Please wait..

جواب ۔ پہلا بند

 
درون سینہ آدم چہ نور است
چہ نور است این کہ غیب او حضور است

مطلب: آدم کے سینے میں یہ کیسا نور ہے، یہ کیسا نور ہے کہ ہر پوشیدہ چیز بھی اس کی نظروں میں ظاہر ہو جاتی ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ سینہَ آدم کا یہ نور خودی کا نور ہے ۔ یہ نور اپنے اصل کے اعتبار سے انائے مطلق ہے ) جو غیب اور ظاہر دونوں عالموں کی خبر رکھتا ہے ۔ سینہَ آدم کے اندر خودی کا نور بھی تو اسی کا پرتو ہے ۔ اس لیے یہ بھی غیب و ظاہر کو جانتا ہے (مقام افسوس ہے کہ آدم نے اپنی خودی کو دنیاوی آلائشوں سے بے کار کر کے رکھ دیا ہے) ۔

 
من او را ثابت سیار دیدم
من او را نور دیدم نار دیدم

مطلب: میں نے اسے حرکت کرتا ہوا اور ساکن دیکھا ہے ۔ میں نے اسے نور میں بھی دیکھا ہے اسے نار (عقل یا تدبیر کی صورت) میں بھی دیکھا ہے ۔

 
گہے نازش ز برہان و دلیل است
گہے نورش ز جان جبرئیل است

مطلب: کبھی اس کی نار دلیل اور محبت ہے اور کبھی اس کا نور جبرئیل فرشتہ کی جان ہے ۔

 
چہ نورے جان فروزے سینہ تابے
نیرزد باشعاعش آفتابے

مطلب: یہ کیسا نور ہے (یہ نور ایسا ہے کہ) آدمی کی جان کو روشن کر تا ہے اور سینے میں حرارت عشق پیدا کرتا ہے ۔ سورج اس کی ایک شعاع کی قیمت کے برابر نہیں ہے ۔

 
بخاک آلودہ و پاک از مکان است
بہ بند روز و شب پاک از زمان است

مطلب: یہ نورِ خودی مٹی سے آلودہ ہے لیکن اس کا مکان کوئی نہیں ۔ یہ نور ِ خودی دن اور رات کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ لیکن زمانے کی قید سے آزاد ہے ۔ (نور خودی انسانی جسم میں قید ہونے کے باوجود زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے) ۔

 
شمار روزگارش از نفس نیست
چنیں جویندہ و یابندہ کس نیست

مطلب: اس کی زندگی یا زمانہ کی گنتی اس کے سانسوں کے شمار پر نہیں ۔ اس قسم کا جوئندہ اور پائندہ اور کوئی نہیں ہے ۔

 
گہے واماندہ و ساحل مقامش
گہے دریاے بے پایان بجامش

مطلب: کبھی وہ تھکا ہوا ہوتا ہے اور ساحل اس کا مقام ہے اورکبھی بیکراں سمندر اس کے پیالے میں ہوتا ہے ۔

 
ہمین دریا ہمین چوب کلیم است
کہ از وے سینہ دریا دو نیم است

مطلب: یہی دریا ہے اور یہی (نورِ خودی) حضر ت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہے ۔ وہ عصا جسے دریا کے پانی پر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مارا تھا تو دریا کا پانی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا ۔ اور درمیان میں گزرگاہ بن گئی تھی) ۔

 
غزالے مرغزارش آسمانے
خورد آبے ز جوے کہکشانے

مطلب: وہ ایک ایسا ہرن ہے کہ اس کی چراگاہ آسمان کی وسعت ہے ۔ وہ کہکشاں کی نہر سے پانی پیتا ہے (اس کا میدان عمل ستاروں سے بھی آگے ہے) ۔

 
زمین و آسمان او را مقامے
میان کاروان تنہا خرامے

مطلب: زمین اور آسمان اس کے مقامات ہیں ۔ وہ کارواں کے درمیان ہونے کے باوجود کارواں سے الگ ہے (وہ ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے) ۔

