ میں ہر زمانے کا صحیح طور پر مشاہدہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے تو دیکھے گا کہ ہر زمانے میں مے خانے کا طریق کار اور شراب کشید کرنے والے کا شیوہ مختلف رہا ہے ۔
بہ میر قافلہ از من دعا رسان و بگوے اگرچہ راہ ہمان است کارواں دگر است
مطلب: امیرِ کارواں کو میری طرف سے دعا و سلام پہنچا دے ۔ اور اس سے یہ کہہ کہ اگرچہ راستہ تو وہی ہے لیکن کارواں اور ہے ۔ (راستہ ہر دور میں ایک ہی ہوتا ہے البتہ مسافر بدلتے رہتے ہیں ۔ امیر کارواں کو چاہیے کہ وہ ان مسافروں کو نشانِ منزل کی طرف لے کر جائے) ۔
(۲۹)
ما از خداے گم شدہ ایم او بجستجوست چوں ما نیازمند و گرفتار آرزوست
مطلب: ہم خدا کے پاس سے گم ہو چکے ہیں ۔ اور وہ ہماری تلاش میں ہے ۔ ہماری طرح وہ بھی ملنے کا نیازمند ہے ۔ اور خواہشوں کا قیدی ہے ۔
گاہے بہ برگ لالہ نویسد پیام خویش گاہے درون سینہ مرغاں بہ ہای ہوست
مطلب: کبھی وہ (خدا) لالہ کے پھول کی پتہ پر اپنا نام تحریر کر دیتا ہے اور کبھی پرندوں کے سینوں کے اندر (جذبہَ عشق) شورو غل کر رہا ہے ۔
در نرگس آرمید کہ بیند جمال ما چنداں کرشمہ داں کہ نگاہش بہ گفتگوست
مطلب: کبھی وہ محبوب نرگس کی آنکھوں میں آ کر آرام سے بیٹھ گیا ۔ (اس امید پر ) کہ وہ ہمارا جمال (طرزِ عمل) دیکھے ۔ (وہ محبوب) ایسے ناز و ادا جانتا ہے کہ اس کی نگاہیں تک گفتگو کرتی ہیں (گل نرگس بھی اس کی موجودگی کی گواہی دیتی ہے ) ۔
آہے سحر گہے کہ زند در فراق ما بیرون و اندرون، زبر و زیر و چار سوست
مطلب: (اور) صبح (کی پاکیزہ روشنی) میں ہمارے ہجر میں وہ جب آہ کھینچتا ہے تو وہ کائنات کے اندر اور باہر (زمین و آسمان میں ) ہر جگہ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے (کائنات کی ہر شے میں خالق کائنات کا ظہور ہے اور اس کا یہ ظہور اس لیے ہے کہ وہ تخلیق (آدم کا نظارہ کر سکے) ۔
ہنگامہ بست از پئے دیدار خاکئے نظارہ را بہانہ تماشاے رنگ و بوست
پنہاں بہ ذرہ ذرہ و نا آشنا ہنوز پیدا چو ماہتاب و بآغوش کاخ و کوست
مطلب: وہ (خدا) ذرے ذرے میں موجود ہے لیکن ابھی تک اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ چاند کی طرح ظاہر ہے وہ ہر کوچے میں ہر محل میں موجود ہے ۔ اس نے چاند کی روشنی کی طرح ہر چیز اپنی آغوش میں لے رکھی ہے ۔ (وہ تو ہر جگہ موجود ہے لیکن انسان اس سے بے خبر ہے) ۔
در خاکدان ما گہر زندگی گم است ایں گوہرے کہ کم شدہ مائیم یا کہ اوست
مطلب: ہمارے جسم خاکی میں زندگی کا موتی گم ہو چکا ہے ۔ یہ گم شدہ موتی ہم ہیں یا کہ وہ (خدا) (ذات حقیقی ارد گرد تلاش کرنے کی بجائے اگر اپنے اندر تلاش کی جائے تو اس کا سراغ مل سکتا ہے ) ۔
(۳۰)
خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفائے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: سرمایہ دار مزدوروں کی سخت محنت سے خالص ہیرا بنا رہا ہے (مزدور کا خون چوس چوس کر دولت مند ہوتا جا رہا ہے ) گاؤں کے خداؤں کے جبر سے کسانوں کے کھیت اُجڑ گئے ہیں (وہ خود وڈیرے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ) اس لیے بدل دو ۔ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔
شیخ شہر از رشتہ تسبیح صد مومن بدام کافران سادہ دل را برہمن زنار تاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: شہر کے شیخ (عالم یا فقیہہ) کی تسبیح (دکھاوے کی عبادت) کے دھوکے میں آ کر سینکڑوں مومن اس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ، اور سادہ دل کافروں کے لیے برہمن بھی زنار کا حربہ استعمال کرتا رہتا ہے (مذہبی پیشوا، ہر مذہب کے اپنے معصوم پیروکاروں کو بے تحاشا لوٹتے رہتے ہیں ) ۔ اس لیے ۔ زمانے کو بدل دو ۔ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔
