Please wait..

صحبت با شاعر ہندی برتری ہری
(ہندی شاعر بھرتری ہری کے ساتھ ملاقات)

 
حوریان را در قصور و در خیام
نالہ من دعوت سوز تمام

مطلب: وہاں (بہشت میں ) محلوں اور خیموں میں مقیم حوروں کے لیے میری غزل (جو میں نے وہاں گائی) مکمل سوز کی دعوت بن گئی ۔

 
آن یکے از خیمہ سر بیروں کشید
وان دگر از غرفہ رخ بنمود و دید

مطلب: ان (حوروں ) میں سے ایک نے خیمے سے سر باہر نکالا اور ایک دوسری نے بالاخانہ سے چہرہ نکال کر مجھے دیکھا ۔

 
ہر دلے را در بہشت جاودان
دادم از درد و غم آن خاکدان

مطلب: میں نے اس بہشت جاوداں میں رہنے والے ہر دل کو اس خاکدان یعنی ہندوستان کا درد و غم دیا ۔

 
زیر لب خندید پیر پاک زاد
گفت اے جادوگر ہندی نژاد

مطلب: پاک فطرت پیر (مولانا رومی) زیر لب مسکرائے اور بولے ، اے ہند میں پیدا ہونے والے جادوگر (زندہ رود) ۔

 
آن نوا پرداز ہندی را نگر
شبنم از فیض نگاہ او گہر

مطلب: تو ذرا اس ہندی شاعر کو دیکھ جس کے فیض نگاہ سے شبنم کا قطرہ موتی بن جاتا ہے ۔

 
نکتہ آرائے کہ نامش برتری است
فطرت او چون سحاب آذری است

مطلب: وہ ایک نکتہ سنج ہے جس کا نام برتری ہے، اس کی فطرت بہار کے بادل کی سی ہے ۔

 
از چمن جز غنچہ نورس نہ چید
نغمہ تو سوے ما او را کشید

مطلب: اس نے چمن سے نئے نئے کھلے غنچے (نئی کھلی کلیوں ) کے سوا اور کچھ نہیں چنا ۔

 
پادشاہے با نواے ارجمند
ہم بہ فقر اندر مقام او بلند

مطلب : وہ ایک بادشاہ ہے جو شاعر بھی ہے اور اس کی شاعری قدرومنزلت کی حامل ہے، اور فقیر بھی اس کا مقام و مرتبہ بلند ہے ۔

 
نقش خوبے بندد از فکر شگرف
یک جہان معنی نہان اندر دو حرف

مطلب: وہ اپنے انوکھے اور نادر فکر سے خوبصورت نقش بناتا ہے، اس کے دو یعنی چند لفظوں میں جہان معنی پوشیدہ ہوتا ہے ۔

 
کارگاہ زندگی را محرم است
او جم است و شعر او جام جم است

مطلب: وہ زندگی کے کارخانے سے باخبر ہے، وہ خود جمشید اور اس کی شاعری جام جم (جمشید کا پیالہ جس میں سے دنیا نظر آتی تھی) ہے ۔

 
ما بہ تعظیم ہنر برخاستیم
باز با وے صحبتے آراستیم

مطلب: ہم اس کی مذکورہ ، خوبیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ پھر اس کے ساتھ صحبت آراستہ کی ۔

زندہ رود

 
اے کہ گفتی نکتہ ہاے دلنواز
مشرق از گفتار تو داناے راز

مطلب: اے (برتری ہری) کہ تو نے بڑی دل نواز گہری باتیں کی ہیں اور اہل مشرق تیری گفتار سے دانائے راز (رازوں سے باخبر ) ہو گئے ہیں ۔

 
شعر را سوز از کجا آید بگوے
از خودی یا از خدا آید بگوے

مطلب: ذرا یہ تو مجھے بتایئے کہ شعر میں سوز کہاں سے یا کیونکر پیدا ہوتا ہے، یہ بتا کہ آیا وہ خودی سے پیدا ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے آتا ہے

