(۲۶)
دل بے قید من با نور ایمان کافری کردہ حرم را سجدہ آوردہ بتان را چاکری کردہ
مطلب: میرے بے قابو دل نے (جس کا ایمان پختہ نہیں تھا) نورِ ایمان کے ساتھ ارتکاب کفر کیا ہے ۔ اسی وجہ سے میری حالت یہ ہے کہ میں سجدہ ریز تو خدا کے حضور ہوں لیکن غلامی بتوں کی کر رہا ہوں ۔ میرا دل خدا پر ایمان لانے کے باوجود دنیا کی آلائشوں سے پاک نہیں ہے ۔
متاع طاقت خود را ترازوے بر افرازد ببازار قیامت با خدا سوداگری کردہ
مطلب: عبادت گزار اپنی عبادت و ریاضت ترازو میں تولتا ہے یعنی تسبیح کے دانوں پر شمار کر کے سمجھتا ہے کہ اس عبادت کے بدلے اسے جنت ملے گی ۔ قیامت کے روز جب اعمال کا حساب ہو گا تو اسے دنیا میں خدا سے سوداگری کرنے کے عوض کچھ نہ ملے گا ۔
زمین و آسمان را بر مراد خویش میں خواہد غبار راہ و با تقدیر یزدان داوری کردہ
مطلب: انسان زمین و آسمان اپنی خواہش کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے، حالانکہ اس کا مالک و مختار تو اللہ ہے ۔ انسان کی حیثیت تو راستے کی گرد کی مانند ہے اس کی یہ حیثیت کہ کائنات کے حاکم کا مقابلہ کرے ۔
گہے با حق در آمیزد، گہے باحق در آویزد زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ
مطلب:انسان کی کیفیت تو یہ ہے کہ کبھی وہ حق کی حمایت پر آمادہ ہوتا ہے اور کبھی حق کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے ۔ اس میں ثابت قدمی مفقود ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ حضرت علی کی طرح بہادری کے جوہر دکھاتا ہے اور کبھی خیبر کے یہودیوں کی طرح حق کے خلاف آواز بلند کرتا ہے ۔
باین بے رنگی جوہر ازو نیرنگ می ریزد کلیمی بیں کہ ہم پیغمبری ہم ساحری کردہ
مطلب: ایسا شخص جو ثابت قدم نہیں وہ ایسے جوہر کی مانند ہے جو بے رنگ ہے، لیکن اس بے رنگی کے باوجود اس میں سے رنگ اور عجائبات برآمد ہو رہے ہیں ۔ یہ شخص ایسے کلیم کی مانند ہے جو ایک طرف تو خدا سے ہم کلام ہے اور دوسری طرح ساحری میں بھی ملوث ہے ۔ یہ دورنگی آج کے دور کے مسلمانوں میں عام ہے ۔
نگاہش عقل دور اندیش را ذوق جنوں دادہ ولیکن با جنون فتنہ سامان نشتری کردہ
مطلب: ایسے شخص کی دور اندیش نگاہ نے عقل و جنون کا ذوق عطا کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس جنون کے خاتمہ کے لیے اس کی رگوں میں نشتر بھی چلاتا رہتا ہے وہ عقل کو جنون آشنا بھی کرتا ہے اور پھر اسے ختم کرنے کی چالیں بھی سوچتا رہتا ہے ۔
بخود کے می رسد این راہ پیماے تن آسانے ہزاران سال منزل در مقام آزری کردہ
مطلب: ایسی دو رخی چال رکھنے والا آرام طلب اور سست رو اپنے آپ کو کیسے پہچان سکتا ہے ۔ جس نے ہزاروں سال سے بت گری اور بت پرستی کو اپنا رکھا ہوا اسے اپنے تخلیق کار کی کیا خبر ہو سکتی ہے
(۲۷)
ز شاعر نالہ مستانہ در محشر چہ می خواہی تو خود ہنگامہ ، ہنگامہ دیگر چہ میں خواہی
مطلب: اے خدا! تو حشر کے روز مجھ سے نالہَ مستانہ کی خواہش کیوں رکھتا ہے ۔ جبکہ اس دن تو ساری بزم ہی تیرے ہنگامے سے بھری ہو گی ۔ پھر تو مجھ سے یہ کیوں چاہتا ہے کہ میں اس ہنگامے میں اپنی شاعری کے ذریعے اور تیزی پیدا کروں ۔
بہ بحر نغمہ کردی آشنا طبع روانم را ز چاک سینہ ام دریا طلب، گوہر چہ می خواہی
مطلب: اے خدا! تو نے میری طبیعت کو سمندر کے نغموں سے آشنا کر دیا ہے ۔ اس لیے تو میرے چاکِ گریباں سے دریا کی طلب کر تو اس سے موتی کیوں مانگ رہا ہے ۔ میں آج بہ روزِ حشر ترے سامنے اپنے اشعار کا نذرانہ پیش کر رہا ہوں ۔ یہی میرے اعمال ہیں ۔
نماز بے حضور از من نمی آید، نمی آید دلے آوردہ ام دیگر ازیں کافر چہ میں خواہی
مطلب: اے خدا! مجھ سے ایسی نماز کی ادائیگی ممکن نہیں جس نماز میں تو میرے سامنے نہ ہو ۔ میں نے اپنا محبت بھرا دل تیرے حضور پیش کر دیا ہے اب تو اس بے نماز کافر سے اور کیا چاہتا ہے
(۲۸)
نہ در اندیشہ من کار زار کفر و ایمانے نہ در جان غم اندوزم ہواے باغ رضوانے
