حقیقت
عقاب دور بین جوئینہ را گفت نگاہم آنچہ می بیند سراب است
مطلب: دور تک دیکھنے والا عقاب مرغ آبی سے بولا میری نظر جو کچھ دیکھتی ہے وہ سراب ہے
جوابش داد آن مرغ حق اندیش تو می بینی و من دانم کہ آب است
مطلب: اس حق اندیش پرندے نے اسے جواب دیا کہ تو صرف دیکھتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ پانی ہے ۔
صدای ماہی آمد از تہ بحر کہ چیزی ہست و ھم در پیچ و تاب است
مطلب: دریا کی تہہ سے مچھلی کی آواز آئی کہ ایک چیز ہے اور وہ بھی پیچ و تاب میں ہے (مراد یہ ہے کہ کسی شے کی حقیقت آدمی کو اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک وہ خود وہ شے نہ بن جائے ۔ حق کی معرفت کے لیے حق بننا ضروری ہے ۔ یعنی جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا) ۔