پیش کش بحضور ملتِ اسلامیہ
ای ترا حق خاتم اقوام کرد بر تو ہر آغاز را انجام کرد
مطلب:اے ملت اسلامیہ جس طرح تیرے رسول خاتم الرسل ﷺ اور اس دنیا کے آخری نبی تھے اسی طرح تو قوموں کی خاتم یعنی تیرے بعد کوئی قوم پیدا نہ ہو گی ۔ اس سلسلے میں جو آغاز ہوا تھا وہ تیری ذات پر انجام کو پہنچ گیا ۔
ای مثال انبیا پاکان تو ہمگر دلہا جگر چاکان تو
مطلب: اے ملت! تیرے پاکباز اور پاک باطن اصحاب کو اس سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہے جو پہلی قوموں میں انبیا کو حاصل تھی ۔ تیرے جن بزرگوں کے جگر عشق حق کی وجہ سے چاک چاک ہیں وہ دلوں کے زخم رفو کر دیتے ہیں ۔
ای فلک مشت غبار کوی تو ای تماشا گاہ عالم روی تو
مطلب: یہ آسمان تیرے کوچے کے گردوغبار کی مٹھی ہے اور تیرے چہرے کے حسن کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئی ہیں ۔ تیرا چہرہ دنیا والوں کے لیے تماشاگاہ ہے ۔
ہمچو موج، آتش تہ پا میروی تو کجا بہر تماشا میروی
مطلب: لیکن تیری کیفیت یہ ہے کہ تو موج کی طرح بے قرار ہو کر دوسری طرف چلی جا رہی ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ تجھے ذوق تماشا کہاں لیے جا رہا ہے ۔ تو کس کے نظارے کے لیے جا رہی ہے ۔ ان دونوں شعروں کے آخری دو مصرعے سعدی کی غزل کے ایک شعر سے لیے گئے ہیں ۔
رمز سوز آموز از پروانہ ئی در شرر تعمیر کن کاشانہ ئی
مطلب: تجھے چاہیے کہ پروانے سے سوز کے راز سیکھے اور چنگاریوں میں محل تعمیر کرے یعنی گھر بنائے ۔
طرح عشق انداز اندر جان خویش تازہ کن با مصطفی پیمان خویش
مطلب: اپنی جان کے اندر عشق رسول اللہ کا انداز پیدا کر اور رسول اللہ ﷺ سے پھر اپنے پیمان نیاز وفا باندھ لے ۔
خاطرم از صحبت ترسا گرفت تا نقاب روی تو بالا گرفت
مطلب: اے ملت! جب تیرے چہرے سے نقاب اوپر کو اٹھا اور میں نے اس کی آب و تاب دیکھی تو میرے دل کو نصرانیوں اور غیروں سے نفر ت ہو گئی ۔
ہم نوا از جلوہ ی اغیار گفت داستان گیسو و رخسار گفت
مطلب: میرے ہمنواؤں نے غیروں کو جلوہ افروزیوں کے افسانے سنائے ۔ زلف و رخسار کی داستانیں بیان کیں ۔
بر در ساقی جبین فرسود او قصہ ی مغ زادگان پیمود او
مطلب: انھوں نے ساقی کے دروازے پر پیشانی گھسی، وہ مغ زادوں کے قصے کہتے رہے (یہ اس وقت کے عام شاعروں کی کیفیت تھی) ۔
من شہید تیغ ابروے توام خاکم و آسودہ ی کوی توام
مطلب: اے ملت اسلامیہ! میں تو تیری تیغ ابرو کا شہید ہوں ۔ بلاشبہ میری حیثیت خاکی ہے لیکن تیرے ہی کوچے میں مجھے آسائش نصیب ہوئی ہے ۔
از ستایش گستری بالا ترم پیش ہر دیوان فرو ناید سرم
مطلب: میں کسی کی مدح سرائی نہیں کر سکتا اس سے بہت اونچا ہوں ۔ ہر وزیر کے آگے میرا سر نہیں جھک سکتا ۔
از سخن آئینہ سازم کردہ اند وز سکندر بی نیازم کردہ اند
مطلب: قضا و قدر نے مجھے شعر و سخن کا آئینہ ساز بنا دیا ہے اور بادشاہوں سے بے نیاز کر دیا ہے اگرچہ وہ سکندر جیسی عالم گیر سلطنت ہی کے مالک ہوں ۔
بار احسان بر نتابد گردنم در گلستان غنچہ گردد دامنم
