Please wait..

درمعنی این کہ چوں ملت محمدیہ موسس بر توحید و رسالت است پس نہایت مکانی ندارد
(چونکہ ملتِ محمدیہ کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے اس لیے حدود مکانی سے بے نیاز ہے)

 
جوہر ما با مقامی بستہ نیست
بادہ ی تندش بجامی بستہ نیست

مطلب:ہماری ملت کا جوہر کسی مقام سے وابستہ نہیں ہے ۔ یہ ایک تند شراب ہے جسے کسی خاص پیالے کا پابند نہیں بنایا جا سکتا (ملت اسلامیہ جغرافیائی حدود سے ماورا ہے ) ۔

 
ہندی و چینی سفال جام ماست
رومی و شامی گل اندام ماست

مطلب: بے شک ہمارے جام ہندی و چینی مٹی سے بنے ہیں ۔ رومی و شامی ہمارے جسم کی مٹی ہیں ۔

 
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرز و بوم او بجز اسلام نیست

مطلب: ہمارے دل کا تعلق ہند، روم و شام سے نہیں ہے ان کا وطن اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔

 
پیش پیغمبر چو کعب پاک زاد
ھدیہ یی آورد از بانت سعاد

مطلب: ہمارے رسول کی خدمت میں حضرت کعب نے جو پاک سرشت تھے قصیدہ بانت سعاد بہ طور ہدیہ پیش کیا ۔

 
در ثنایش گوہر شب تاب سفت
سیف مسلول از سیوف الہند گفت

مطلب: اس قصیدے میں رسول اللہ کی مدح و نعت میں بڑے بیش قیمت موتی پروئے ۔ اس میں کہا کہ حضور ہندوستان کی تلواروں میں سے ایک سونتی ہوئی تلوار ہیں ۔

 
آن مقامش برتر از چرخ بلند
نامدش نسبت باقلیمی پسند

مطلب: حضور اکرم کا مقام آسمان سے بھی بلند تھا اور کسی ایک ولایت سے نسبت پسند نہ آئی ۔

 
گفت سیف من سیوف اللہ گو
حق پرستی جز براہ حق مپو

مطلب: فرمایا اللہ کی تلوار میں سے سونتی ہوئی تلوار کہو ۔ تم حق پرست ہو ، راہ حق کے سوا کہیں گامزن نہ ہو ۔ (ان اشعار میں جس نکتے پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ نے کسی سرزمین سے نسبت پسند نہ فرمائی ۔ اسی طرح حضور ملت کو کسی مقام سے وابستہ نہ دیکھنا چاہتے تھے ۔ حالانکہ کعب نے سیف الہند صرف ہندوستانی تلواروں کی برتری کی بنا پر کہا تھا ۔ حضور نے فرمایا کہ سیف الہند کی جگہ سیوف اللہ کہو ) ۔

 
ہمچنان آن رازدان جزو و کل
گرد پایش سرمہ ی چشم رسل

مطلب: اسی طرح اس ذات پاک نے جس پر چھوٹی بڑی چیزوں کے بھید کھلے ہوئے تھے اور جس کی گرد پا انبیاء کی آنکھوں کے لیے سرمہ تھی ۔

 
گفت با امت ز دنیای شما
دوست دارم طاعت و طیب و نسا

مطلب: امت سے فرمایا کہ تمہاری دنیا سے مجھے نماز، خوشبو اور عورتیں پسند ہیں ۔ یہاں دو باتوں کی طرف سرسری اشارہ ضروری ہے ۔ جن تین چیزوں کا ذکر ہے ان کے متعلق غلط فہمی نہ ہونی چاہیے ۔ اول نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا، گویا انسان کے لیے اہم اور محبوب ترین مصروفیت خدا کی عبادت ہے ۔ دوم خوشبو کی پسندیدگی حسن ذوق اور لطافت فطرت کی روشن دلیل ہے ۔ سوم نساء سے محبت انسانی زندگی کا ایک پاکیزہ وظیفہ ہے ۔ عورت ماں ہے یا بیوی یا بیٹی ، تینوں حالتوں میں اس سے محبت فطرت سلیمہ کا اظہار ہے ۔

 
گر ترا ذوق معانی رہنماست
نکتہ ئی پوشیدہ در حرف شماست

مطلب: اگر معنی کا ذوق تیرا رہنما ہے تو اس حرف، شما میں ایک خاص نکتہ چھپا ہوا ہے یعنی رسول اللہ نے فرمایا کہ تمہاری دنیا میں سے مجھے تین چیزیں پسند ہیں ۔

 
یعنی آن شمع شبستان وجود
بود در دنیا و از دنیا نبود

مطلب: اس سے ثابت ہوا کہ پاک ذات جسے ہستی کے شبستان میں شمع کی حیثیت حاصل تھی یعنی جس کی وجہ سے اندھیرے کی جگہ اجالا ہوا ۔ د نیا میں موجود رہی لیکن دنیا سے کوئی تعلق پیدا نہ کیا ۔

 
جلوہ ی او قدسیان را سینہ سوز
بود اندر آب و گل آدم ہنوز

مطلب: جب آدم علیہ السلام آب و گل ہی میں تھے یعنی پیدا نہیں ہوئے تھے اس وقت حضور کا جلوہ فرشتوں کے سینوں میں حرارت پیدا کر رہا تھا (یہاں اس مشہور عام حدیث کی طرف ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے) ۔

 
من ندانم مرز و بوم او کجاست
این قدر دانم کہ با ما آشناست

مطلب: مجھے معلوم نہیں کہ حضور کا وطن کہاں ہے صرف اتنا جانتا ہوں کہ حضور ہم سے آشنا تھے ۔