مطلب: میری حالت یہ ہے کہ نہ تو میرے اندر کفر اور ایمان کی جنگ ہو رہی ہے اور نہ ہی اپنی جان جنت کے باغ کی آرزو میں غموں کے حوالے کرتا ہوں ۔
اگر کاوی درونم را خیال خویش رایابی پریشان جلوہ چوں ماہتاب اندر بیابانے
مطلب: اے خدا! اگر تو میرے دل کی دنیا میں جھانکے تو وہاں صرف اپنا ہی تصور موجود پائے گا ۔ تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تیرے سوا مجھے کسی کی تمنا نہیں ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی بیابان میں چاند کی چاندنی کا جلوہ بکھرا ہو ہوتا ہے اسی طرح تیرا تصور بھی میرے اندر سمایا ہوا ہے ۔
(۲۹)
مرغ خوش لہجہ و شاہین شکاری از تست زندگی را روش نوری و ناری از تست
مطلب: (اے ربِ کائنات) ایک خوش الحان پرندہ ہو یا شکار کرنے والا ایک باز ۔ دونوں تیری ہی قدرت کے شاہکار ہیں ۔ اس زندگی میں نو ر اور نار کے جو راستے نظر آتے ہیں وہ بھی تیری ہی تخلیق ہیں (ہر چیز میں تیرے ہی جلوے نمایاں ہیں ) ۔
دل بیدار و کف خاک و تماشاے جہان سیر این ماہ بشب گونہ عماری از تست
مطلب: اس مٹھی بھر خاک میں جو روشن دل ہے وہ تیری قدرت کے نظارے کر رہا ہے ۔ یہ اس چاند کی مانند ہے جو رات کی ڈولی میں سفر کرتا ہے ۔ یعنی میرا یہ دل اگرچہ ایک تاریک بدن میں قید ہے پھر بھی یہ سارے جہان کی سیر کر رہا ہے ۔
ہمہ افکار من از تست چہ در دل، چہ بلب گہر از بحر ز بر آری، نہ بر آری از تست
مطلب: میرے سارے افکار خواہ وہ دل میں ہیں یا میری زبان پر تیری ہی وجہ سے ہیں ۔ اب اگر تو اس سمندر سے موتی نکالے یا نہ نکالے یہ تیری مرضی پر منحصر ہے ۔
من ہمان مشت غبارم کہ بجائے نرسد لالہ از تست و نم ابر بہاری اس تست
مطلب: میں تو وہی مشتِ غبار ہوں جو کسی جگہ بھی نہیں پہنچتی ۔ میری حیثیت کچھ بھی نہیں ۔ یہ گل لالہ اور بہار کے بادلوں میں نمی تیری ہی وجہ سے ہے ۔
نقش پرداز توئی ما قلم افشانیم حاضر آرائی و آیند نگاری از تست
مطلب: تو ہی تو اس جہان کا اصل مصور ہے ۔ ہم تو محض قلم کار ہیں اس قلم میں نقش و نگار پیدا کرنے والا تو خالق کائنات ہے جو کچھ میرے سامنے ہو رہا ہے اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا سب کا سب تو ہی ہے ۔
گلہ ہا داشتم، از دل بزبانم نرسید مہر و بے مہری و عیاری و یاری از تست
مطلب: مجھے اس جہان اور اہل جہان سے بہت سی شکایتیں ہیں ۔ لیکن میں انہیں زبان پر نہیں لاتا ۔ کیونکہ میں اس بات سے باخبر ہو چکا ہوں کہ محبت عداوت، مکاری اور دوستی سب کچھ تیری وجہ سے ہے ۔ اس لیے شکوہ و شکایت فضول ہے ۔
(۳۰)
خوشتر ز ہزار پارسائی گامے بطریق آشنائی
مطلب:ہزار ہا قسم کی نیکی اور پارسائی سے عاشقی کے راستے پر ایک قدم رکھنا بہتر ہے ۔
در سینہ من دمے بیاساے از محنت و کلفت خدائی
مطلب: اے میرے محبوب تھوڑی دیر کے لیے میرے دل میں آرام کر لے ۔ کیونکہ تجھے اس کائنات کو چلانے کے لیے جو محنت کرنا پڑ رہی ہے وہ خاصی تکلیف دہ ہے ۔
ما را ز مقام ما خبر کن مائیم کجا و تو کجائی
مطلب: اے خدا! تو ہمیں ہمارے مقام سے آگاہ کر دے ۔ یعنی ہماری حیثیت کیا ہے اس سے باخبر کر دے ۔ ہم کہاں ہیں اور تو کہاں ہے یعنی بندے اور خدا کے درمیان کیا تعلق ہے
آن چشمک محرمانہ یاد آر تا کے بتغافل آزمائی
مطلب: تو اپنی اس راز آشنا آنکھوں کی حرکت کو یاد کر ۔ جس نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا ۔ تو کب تک ہم سے غافل رہے گا ۔ اے خدا تو پھر سے مجھ پر وہی نظر ڈال اور مجھے اپنے راز سے آشنا کر دے ۔
دی ماہ تمام گفت با من در ساز بداغ نارسائی
مطلب: کل چودھویں کے چاند نے مجھ سے کہا کہ ہجر کے داغ سہنے کی عادت ڈال لے کیونکہ عشق میں یہی رویہ بہتر ہے ۔
خوش گفت ولے حرام کردند در مذہب عاشقان جدائی
مطلب: اس چاند نے بات تو ٹھیک ہی کی تھی لیکن میں کیا کروں کہ عاشقوں کے مذہب میں جدائی حرام قرار دی گئی ہے ۔
پیش تو نہادہ ام دل خویش شاید کہ تو این گرہ کشائی
مطلب: میں نے تو اپنا دل تیرے حضور پیش کر دیا ہے اس امید پر کہ شاید تو اس دل کی گرہ کھول دے ۔ یعنی اس میں اپنی محبت کا چراغ روشن کر دے ۔