مطلب: میری گردن کسی کے احسان کے بوجھ کی روادار نہیں ہو سکتی، میں باغ میں جاؤں تو میرا دامن کھلا نہیں رہتا ،بند ہو کر کلی کی شکل اختیار کر لیتا ہے تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں باغ سے کچھ لینے کے لیے آیا ہوں ، یعنی کسی کے آگے دامن نہیں پھیلاتا ۔
سخت کوشم مثل خنجر در جہان آب خود می گیرم از سنگ گران
مطلب: میں اس دنیا میں تلوار کی طرح سخت کوش ہوں اور بھاری پتھر سے آب یعنی اپنی چمک اور تیزی حاصل کرتا ہوں ۔ اقبال نے شاعرانہ اندا ز میں یہ فرمایا ہے کہ میرا خنجر بھی پتھر سے اپنے لیے آب حاصل کرتا ہے ، سخت کوشی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔
گرچہ بحرم موج من بیتاب نیست بر کف من کاسہ ی گرداب نیست
مطلب: اگرچہ میں سمندر ہوں لیکن میری موجوں میں کوئی بیقراری نہیں ہے ۔ اور میرے ہاتھ میں بھنور کا کشکول نہیں ہے ۔
پردہ ی رنگم شمیمی نیستم صید ہر موج نسیمی نیستم
مطلب: میں رنگ کا پردہ ہوں ، کوئی خوشبو نہیں کہ باد نسیم کا ہر جھونکا مجھے شکار کر کے لے جائے ۔ (مطلب یہ ہے کہ نسیم چلتی ہے تو خوشبو اڑا کر لے جاتی ہے لیکن رنگ نہیں لے جا سکتی ۔ )
در شرار آباد ہستی اخگرم خلعتی بخشد مرا خاکسترم
مطلب: میں زندگی کے اس مقام پر، جہان شعلے ہی شعلے ہیں ایک انگارہ ہوں اور اس پر خوش ہوں کہ میری راکھ میرے لیے خلعت مہیا کرے گی ۔
بر درت جانم نیاز آوردہ است ہدیہ ی سوز و گداز آوردہ است
مطلب: اے ملت اسلامیہ میری جان تیرے در پر نیاز (نذرانہ) لے کر آئی ہے، اس کے دامن میں تیرے لیے سوزو گداز کا تحفہ ہے ۔
ز آسمان آبگون یم می چکد بر دل گرمم دمادم می چکد
مطلب : جس آسمان کا رنگ نیلا ہٹ میں سمندر کے پانی سے ملتا جلتا ہے اس سے میرے پر حرارت دل پر دمبدم دریا ٹپکتے رہتے ہیں ۔
من ز جو باریکتر می سازمش تا بہ صحن گلشنت اندازمش
مطلب: میں انہیں ندی سے بھی زیادہ باریک بناتا ہوں تا کہ وہ تیرے باغ کے صحن میں بہنے لگے ۔
زانکہ تو محبوب یار ماستی ہمچو دل اندر کنار ماستی
مطلب: اے ملت! یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تو ہمارے مجبوب کو پیاری ہے اور ہم نے دل کی طرح تجھے پہلو میں بٹھا رکھا ہے ۔
عشق تا طرح فغان در سینہ ریخت آتش او از دلم آئینہ ریخت
مطلب: جب سے عشق نے میرے سینے میں آہ و فغاں کی بنیاد رکھی اس کی آگ نے میرے دل کو آئینہ بنا دیا ۔
مثل گل از ہم شگافم سینہ را پیش تو آویزم آئینہ را
مطلب: میں پھول کی طرح اپنا سینہ چیر رہا ہوں تا کہ یہ آئینہ تیرے سامنے آ جائے ۔
تا نگاہی افکنی بر روی خویش می شوی زنجیر ی گیسوی خویش
مطلب:اور تو اس آئینے میں اپنے چہرے پر ایک نظر ڈالے تاکہ تو اپنی زلف میں ہی اسیر ہو جائے ۔
باز خوانم قصہ ی پارینہ ات تازہ سازم داغہای سینہ ات
مطلب: میں تیری پرانی داستان پھر سے سناتا ہوں ، دہراتا ہوں تا کہ تیرے سینے کے داغ تازہ ہو جائیں ۔
از پی قوم ز خود نامحرمی خواستم از حق حیات محکمی
مطلب: میں اس قوم کے لیے جو اپنی حقیقت سے نا آشنا ہو چکی تھی، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پائیدار زندگی کی التجائیں کرتا تھا ۔
در سکوت نیم شب نالان بدم عالم اندر خواب و من گریان بدم
مطلب: آدھی رات کا وقت تھا، ہر طرف سناٹا تھا اور میں رو رہا تھا ۔ دنیا سو رہی تھی اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔
جانم از صبر و سکون محروم بود ورد من یا حی یا قیوم بود
مطلب : میری جان صبر اور سکون سے محروم ہو چکی تھی اور میں یا حی یا قیوم کا ورد کر رہا تھا ۔ دعا پائیدار اور محکم زندگی کے لیے تھی، ایسے میں یا حی و یا قیوم ہی کا ورد موزوں تھا ۔
آرزوئی داشتم خون کردمش تا ز راہ دیدہ بیرون کردمش
مطلب: میری ایک آرزو تھی، اسے لہو بنا کر بہایا اور آنکھوں کے راستے باہر نکال دیا ۔
سوختن چون لالہ پیہم تا کجا از سحر دریوزہ شبنم تا کجا
مطلب: انسان لالے کی طرح کب تک متواتر جلتا رہے اور کب تک صبح سے شبنم کی بھیک مانگی جائے ۔
اشک خود بر خویش می ریزم چو شمع با شب یلدا در آویزم چو شمع
مطلب: میں نے شمع کی طرح اپنے آنسو اپنے آپ پر گرانے شروع کئے اور اسی کی طرح اندھیری رات سے پنجہ آزمائی شروع کر دی جس شمع سے آنسو نکلتے ہیں وہ مومی شمع ہوتی ہے اور اندھیری رات سے شمع کی پنجہ آزمائی کا معاملہ بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ وہ چاہتی ہے اندھیرا اس کے نور سے اجالا بن جائے ۔
جلوہ را افزودم و خود کاستم دیگران را محفلی آراستم
مطلب: میں خود گھلتا گیا اور روشنی کو تیز تر کرتا رہا، اس طرح دوسرے کے لیے محفل آراستہ کر دی ۔
یک نفس فرصت ز سوز سینہ نیست ہفتہ ام شرمندہ ی آدینہ نیست
مطلب: مجھے ایک لمحے کے لیے بھی سینے کی جلن سے فرصت نہیں ملتی، میرے ہفتے میں روز جمعہ ہے ہی نہیں (اسلامی حکومت میں جمعہ تعطیل ہوتی تھی) ۔ شاعر بتانا چاہتا ہے کہ سب کو ہفتے میں ایک دن کے لیے چھٹی مل جاتی ہے لیکن میرے ہاں چھٹی کا کوئی دن نہیں آتا ۔
جانم اندر پیکر فرسودہ ئی جلوہ ی آہی است گرد آلودہ ئی
مطلب: میرے پرانے جسم میں جو غموں سے نڈھال ہے جان کی کیفیت ایسی ہے جیسے آہ کا ایک جلوہ گردوغبار سے آلودہ ہو ۔
چون مرا صبح ازل حق آفرید نالہ در ابریشم عودم تپید
مطلب: ازل کی صبح کو خدا نے مجھے پیدا کیا تو میرے ساز کے ریشمی تاروں میں نالے تڑپنے لگے ۔
نالہ ئی افشاگر اسرار عشق خونبہای حسرت گفتار عشق
مطلب: یہ نالے ایسے تھے جو عشق کے بھید ظاہر کر دینے والے تھے اور جنھیں عشق کی حسرت گفتار کا خوں بہا کہنا چاہیے ۔
فطرت آتش دہد خاشاک را شوخی پروانہ بخشد خاک را
مطلب: ان نالوں میں یہ قوت تھی کہ خس و خاشاک کو آگ کی فطرت بخش دیں اور خاک کی چٹکی میں پروانے کی شوخی بھر دیں (مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ازل ہی سے قوم کا درد رکھ دیا تھا اور وہی درد آج اس دعوت کا سبب بنا) ۔
عشق را داغی مثال لالہ بس در گریبانش گل یک نالہ بس
مطلب: عشق کے لیے لالے کی طرح داغ ہی کا سامان کافی ہے ۔ اگر اس کے گریبان میں لالے کا ایک بھی پھول ہو تو وہ کافی ہے ۔
من ہمین یک گل بدستارت زنم محشری بر خواب سرشارت زنم
مطلب: اے ملت اسلامیہ ! میں یہی پھول تیری دستار (پگڑی) کے زینت بناتا ہوں تو بڑی گہری نیند سوئی ہوئی ہے میں حشر برپا کر رہا ہوں تا کہ تو جاگ اٹھے ۔
تا ز خاکت لالہ زار آید پدید از دمت باد بہار آید پدید
مطلب: تاکہ تیری خاک کا دامن لا لہ زار بن جائے (وجود میں آئے) اور تیرا سانس اس کائنات کے لیے فصل بہار کی شکل اختیار کرے ۔