 
ز احوالش جہان ظلمت و نور
صداے صور مرگ و جنت و حور

مطلب: اس کے احوال میں سے نور و ظلمات کا جہان، صور کی آواز ، موت، جنت اور حوریں ہیں ۔

 
ازو ابلیس و آدم را نمودے
ازو ابلیس و آدم را کشودے

مطلب: ابلیس اور آدم کی نمود اسی سے ہے ۔ ابلیس و آدم اور کشود بھی اسی سے ہے (اس کائنات میں پائی جانے والی تمام اشیاء اچھی اور بری سب اسی کے نور کی وجہ سے اپنے اعمال میں مصروف ہیں ) ۔

 
نگہ از جلوہ او ناشکیب است
تجلی ہاے او یزدان فریب است

مطلب: نگاہ اس کے جلوے کی تاب دیکھنے کے لیے ہر وقت بے قرار رہتی ہے ۔ اس کی تجلیاں خدا کی نگاہوں کو بھی پسند ہیں ۔

 
بچشمے خلوت خود را بہ بیند
بچشمے جلوت خود را بہ بیند

مطلب: وہ نور ِ خودی ایک آنکھ سے اپنی خلوت کا مشاہدہ کرتا ہے اور دوسری آنکھ سے اپنی جلوت کا تماشا کرتا ہے ۔

 
اگر یک چشم بر بندد گناہے است
اگر با ہر دو بیند شرط راہے است

مطلب: اگر وہ ایک آنکھ بند کر لیتا ہے تو یہ گناہ ہے اور اگر وہ دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے تو یہ راہِ سلوک کی شرط ہے ۔

 
ز جوے خویش بحرے آفریند
گہر گردد بہ قعر خود نشیند

مطلب: وہ اپنی ندی سے ایک سمندر پیدا کر لیتا ہے ۔ پھر اس سمندر میں موتی بن جاتا ہے ۔ اور موتی بن کر اپنی گہرائی میں بیٹھ جاتا ہے (خودی ترقی کرتے کرتے خدا کی صفات کی مظہر بن جاتی ہے) ۔

 
ہمان دم صورت دیگر پذیرد
شود غواص و خود را باز گیرد

مطلب: اس وقت وہ خودی ایک نئی صورت میں ڈھل جاتی ہے ۔ وہ غوطہ خور بن کر غوطہ لگاتی ہے اور خودی کو دوبارہ پا لیتی ہے ۔ (خودی بھی انا ہے لیکن مقید ہے، خدا بھی انا ہے لیکن انائے مطلق ہے ۔ جب انائے مطلق ، انائے مقید میں آتی ہے تو انائے مقید کو اپنی صفات سے جلوہ گر کر دیتی ہے اور یہاں صفاتِ خدا (مختلف مادی اشیاء کے ساتھ) تعین میں آ جاتی ہے ۔

 
در و ہنگامہ ہاے بے خروش است
در و رنگ و صدا بے چشم و گوش است

مطلب: اس نورِ خودی کے اندر بے شور ہنگامے ہیں ۔ اس کے اندر آنکھ اور کان کے بغیر رنگ اور آواز ہے ۔ انائے مطلق جب انائے مقید میں تعین کرتی ہے تو خدا کا ظہور ہوتا ہے اور اس سے کائنات میں رونق قائم ہوتی ہے ۔ لیکن اس تمام رونق میں انائے مطلق خاموش رہتی ہے ۔

 
درون شیشہ او روزگار است
ولے بر ما بتدریج آشکار است

مطلب: اس کے شیشے میں زمانہ ہے لیکن ہم پر درجہ بدرجہ ظاہر ہوتا ہے ۔ حیات خودی کے شیشے میں جلوہ گر ہو کر آہستہ آہستہ آشکار ہوتی ہے ۔

خلاصہ
اقبال کے نزدیک فکر جس کے متعلق سوال کیا گیا تھا خودی ہی کی ایک شکل ہے ۔ اور چونکہ خودی (انائے مقید) خدا (انائے مطلق) کا پرتو صفات ہے اس لیے نور سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسی نور کی تشریح و توضیح اس بند میں کی گئی ہے ۔