(۲۱)
سوز و گدازِ زندگی لذتِ جستجوے تو راہ چو مار می گزد گر نروم بسوے تو
مطلب: اس زندگی میں حرارت و گداز تیری تلاش کی لذت کے باعث ہے ۔ اگر میں تیری طرف سفر اختیار نہ کروں تو راستہ مجھے سانپ کی طرح ڈستا ہے ۔
سینہ کشادہ جبرئیل از بر عاشقان گذشت تا شررے بہ او فتد آتش آرزوے تو
مطلب: جبرئیل امین اپنا سینہ کھولے ہوئے عاشقوں کے پاس سے گزر گیا تا کہ ان میں تیری آرزو کی ایک چنگاری آ گرے ۔
ہم بہواے جلوہَ پارہ کنم حجاب را ہم بنگاہِ نارسا پردہ کشم بروے تو
مطلب: میں تیرے رُخ روشن کی دید کی تمنا میں تیرے چہرے پر پڑے ہوئے پردے کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر رہا ہوں ۔ اپنی اس نگاہ سے جو تیرے جلووَں کی تاب لانے کی ہمت نہیں رکھتی ۔ تیرے چہرے پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں ۔ یعنی حسرت دیدار بھی ہے اور نگاہوں میں تابِ نظارہ بھی نہیں ۔
من بتلاشِ تو رومِ یا بتلاشِ خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگانِ کوے تو
مطلب: اے میرے محبوب! میں اس بات سے بے خبر ہوں کہ میں تیری تلاش میں ہوں یا میں خود کو تلاش کرنے جا رہا ہوں کیونکہ میری عقل، میرا دل اور میری نظر سب کچھ تیری گلیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے ۔
(۲۲)
دریں محفل کہ کار او گزشت از بادہ و ساقی ندیمے کو کہ در جامش فرو ریزم مے باقی
مطلب: اس بزم ِ جہاں میں ساقی رہے اور نہ ہی میکش اس کا کام شراب و ساقی سے گزر گیا ہے ۔ ایسا دوست اب کہاں ہے کہ میں بچی ہوئی شراب اس کے جام میں انڈیل دوں ۔ مجھے تو کوئی اپنے اسلاف کی پیروی کرنے والا نظر نہیں آتا ۔
کسے کو زہر شیریں می خورد از جام زرینے مے تلخ از سفال من کجا گیرد بہ تریاقی
مطلب: ایسا میکش جو جامِ زریں میں میٹھا زہر پی رہا ہے ۔ وہ میرے مٹی کے پیالے سے زہر کے اثر کو زائل کرنے والی شراب کب پئے گا ۔
شرار از خاک من خیزد ، کجا ریزم ، کرا سوزم غلط کردی کہ در جانم فگندی سوز مشتاقی
مطلب: میری مٹی سے تو عشق کی چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں ۔ میں انہیں کہاں پھینکوں اور ان سے کس کو جلاؤں ۔ اے خدا تو نے میرے جسم میں یہ شررِ عشق پیدا کر کے اچھا نہیں کیا ۔
مکدر کرد مغرب چشمہ ہاے علم و عرفان را جہان را تیرہ تر سازد چہ مشائی چہ اشراقی
مطلب: تہذیب مغرب نے علم و دانش کے چشموں کو آلودہ کر دیا ہے ۔ ارسطو اور افلاطون کے پیروکار اپنے افکارِ پریشاں سے دماغوں کو تو روشن کر رہے ہیں لیکن دلوں میں تاریکیاں پھیلا رہے ہیں ۔
دل گیتی انا المسموم انا المسموم فریادش خرد نالان کہ ما عندی تریاق و لاراقی
مطلب: اہل مغرب کے افکار نے اس جہاں کے دل کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ ہر کوئی فریاد کر رہا ہے کہ میں آلودہ ہو گیا ہوں ۔ مجھے اس زہر سے نجات دلاوَ ۔ عقل ماتم کناں ہے کہ میرے پاس اس زہر کا کوئی تریاق نہیں ہے اور نہ ہی منتر جنتر پڑھنے والا ہے جو مغرب کے باطل افکار سے لوگوں کو نجات دلا دے ۔