برتری ہری

 
کس نداند در جہان شاعر کجاست
پردہ او از بم و زیر نواست

مطلب: کوئی نہیں جانتا کہ دنیا میں شاعر کہاں ہے ۔ اسکا راگ نغمہ کے اونچے نچلے سروں کے پردے میں نہاں رہتا ہے ۔

 
آن دل گرمے کہ دارد در کنار
پیش یزدان ہم نمی گیرد قرار

مطلب: ایسا شاعر جس کے پہلو، سینے میں بے قرار دل ہوتا ہے وہ خدا کے حضور بھی بے قرار رہتا ہے ۔

 
جان ما را لذت اندر جستجوست
شعر را سوز از مقام آرزوست

مطلب: ہماری جان میں لذت جستجو سے پیدا ہوتی ہے اور شعر میں سوز آرزو ہی کے مقام سے پیدا ہوتا ہے ۔

 
اے تو از تاک سخن مست مدام
گر ترا آید میسر این مقام

مطلب: اے (زندہ رود) تو جو شاعری کی انگور کے شراب سے ہمیشہ مست رہتا ہے ، اگر تجھے آرزو کا یہ مقام حاصل ہو جائے ۔

 
با دو بیتے در جہان سنگ و خشت
می توان بردن دل از حور بہشت

مطلب: تو اس دنیا میں دو ایک شعروں سے بہشت کے حوروں کے دل چھینے یا جیتے جا سکتے ہیں ۔

زندہ رود

 
ہندیان را دیدہ ام در پیچ و تاب
سر حق وقت است گوئی بے حجاب

مطلب: میں نے اہل ہند کو بے قرار دیکھا ہے، اب یہ وقت ہے کہ حق تو حق کا راز کھل کر یا واضح طور پر بیان کر دے ۔

برتری ہری

 
ایں خدایان تنک مایہ ز سنگ اندو ز خشت
برترے ہست کہ دور است ز دیر و ز کنشت

مطلب: (اے اہل ہند) تمہارے یہ تنک مایہ خدا (مادی اشیا) پتھر اور اینٹوں سے بنے ہوئے ہیں ان سے بڑھ کر اور ایک بلند ہستی (خدا) ہے جو دیر و کنشت سے دور ہے ۔

 
سجدہ بے ذوق عمل خشک و بجاے نرسد
زندگانی ہمہ کردار چہ زیبا و چہ زشت

مطلب: جو سجدہ ذوق عمل کے بغیر ہو گا وہ خشک بھی ہے اور کہیں نہیں پہنچاتا، زندگی سر تا پا کردار ہے خواہ اچھا ہو یا برا ۔

 
فاش گویم بتو حرفے کہ نداند ہمہ کس
اے خوش آن بندہ کہ بر لوح دل او را بنوشت

مطلب: میں تجھ سے ایک ایسی بات کھل کر کہتا ہوں جسے ہر کوئی نہیں جانتا، وہ بندہ بہت اچھا جس نے یہ بات دل کی تختی پر لکھ لی ۔

 
این جہانے کہ تو بینی اثر یزدان نیست
چرخہ از تست و ہم آن رشتہ کہ بر دوک و تو رشت

مطلب: یہ جہان جو تو دیکھ رہا ہے خدا کے اثر سے نہیں ہے ۔ چرخہ تو تیرا ہے اور وہ دھاگا بھی تیرا ہے جو تو نے چرخے کے تکلے پر کاتا ہے ۔ گویا اس دنیا میں جو بھی اچھائی برائی ہے وہ خود انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے ۔

 
پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار
زانکہ خیزد ز عمل دوزخ و اعراف و بہشت

مطلب: تو مکافاتِ عمل کے آئین کے آگے سجدہ کر، اس لیے کہ یہ دوزخ اور برزخ اور بہشت سب عمل ہی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ بقول علامہ ،
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے