غزل نمبر۶
خیز و نقاب برکشا، پردگیان ساز را نغمہ تازہ یاد دہ مرغ نوا طراز را
مطلب : اٹھ اور ساز کے پردے میں چھپے ہوؤں کا گھونگھٹ کھول (نقاب اٹھا) ۔ خوشنوا پرندوں کو نیا نغمہ یاد کرا (سکھا) ۔ دین اسلام کے اعلیٰ اور پاکیزہ حقائق نوجوانوں کے سامنے پیش کر تا کہ ان میں جدوجہد کا ولولہ پیدا ہو ۔ ان حقائق سے روشناس کر جو قرآن مجید کے الفاظ میں پوشیدہ ہیں ۔
جادہ ز خون رہرواں ، تختہ ی لالہ در بہار ناز کہ راہ می زند قافلہ نیاز را
مطلب: رہرووں کے خون سے راستہ یوں بن چکا ہے جیسے موسم بہار میں گل لالہ کی کیاری، یہ کس کے ناز نے قافلہ نیاز پر دھاوا بول دیا ہے ۔ نوٹ: دنیا میں جس قدر عاشقان حق گزرے ہیں ان کو مصائب سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔
دیدہ خوابناک او گر بہ چمن کشودہ ئی رخصت یک نظر بدہ، نرگس نیم باز را
مطلب: جو تو نے اس کی سوئی ہوئی آنکھ کو چمن میں کھول دیا ہے تو ادھ کھلی نرگس کو ایک نگاہ کی رخصت بھی دیدے ۔
حرف نگفتہ شما، بر لب کودکان رسید از من بی زبان بگو خلوتیان راز را
مطلب : آپ کی ان کہی بات بچوں تک کے ہونٹوں پر آ گئی ہے ۔ مجھ بے زبان کی طرف سے یہ گوشہ گیر عارفوں سے کہنا کہ جن اسرار و رموز کو آپ حضرات نے مخفی رکھا تھا میں نے شاعری کے ذریعے عوام تک پہنچا دیا ہے ۔
سجدہ ی تو بر آورد از دل کافران خروش ای کہ دراز تر کنی پیش کسان نماز را
مطلب: تیرا سجدہ دیکھ کر کافروں کے دل سے بھی دھائی (احتجاج) نکلتی ہے ۔ اے تو کہ لوگوں کے سامنے نماز کو اور لمبا کر دیتا ہے (اس شعر میں اقبال نے ریاکار سے خطاب کیا ہے کہ تو لوگوں کے سامنے دکھاوے کی نماز پڑھتا ہے ، کافر بھی تیری نماز کو دیکھ کر تیری ریاکاری پر افسوس کرتے ہیں ) ۔
گر چہ متاع عشق را، عقل بہائی کم نہد من ندھم بہ تخت جم، آہ جگر گداز را
مطلب: اگرچہ عقل متاع عشق کی قیمت بہت کم لگاتی ہے مگر میں جگر پگھلانے والی آہ کو تخت جمشید کے مول بھی نہ دوں ۔
برہمنی بہ غزنوی گفت کرامتم نگر تو کہ صنم شکستہ بندہ شدی ایاز را
مطلب: ایک برہمن نے محمود غزنوی سے کہا میری کرامت دیکھ کہ تو نے بتوں کو توڑا مگر خود ایاز کا بندہ ہو گیا (ایاز کا پرستار ہو گیا) ۔