Please wait..

جلوہَ سروش
(فرشتہَ غیب کا ظہور)

 
مرد عارف گفتگو را در بہ بست
مست خود گردید و از عالم گسست

مطلب: مرد عارف (وشوامتر) نے گفتگو کا دروازہ بند کر دیا (خاموش ہو گیا) وہ اپنے آپ میں مست ہو گیا اور اس نے عالم سے اپنا تعلق توڑ لیا ۔

 
ذوق و شوق او را ز دست او ربود
در وجود آمد ز نیرنگ شہود

مطلب: اس کے ذوق و شوق نے اسے اس کے ہاتھ سے چھین لیا (وہ بے خود و مست ہو گیا) اور وہ شہود کا طلسم توڑ کر وجود میں آ گیا ۔

 
با حضورش ذرہ ہا مانند طور
بے حضور او نہ نور و نے ظہور

مطلب: اس کی حضوری سے ذرے طور کی مانند ہو گئے ۔ اس کی حضوری توجہ کے بغیر نہ تو کوئی نور تھا اور نہ کوئی ظہور تھا ۔

 
نازنینے در طلسم آن شبے
آن شبے بے کوکبے را کوکبے

مطلب: اس رات کے طلسم کے اندر ایک نازنین نمودا ار ہوئی ، جو اس بے ستارہ رات کے لیے گویا ستارہ تھی ۔

 
سنبلستان دو زلفش تا کمر
تاب گیر از طلعتش کوہ و کمر

مطلب: اس کی دونوں زلفوں کے سنبلستان اس کی کمر تک لٹکے ہوئے تھے اور اس کے چمکتے چہرے سے پہاڑ اور کمر روشنی حاصل کرتے تھے ۔

 
غرق اندر جلوہ ی مستانہ ئی
خوش سرود آن مست بے پیمانہ ئی

مطلب: وہ مستانہ جلوے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ شراب کا پیالہ پیے بغیر اس مست نازنین نے دلکش نغمہ چھیڑا ۔

 
پیش او گردندہ فانونس خیال
ذوفنوں مثل سپہر دیر سال

مطلب: اس کے سامنے خیال کا فانوس گردش کرتا تھا جو بیحد قدیم آسمان کی طرح ذوفنون تھا ۔

 
اندر آن فانوس پیکر رنگ رنگ
شکرہ بر کنجشک و بر آہو پلنگ

مطلب: اس فانونس کے اندر قسم قسم کے اور طرح طرح کے پیکر تھے ۔ باز، چڑیا اور چیتا ہرن پر جھپٹتا نظر آتا تھا ۔

 
من بہ رومی گفتم اے دانائے راز
بر رفیق کم نظر بکشائے راز

مطلب: میں (اقبال) نے رومی سے کہا کہ اے دانائے راز اپنے اس کم عقل ساتھی پر یہ راز کھول (یہ نازنین کون ہے) ۔

 
گفت ایں پیکر چو سیم تابناک
زاد در اندیشہ ی یزدان پاک

مطلب: رومی نے کہا کہ اس چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پیکر نے خدائے پاک کی مشیت میں جنم لیا ۔

 
باز بے تابانہ از ذوق نمود
در شبستان وجود آمد فرود

مطلب: پھر یہ پیکر ذوقِ نمود سے بیقرار ہو کر وجود کے شبستان میں اتر آیا ۔

 
ہمچو ما آوارہ و غربت نصیب
تو غریبی ، من غریبم ، او غریب

مطلب: یہ بھی ہماری طرح بے مقصد گھوم رہا ہے اور بے وطن ہے ۔ تو بھی بے وطن ہے ، میں بھی بے وطن ہوں اور وہ بھی بے وطن ہے ۔

 
شان او جبریلی و نامش سروش
می برد از ہوش و می آرد بہوش

مطلب: اس کی شان جبرئیل کی سی اور اس کا نام سروش ہے ۔ وہ ہوش لے جاتا اور ہوش لاتا ہے ۔

 
غنچہ ما را کشود از شبنمش
مردہ آتش زندہ از سوز دمش

مطلب: اس کی شبنم سے ہماری کلی کھلتی ہے ۔ اس کے سانس کے سوز سے بجھی ہوئی آگ بھڑک اٹھتی ہے ۔

 
زخمہ شاعر بساز دل ازوست
چاکہا در پردہ محمل ازوست

مطلب: دل کے ساز پر شاعر کی مضراب اس کی وجہ سے ہے ۔ محمل کے پردے میں چاک اسی کی وجہ سے ہے ۔

 
دیدہ ام در نغمہ او عالمے
آتشے گیر از او نواے او دمے

مطلب: میں نے اس کے نغمہ کے اندر ایک نئی دنیا دیکھی ہے ۔ تو بھی تھوڑی دیر کے لئے اس کی نوا سے حرارت حاصل کر ۔

نوائے سروش
(نغمہ سروش)

 
ترسم کہ تو میرانی زورق بسراب اندر
زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر

مطلب: مجھے یہ ڈر ہے کہ تو سراب میں کشتی چلاتا رہے گا، تو حجاب ، پردے میں پیدا ہوا ہے اور حجاب ہی میں مر جائے گا ۔ (سراب سے مراد عقل ہے) ۔

 
چون سرمہ رازی را از دیدہ فروشستم
تقدیر امم دیدم پنہان بکتاب اندر

مطلب: جب میں نے اپنی آنکھوں سے رازی (کی تفسیر) کا سرمہ دھو ڈالا تو میں نے قوموں کی تقدیر (راز) کتاب (قرآن) کے اندر چھپی دیکھی ۔

 
بر کشت و خیابان پیچ بر کوہ و بیاباں پیچ
برقے کہ بخود پیچد میرد بہ سحاب اندر

مطلب: (تو ایک بجلی ہے) تو بادل کے اندر ہی خود پر نہ گر بلکہ بادل سے باہر نکل کر کھیت، باغ اور کوہ و بیاباں پر گر، کیونکہ جو بجلی اپنے اندر اندر ہی گرتی ہے وہ بادل ہی میں مر جاتی یا رہ جاتی ہے ۔

 
با مغربیان بودم پر جستم و کم دیدم
مردے کہ مقاماتش ناید بہ حساب اندر

مطلب: میں اہل مغرب میں رہا ہوں ۔ وہاں میں نے بہت جستجو کی لیکن مجھے کوئی ایسا مرد نظر نہیں آیا جس کے مقامات بے شمار ہوں ۔

 
بے درد جہانگیری آن قرب میسر نیست
گلشن بگریبان کش اے بو بگلاب اندر

مطلب: تسخیر کائنات کی محنت اٹھائے بغیر وہ قرب حاصل نہیں ہوتا جو مومن کی شان ہے ۔ اے گلاب کے اندر کی خوشبو ہی پر اکتفا کرنے والے تو گلشن کو اپنے گریبان میں لے ۔

 
اے زاہد ظاہر بین گیرم کہ خودی فانی است
لیکن تو نہ می بینی طوفان بہ حباب اندر

مطلب: اے ظاہر بیں زاہد میں مانتا ہوں کہ خودی فانی ہے لیکن کیا تو وہ طوفان نہیں دیکھتا جو بلبلے کے اندر موجود ہے ۔

 
این صوت دلآویزے از زخمہ ی مطرب نیست
مہجور جنان حورے نالد بہ رباب اندر

مطلب: یہ دل آویز مطرب کے مضراب سے پیدا نہیں ہو رہی بلکہ یہ جنت سے بچھڑی ہوئی ایک حور ہے جو رباب کے اندر نالہ و فریاد کر رہی ہے ۔