غزل نمبر۷
بملازمان سلطان خبری دہم ز رازی کہ جہان توان گرفتن بنوای دلگدازی
مطلب: میں سلطان کے ملازمین کو ایک بہت ہی راز کی بات بتاتا ہوں کہ جی کو نہال کر دینے والے ایک بول سے دنیا فتح کی جا سکتی ہے ۔
بمتاع خود چہ نازی کہ بہ شہر دردمندان دل غزنوی نیرزد بہ تبسم ایازی
مطلب: تو اپنے دھن دولت پہ کیا ناز کرتا ہے کہ دردمندوں کے شہر میں غزنوی کا دل ایاز کے ایک تبسم کا مول نہیں رکھتا (ایاز کے تبسم کے سامنے غزنوی کے دل کی کوئی قیمت نہیں ہے) ۔
ہمہ ناز بے نیای، ہمہ ساز بے نوائی دل شاہ لرزہ گیرد ز گدای بے نیازی
مطلب: جس کی بے نیازی کا تمام جاہ و جلال ، جس کی ناداری تمام سازوسامان اس بے نیاز فقیر سے بادشاہوں کے دل لرزتے ہیں ۔
ز مقام من چہ پرسی بہ طلسم دل اسیرم نہ نشیب من نشیبے نہ فراز من فرازی
مطلب: میرے ٹھکانے کا کیا پوچھتا ہے ۔ میں دل کے طلسم کا قیدی ہوں ( میں توبندہَ عشق ہوں ) نہ میری پستی کوئی پستی ہے نہ میری بلندی کوئی بلندی ہے ۔
رہ عاقلی رہا کن کہ باو توان رسیدن بدل نیازمندی ، بہ نگاہ پاکبازی
مطلب: عقل کا رستہ چھوڑ دے کہ اس تک پہنچا جا سکتا ہے (یہ کہیں نہیں پہنچائے گا) اللہ تعالیٰ تک صرف نیاز مندی سے بھر پور دل اور پاکیزہ نگاہ ہی سے پہنچا جا سکتا ہے ۔
بہ رہ تو ناتمامم ز تغافل تو خامم من و جان نیم سوزی، تو و چشم نیم بازی
مطلب: میں تیری راہ میں نامکمل ہوں تیری بے رخی سے ادھورا ہوں ۔ میں اور میری ادھ جلی جان تو اور تیری ادھ کھلی آنکھ (جب تک میری جانب نگاہ کرم نہیں کرے گا میں ا سی طرح سلگتا رہوں گا) ۔
رہ دیر تختہ ی گل ز جبین سجدہ ریزم کہ نیاز من نگنجد بدو رکعت نمازی
ز ستیز آشنایان چہ نیاز و ناز خیزد دلکی بہانہ سوزی نگہی بہانہ سازی