Please wait..

نمودار شدن درویش سودانی
(سوڈانی درویش کا نمودار ہونا)

 
برق بے تابانہ رخشید اندر آب
موجہا بالید و غلیطد اندر آب

مطلب: پانی کے اندر بجلی بے قراری کی حالت میں چمکی ، پانی کے اندر موجیں اٹھیں اور آپس میں ٹکرا کر پانی میں مل گئیں ۔

 
بوے خوش از گلشن جنت رسید
روح آن درویش مصر آمد پدید

مطلب: جنت کی طرف سے ایک خوشبو آئی اور اس مصری درویش کی روح ظاہر ہوئی ۔

 
در صدف از سوز او گوہر گداخت
سنگ اندر سینہ کشنر گداخت

مطلب: اس کے سوز سے سیپی میں موتی پگھل کر رہ گیا ۔ کچز کے سینے میں پتھر پگھل گیا ۔ (اس کے سوز سے کچز کے سینے کے اندر جو پتھر کا دل تھا وہ بھی یوں پگھل گیا جیسے صدف کے اندر گوہر پگھل جائے) ۔

 
گفت اے کشنرا گر داری نظر
انتقام خاک درویشے نگر

مطلب: مہدی نے کہا اے کچز اگر تو نظر رکھتا (صاحبِ بصیرت) ہے تو ایک درویش کی خاک کا انتقام دیکھ (تو نے میری قبر کھود کر میری لاش کو رسوا کیا ) ۔

 
آسمان خاک ترا گورے نداد
مرقدے جز در یم شورے نداد

مطلب: آسمان نے تیری لاش کو قبر بھی نہ دی ۔ تیری قبر شور سمندر ہی میں بنی (تو سمندر میں مرا اور تیری لاش کو زمین بھی نصیب نہ ہوئی ) ۔

 
باز حرف اندر گلوے او شکست
از لبش آہے جگر تابے گسست

مطلب: پھر اس کی آواز گلے میں اٹک گئی اور اس کے ہونٹوں سے جگر کو پگھلا دینے والی ایک آہ نکلی ۔

 
گفت اے روح عرب بیدار شو
چوں نیاگان خالق اعصار شو

مطلب:وہ (مہدی) پھر بولا کہ اے روح عرب بیدار ہو اور اپنے بزرگوں کی طرح نئے نئے زمانے تخلیق کر ۔

 
اے فواد اے فیصل اے ابن سعود
تا کجا بر خویش پیچیدن چو دود

مطلب: اے فواد (مصر) اے فیصل (عراق) اور اے ابن سعود تم کب تک دھوئیں کی طرح خود میں بل کھاتے رہو گے ۔

 
زندہ کن در سینہ آن سوزے کہ رفت
در جہاں باز آور آن روزے کہ رفت

مطلب: اپنے سینے میں وہ سوز دوبارہ پیدا کرو جو کبھی پہلے تھا اب جا چکا ہے ۔ گیا ہوا زمانہ دنیا میں پھر واپس لاوَ ۔

 
خاک بطحا خالدے دیگر بزاے
نغمہ ی توحید را دیگر سراے

مطلب: اے سرزمین مکہ تو پھر کوئی خالد پیدا کر اورر ایک بار پھر توحید کا راگ گا ۔

 
اے نخیلی دشت تو بالندہ تر
بر نخیزد از تو فاروقے دگر

مطلب: تیرے صحرا کے کھجور کے درخت اور بلند ہوں ۔ کیا تیرے اندر سے کوئی اور یا دوسرا فاروق پیدا نہیں ہو سکتا

 
اے جہان مومنان مشک فام
از تو می آید مرا بوے دوام

مطلب: اے سیاہ فام مومنو ں کی دنیا (افریقہ) مجھے تجھ سے ہمیشہ قائم رہنے والی خوشبو آ رہی ہے ۔

 
زندگانی تا کجا بے ذوق سیر
تا کجا تقدیر تو در دست غیر

مطلب: تم (اہل مصر و سوڈان) کب تک جہد و عمل کے ذوق کے بغیر زندگی (بسر کرو گے) اور کب تک اپنی تقدیر غیروں کے ہاتھ میں دیے رہو گے ۔

