Please wait..

غزل نمبر۲۴

 
فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
این جلوت جانانہ ، آن خلوت جانانہ

مطلب: عاشق کعبے اور بت خانے میں کوئی فرق نہیں رکھتا ۔ شاعر نے بت خانہ کو جلوت جانانہ اور کعبہ کو خلوت جانانہ سے تعبیر کیا ہے مطلب یہ دونوں میں اس کا جلوہ ہے ۔

 
شادم کہ مزار من در کوے حرم بستند
راہے زمژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ

مطلب: میں خوش ہوں کہ میری قبر کوئے حرم میں بنائی گئی ہے کعبے سے بتخانے تک پلکوں سے ایک راستہ کھود لوں گا ۔

 
از بزم جہان خوشتر، از حور و جنان خوشتر
یک ہمدم فرزانہ و ز بادہ دو پیمانہ

مطلب: دنیا و مافیہا سے اچھی حور اور جنت سے بہتر ایک ہوشیار ساتھی اور شراب کے دو پیالے ۔

 
ہر کس نگہے دارد، ہر کس سخنے دارد
در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ

مطلب: ہر شخص نگاہ رکھتا ہے اس لیے مجھے دیکھتا ہے ہر آدمی کے پاس اپنی ایک بات ہے ۔ تیری محفل میں کہانی سے کہانی نکلتی چلی جاتی ہے ۔

 
این کیست کہ بر دلہا آوردہ شبخونے
صد شہر تمنا را یغما زدہ ترکانہ

مطلب: یہ کون ہے جس نے دلوں پر شبخون مارا ہے تمنا کے سینکڑوں شہر ترکوں کی طرح تاراج کر دیے ہیں ۔

 
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزدان بہ کمند آور اے ہمت مردانہ

مطلب : میری دیوانگی کے صحرا میں جبریل ایک گرا پڑا شکار ہے ۔ اے ہمت مرداں یزداں پر کمند ڈال (محبت میں اللہ تعالیٰ کو لا ۔ اپنے اندر خدائی صفات کا رنگ پیدا کر اور یہ رنگ عشق رسول کی بدولت پیدا ہو سکتا ہے) ۔

 
اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
ناپختہ برون آمد از خلوت میخانہ

مطلب: اقبال نے منبر پر چڑھ کر وہ راز کہہ دیا جو کہنے کا نہ تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ خلوت میخانہ سے ناپختہ ہی باہر آ گیا ہے ۔