میر و سلطاں نرد باز و کعبتین شان دغل جان محکوماں ز تن بردند و محکوماں بخواب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: امیر اور بادشاہ چوسر سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے کھیل کے پانسے دغل ہیں ۔ امرا ء اور حکمران کمزوروں ، بے کسوں اور محکوموں کو قابو میں لانے کے لیے کئی حربے استعمال کرتے ہیں ۔ اس لیے بدل دو ۔ الٹا دو ۔ انقلاب، اے انقلاب ۔
واعظ اندر مسجد و فرزند او در مدرسہ آں بہ پیری کودکے ایں پیر در عہد شباب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: واعظ نے مسجد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اس کا بیٹا، مدرسے میں جدید علوم کی تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔ وہ بڑھاپے میں ایک بچے کی طرح ہے اور بیٹا عین جوانی میں بوڑھا ہے ۔ (واعظ مسجد کی چار دیواری میں مقید ہے ۔ باہر کے حالات سے بے خبر ہے ) جبکہ بیٹا فرنگی علوم سیکھ کر دین سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ اس لیے، بدل دو ۔ سب کچھ الٹ دو ۔ تبدیلی ۔ اے تبدیلی ۔
اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہاے علم و فن اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: اے مسلمانو! عصر جدید کے علوم فنون کے فتنوں سے فریاد کرو (بچو) کیونکہ ان علوم کی وجہ سے شیطان سستا ہو گیا ہے اور خدا کا ملنا محال ہے ۔ اس لیے ۔ بدل دو ۔ سب کچھ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔
شوخی باطل نگر اندر کمین حق نشست شپر از کوری شبیخونے زند بر آفتاب
مطلب: اہلِ مغرب (کے علوم و فنون) کے باعث ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ باطل بھی شوخی میں آ کر حق کی گھات میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اس کی مثال تو یہ ہے کہ آج چمگادڑ (باوجود اس بات کے کہ اسے دن کے وقت کچھ دکھائی نہیں دیتا) سورج پر شب خون مار رہی ہے ۔
در کلیسا ابن مریم را بدار آویختند مصطفےٰ از کعبہ ہجرت کردہ با ام الکتاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: عیسائیوں نے (گرجا گھر) مریم کے بیٹے (عیسیٰ) کو پھانسی چڑھا دیا(عیسائی اپنے مذہب سے دور ہو گئے) اور ادھر حضرت محمد ﷺ قرآن لے کر کعبہ سے چلے گئے (مسلمان اپنے دین سے بے خبر ہو گئے ۔ تہذب نو نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو گمراہ کر دیا ہے ۔ اس لیے بدل دو ۔ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔
من درون شیشہ ہاے عصر حاضر دیدہ ام آنچناں زہرے کہ از وے مار ہا در پیچ و تاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: میں نے موجودہ زمانے کے ساغروں میں ایسی زہریلی شراب دیکھی ہے کہ اس کے زہر کے اثر سے زہریلے سانپ بھی تڑپ رہے ہیں ۔ (دنیا کے میکدے میں غارت گر تہذیب شراب ملتی ہے ۔ جو سانپ کی طرح روح کو ڈس کر اسے مردہ کر دیتی ہے ۔ ) ۔ اس لیے، بدل دو ۔ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔
با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند شعلہ شاید بروں آید ز فانوس حباب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب
مطلب: (ان تمام حالات کے باوجود جن کا تذکرہ مذکورہ اشعار میں کیا جا چکا ہے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ) کیونکہ بعض اوقات کارکنان قضا و قدر کمزور لوگوں کو شیروں جیسی قوت و ہمت عطا کر دیتے ہیں ۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ پانی کے بلبلے سے ایسا شعلہ نمودار ہو جو اپنی ضوفشانی سے نظامِ حیات کی تاریکیوں کو دور کر دے ۔ اس لیے، بدل دو ۔ سب کچھ الٹا دو ۔ تبدیلی، اے تبدیلی ۔