 
بر مقام خود نیائی تا بہ کے
استخوانم در یمے نالد چو نے

مطلب: تم کب تک اپنے مقام حاصل نہ کرو گے تمہارے ان حالات سے میری ہڈیاں سمندر میں بانسری کی طرح نالہ کناں ہیں ۔

 
از بلا ترسی حدیث مصطفی است
مرد را روز بلا روز صفاست

مطلب: کیا تم مصیبتوں سے ڈرتے ہو رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ نہیں سنی ہے کہ مرد کے لیے مصیبت کا دن روزِ صفا ہے ۔ (مومن کے لیے جہاد کا دن پاکی نفس کا دن ہوتا ہے ،وہ ہر گناہ سے پاک ہو جاتا ہے )

 
ساربان یاران بہ یثرب ما بہ نجد
آن حدی کو ناقہ را آرد بوجد

مطلب: ساربان دوست تو مدینہ منورہ میں پہنچے ہوئے ہیں اور ہم نجد میں ہیں ۔ وہ حدی کہاں ہے جو ہماری اونٹنی کو وجد میں لائے ۔

 
ابر بارید از زمین ہا سبزہ رست
می شود شاید کہ پاے ناقہ سست

مطلب: بادل برسا اور زمین سے سبزہ اگ آیا ہے ہو سکتا ہے کہ اونٹنی کی رفتار سست ہو جائے ۔

 
جانم از درد جدائی در نفیر
آن رہے کو سبزہ کم دارد بگیر

مطلب: درد جدائی سے میری جان فریاد کر رہی ہے تو (ساربان) وہ راستہ اختیار کر جہاں سبزہ کم ہو ۔

 
ناقہ مست سبزہ و من مست دوست
او بدست تست و من در دست دوست

مطلب: اونٹنی تو سبزے میں مست ہے جبکہ میں اپنے دوست کے خیال میں مست ہوں ۔ اونٹنی کی باگ ڈور تیرے ہاتھ میں ہے اور میری مہار محبوب کے ہاتھ میں ہے ۔

 
آب را کردند بر صحرا سبیل
بر جبل ہا شستہ اوراق نخیل

مطلب: بارش کے پانی نے صحرا میں راستے بنا لیے ہیں ۔ اور پہاڑوں پر کھجور کے درختوں کے پتے دھل گئے ہیں ۔

 
آن دو آہو در قفاے یک دگر
از فراز تل فرود آید نگر

مطلب: دیکھو وہ سامنے ٹیلے کی چوٹی پر دو ہرن ایک دوسرے کے پیچھے ٹیلے کی چوٹی سے نیچے آ رہے ہیں ۔

 
یک دم آب از چشمہ صحرا خورد
باز سوے راہ پیما بنگرد

مطلب: ان ہرنوں نے کچھ دیر صحرا کے چشمے سے پانی پیا پھر راستہ چلنے والے مسافر کی طرف دیکھا ۔

 
ریگ دشت از نم مثال پرنیان
جادہ بر اشتر نمی آید گران

مطلب: نمی کی وجہ سے صحرا کی ریت ریشمی کپڑے کی طرح نرم ہو گئی ہے ۔ اس اونٹنی کے لیے راستہ دشوار نہیں رہا ۔

 
حلقہ حلقہ چون پر تیہو غمام
ترسم از باران کہ دوریم از مقام

مطلب: آسمان پر بادل تیتر کے پروں کی طرح رنگ رنگ کے بدلیوں کے حلقے بنائے ہوئے ہیں ۔ میں بارش سے ڈرتا ہوں کہ ہم ابھی منزل سے دور ہیں ۔

 
ساربان یاران بہ یثرب ما بہ نجد
آن حدی کو ناقہ را آرد بہ وجد

مطلب: اے ساربان دوست تو مدینہ منورہ میں ہے اور ہم نجد میں ہیں ۔ وہ حدی کہاں ہے جو ہماری اونٹنی کو وجد میں لے آئے تاکہ ہم جلد مدینہ پہنچ کر محبوب کا دیدار کریں ۔