چہ ملائی، چہ درویشی، چہ سلطانی، چہ دربانی فروغ کارمی جوید بسالوسی و زراقی
مطلب: ملا ، درویش ، سلطان اور درباری سبھی اپنے اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مصروف کار ہیں ۔ اور اس مقصد کے لیے وہ فریب اور منافقت سے کام لے رہے ہیں ۔
ببازارے کہ چشم صیرفی شور است و کم نور است نگینم خوار تر گیردد چو افزاید بہ براقی
مطلب: اس بازارِ جہاں میں جہاں اچھی چیز کو پرکھنے والی آنکھ بیمار اور بے نور ہے ۔ میرا نگینہ جب انہیں چمک دمک دکھاتا ہے تو ذلیل و خوار ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کی نظر اصل چیز پرکھنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہے ۔ میرے پیغام کی قدر و قیمت سے وہ آگاہ نہیں ہیں ۔
(۲۳)
ساقیا بر جگرم شعلہ نمناک انداز دگر آشوب قیامت بکف خاک انداز
مطلب: اے ساقی میرے جگر پر نم آلود شعلہ پھینک ۔ یعنی مجھے شراب عشق پلا کر میرے اس مٹھی بھر جسم میں اپنے عشق کا شور قیامت بر پا کر دے ۔
او بیک دانہ گندم بزمینم انداخت تو بیک جرعہ آب آنسوے افلاک انداز
مطلب: میرے جدِ امجد آدم نے گندم کا ایک دانہ کھا کر مجھے جنت سے زمین پر پھینک دیا تھا ۔ اے ساقی اب تو مجھے اپنی شراب معرفت کا ایک گھونٹ پلا کر آسمانوں کے اس پار پھینک دے ۔
عشق راہ بادہ مرد افگن و پرزور بدہ لاے این بادہ بہ پیمانہ ادراک انداز
مطلب: جذبہَ عشق جو کہ اس زمانے میں بے زور اور بے وقعت ہو چکا ہے تو اسے اور شہ زوری کی شراب پلا دے اور اس شراب کی تلجھٹ دانش کے پیمانہ میں ڈال دے تاکہ وہ بھی عشق سے آشنا ہو جائے ۔
حکمت و فلسفہ کرد است گران خیز مرا خضر من از سرم این بار گران پاک انداز
مطلب: اس دور کی حکمت اور فلسفہ نے مجھے آرام طلب کر دیا ہے اے میرے خضر تو یہ بوجھ میرے سے اتار دے ۔
خرد از گرمی صہبا بگدازے نرسید چارہ کار بآن غمزہ چالاک انداز
مطلب: عقل کی صراحی شراب کی حدت سے نہیں پگھلتی ۔ تو اپنے عشوہ و غمزہ سے اسے عشق آشنا کر دے یا مجھے اس عقل سے نجات دے دے کیونکہ عقل سے خدا کی پہچان نہیں ہو سکتی ۔
بزم در کشمکش بیم و امید است ہنوز ہمہ را بے خبر از گردش افلاک انداز
مطلب: تیری محفل پر ابھی تک خوف اور امید کی کشمکش طاری ہے ۔ اے خدا! تو اہلِ محفل کو آسمانوں کی گردش سے بے خبر کر دے (یعنی انہیں بے یقینی کی کیفیت سے نکال کر اپنے عشق کی دولت سے مالامال کر دے) ۔
(۲۴)
از آن آبے کہ در من لالہ کارد ساتگینے دہ کف خاک مرا ساقی بباد فرودینے دہ
مطلب: اے خدا مجھے اس پانی (شرابِ عشق) سے صراحی یا بڑا پیالہ عطا کردے جو میرے سینے میں لالہ کے پھول کھلا دے ۔ یعنی وہ شراب عشق جو میرے دل میں امنگوں کو بیدار کر دے ۔ اے ساقی دوراں میرے اس مٹھی بھر جسم کو بہار کی ہوا کے سپرد کر دے تاکہ میری ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ حاصل ہو ۔
ز مینائے کہ خوردم در فرنگ اندیشہ تاریک است سفر ورزیدہ خود را نگاہ راہ بینے دہ
مطلب: یورپ میں دوران قیام اس صراحی سے میں نے جو شراب پی اس سے میری سوچ اور فکر کا دائرہ تنگ ہو گیا ۔ اپنے راستے کے اس مسافر کو دیکھنے والی نگاہ عطا کر دے کیونکہ یورپی افکار سے مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔
چو خس از موج ہر بادے کہ می آید ز جا رفتم دل من از گمانہا در خروش آمد یقینے دہ
مطلب: جس طرح ہوا کا ہر جھونکا تنکے کو اڑا کر لے جاتا ہے میں بھی اس تنکے کی طرح زمانے کے غلط نظریات کی نذر ہو گیا ہوں اور اپنا اصل مقام بھی بھول گیا ہوں ۔ میرا دل اب مختلف قسم کے شکوک و شبہات کی وجہ سے فریاد کر رہا ہے ۔ اسے یقین کی دولت عطا کر ۔
بجانم آرزوہا بود و نابود شرر دارد شبم را کوکبے از آرزوے دل نشینے دہ
مطلب: مجھے تو ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ میرے پاس دنیا کا یہ ساز و سامان موجود ہے اور وہ نہیں ہے ، یہی چنگاری مجھے ہر وقت جلائے رکھتی ہے ۔ میری زندگی کی رات کو کسی دلفریب آرزو کا ستارہ بخش دے ۔ تاکہ میں دنیا طلبی سے نجات حاصل کر کے تیرا طلب گار بن جاؤں ۔
بدستم خامہ دادی کہ نقش خسروی بندد رقم کش این چنینم کردہ لوح جبینے دہ
مطلب: اے خدا! تو نے میرے ہاتھوں میں ایسا قلم دیا ہے کہ جس سے میں نقشِ شاہانہ کھینچوں ۔ تو نے مجھے ایسا تحریری فن عطا کیا ہے تو اس کے لیے کسی پیشانی کی تختی بھی عطا کر دے جس پر میں اپنا پیغام بھی تحریر کر سکوں ۔
(۲۵)
ز ہر نقشے کہ دل از دیدہ گیرد پاک می آیم گدائے معنی پاکم تہی ادراک می آیم
مطلب: میں ہر اس برے نقش سے پاک ہو کر آیا ہوں جو دل پر آنکھوں کے ذریعے ابھرتا ہے ۔ میں پاکیزہ فطرت رکھتا ہوں اور تیرے پاس ہر فکر اور خیال سے آزاد ہو کر آیا ہوں یعنی میرا دل ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے ۔
گہے رسم و رہ فرزانگی ذوق جنوں بخشد من از درس خرد مندان گریبان چاک می آیم
مطلب: کبھی کبھی عقل و دانش کے طور طریقے ذوقِ جنوں عطا کرتے ہیں ۔ میں بھی دانشمندوں کی درسگاہ سے پھٹا ہوا گریبان لے کر آیا ہوں ۔ یعنی میں نے بھی عقل مندوں کی بزم سے بدظن ہو کر جنوں کو گلے لگا لیا ہے ۔
گہے پیچد جہان بر من ، گہے من بر جہان پیچم بگردان بادہ تا بیروں ازیں پیچاک می آیم
مطلب:کبھی یہ دنیا مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور کبھی میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہوں ۔ اے ساقی! کوئی ایسا پیالہ گردش میں لا جسے پی کر میں دنیا کی محبت کی لپیٹ سے باہر آ سکوں ۔
نہ این جا چشمک ساقی، نہ آنجا حرف مشتاقی ز بزم صوفی و ملا بسے غمناک می آیم
مطلب: نہ تو اس جگہ یعنی (میکدے میں ) ساقی کی مست آنکھوں کے اشارے موجود ہیں اور نہ ہی درسگاہوں میں عشقِ الہٰی کی باتیں ہوتی ہیں ۔ میں نے صوفی و ملا دونوں کی مجالس کا ماحول دیکھا ہے ۔ اسے دیکھ کر مجھے بے حد صدمہ ہوا ہے اور وہاں سے غمزدہ ہو کر آیا ہوں ۔
رسد وقتے کہ خاصان ترا با من فتدکارے کہ من صحرائیم پیش ملک بیباک می آیم
مطلب: وہ وقت قریب ہے کہ تیرے خاص بندے میری طرف رجوع کریں گے کیونکہ میں تو صحرا سے تعلق رکھتا ہوں ۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ میں اپنی بات بلاخوف و خطر کرتا ہوں ۔