Please wait..

غزل نمبر۴

 
مرا ز دیدہ ی بینا شکایت دگر است
کہ چون بجلوہ در آئی حجاب من نظر است

مطلب: مجھے اپنی دیدہ َ بینا سے اور ہی قسم کی شکایت ہے ۔ جب تو درشن دیتا ہے نظر میری آڑ بن جاتی ہے(دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتی) ۔

 
بہ نوریان ز من پا بہ گل پیامی گوی
حذر ز مشت غبارے کہ خویشتن نگر است

مطلب: فرشتوں سے مجھ خاک کے زنجیری کا ایک پیغام کہہ دینا مٹی کے پتلے سے خبردار کہ وہ اپنے آپ عارف کامل ہے(اگر وہ اپنی معرفت حاصل کرے تو اس مقام پر فائز ہو سکتا ہے جہاں تم ہرگز نہیں پہنچ سکتے) ۔

 
نوا زنیم و بہ بزم بہار می سوزیم
شرر بہ مشت پر ما ز نالہ ی سحر است

مطلب: ہم نغمہ سرا ہیں اور بزم بہار میں جل رہے ہیں ۔ ہماری صبح کی فریاد ہی ہمارے پروں کے لیے شرر بن چکی ہے ۔

 
ز خود رمیدہ چہ داند نوائے من ز کجا است
جہان او دگر است و جہان من دگر است

مطلب: اپنے آپ سے وحشت کرنے والا کیا جانے کہ میرا نغمہ کہاں سے ہے اس کی دنیا اور ہے اور میری دنیا اور ہے ۔

 
مثال لالہ فتادم بگوشہ ی چمنی
مرا ز تیر نگاہی نشانہ بر جگر است

مطلب : میں گل لالہ کی طرح چمن کے ایک گوشے میں گرا پڑا ہوں ۔ میرا جگر کسی نگاہ کے تیر کے نشانے پر ہے ۔

 
بہ کیش زندہ دلان زندگی جفا طلبی است
سفر بکعبہ نکردم کہ راہ بی خطر است

مطلب: جیتا جاگتا دل رکھنے والوں کے مذہب میں زندگی مشکل پسندی (کا نام) ہے میں نے کعبے کا سفر نہیں کیا کہ راستہ بے خطر ہے ۔

 
ہزار انجمن آراستند و برچیدند
دریں سرا چہ کہ روشن ز مشعل قمر است

مطلب: ان گنت محفلیں سجائی گئیں اور پھر برخاست کر دی گئیں اس ذرا سی سرائے میں جو چاند کی مشعل سے روشن ہے ۔

 
ز خاک خویش بہ تعمیر آدمی برخیز
کہ فرصت تو بقدر تبسم شرر است

مطلب: اٹھ اور اپنی مٹی سے ایک نیا آدم ڈھال کہ تجھے صرف چنگاری کی چمک اتنی مہلت ملی ہے (تیری زندگی بہت مختصر ہے) ۔

 
اگر نہ بوالہوسی با تو نکتہ ئی گویم
کہ عشق پختہ تر از نالہ ہاے بے اثر است

مطلب: اگر تو ابو الہوس نہیں تو میں تجھ سے ایک نکتہ بیان کروں کہ بے اثر فریادوں سے عشق اور پختہ ہوتا ہے ۔

 
نوای من بہ عجم آتش کہن افروخت
عرب ز نغمہ شوقم ہنوز بے خبر است

مطلب: میرے نغمے نے عجم میں پرانی آگ پھر بھڑکا دی لیکن عرب ابھی تک میرے شوق کی لے سے بے خبر ہے۔