 
این عناصر را جہان ما شمرد
خویشتن را میہمان ما شمرد

مطلب: حضور عناصر کے اس مجموعے کو ہمارا جہان شمار فرماتے تھے اور اپنے آپ کو ہمارا مہمان قرار دیتے تھے ۔ (حضور اس انداز سے یہاں رہے گویا مہمان تھے، اس دنیا سے تعلق محض اتنا تھا کہ ناگزیر تھا) ۔

 
زانکہ ما از سینہ جان گم کردہ ایم
خویش را در خاکدان گم کردہ ایم

مطلب: ہمارے سینوں میں جانیں نہیں رہیں اور ہم اپنے آپ کو مٹی کے اس گھروندے میں گم کر بیٹھے ۔

 
مسلم استی دل بہ اقلیمی مبند
گم مشو اندر جہان چون و چند

مطلب: اگر تو مسلمان ہے تو دل کسی ایک ولایت سے وابستہ نہ کر اور چون و چند کے اس جہان میں گم نہ ہو (مادی دنیا سے دل نہ لگا) ۔

 
می نگنجد مسلم اندر مرز و بوم
در دل او یاوہ گردد شام و روم

مطلب: مسلمان کسی سرزمین کے اندر نہیں سماتا ۔ اس کے دل میں شام و روم خود گم ہو جاتے ہیں ۔

 
دل بدست آور کہ در پہنای دل
می شود گم این سرای آب و گل

مطلب: تو دل ہاتھ میں لے (دل پر قابو پا) خود میں دل زندہ پیدا کر کیونکہ دل کی وسعت میں مٹی اور پانی کی یہ دنیا گم ہو جاتی ہے ۔

 
عقدہ ی قومیت مسلم گشود
از وطن آقای ما ہجرت نمود

مطلب:ہمارے آقا یعنی رسول اللہ نے وطن سے ہجرت کی اور اس طرح اسلامی قومیت کا عقدہ کھول دیا ۔ (مراد یہ ہے کہ رسول اللہ نے مکہ معظمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کر لی ۔

 
حکمتش یک ملت گیتی نورد
بر اساس کلمہ ئی تعمیر کرد

مطلب: رسول اللہ کی حکمت نے ایک ایسی ملت کی بنیاد رکھی جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور یہ بنیاد کلمہ توحید پر رکھی (کلمہ توحید ہی تمام مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا اور بنیادی رشتہ ہے) ۔

 
تا ز بخششہای آن سلطان دین
مسجد ما شد ھمہ روی زمین

مطلب: پھر دین کے سلطان یعنی رسول اللہ کی ایک اورنوازش ملاحظہ ہو اور وہ یہ کہ روئے زمین کو ہماری سجدہ گاہ بنا دیا (باقی مذہبوں کی عبادت صرف ان مقامات میں ہو سکتی ہے جو خاص اس غرض سے تعمیر کیے گئے ہوں لیکن مسلمانوں کے لیے کوئی پابندی نہیں ۔ اقبال نے اس سے یہ نکتہ پیدا کیا کہ روئے زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دینے سے ملکی انتسابات ختم ہو گئے، گویا اسے بھی اپنے اصل مقصد یعنی ملت کی آفاقیت کا ثبوت بنا دیا) ۔

 
آنکہ در قرآن خدا او را ستود
آن کہ حفظ جان او موعود بود

مطلب: رسول اللہ کی تعریف تو خود قرآن میں آئی ہے ۔ خدا نے آپ سے حفاظت جان کا وعدہ کر لیا تھا ۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ ، اور اللہ تمہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔

 
دشمنان بی دست و پا از ہیبتش
لرزہ بر تن از شکوہ فطرتش

مطلب: دشمن آپ کی ہیبت سے بے دست و پا ہو جاتے تھے اور آپ کی فطرت کا شکوہ ان کے جسموں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا

 
پس چرا از مسکن آبا گریخت
تو گمان داری کہ از اعدا گریخت

مطلب: پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے آبا کا وطن کیوں چھوڑا کیا تیرے دل میں یہ خیال ہے کہ دشمنوں کے ڈر سے بھاگ گئے

 
قصہ گویان حق ز ما پوشیدہ اند
معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے دشمنوں کے خوف سے وطن نہیں چھوڑا ، قصہ گو واعظوں نے سچی بات ہم سے چھپا لی اور ہجرت کے معنی غلط بیان کر دے ۔

 
ہجرت آئین حیات مسلم است
این ز اسباب ثبات مسلم است

مطلب: ہجرت مسلمان کی زندگی کا دستور العمل ہے ۔ یہ بھی ان اسباب میں سے ہے جس سے ملت کے قدم مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں ۔

 
معنی او از تنک آبی رم است
ترک شبنم بہر تسخیر یم است

مطلب: ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پانی کم ہو وہاں سے چلے جاوَ ۔ شبنم کو چھوڑ دو لیکن اس مقصد سے کہ تم دریا کو قبضے میں لے آوَ ۔

 
بگذر از گل گلستان مقصود تست
این زیان پیرایہ بند سود تست

مطلب:تو پھول کو چھوڑ دے، تیرا نصب العین وہ باغ ہے جو پھولوں سے لبریز ہو ۔ تو پھول کو چھوڑنے کو اپنا نقصان سمجھتا ہے بظاہر یہ نقصان ہے لیکن ایسا نقصان جس کی تراش خراش سے بہت بڑے نفع کا سروسامان ہوتا ہے ۔

 
مہر را آزادہ رفتن آبروست
عرصہ ی آفاق زیر پای اوست

مطلب: دیکھو سورج کی عزت و آبرو اس کی آزادانہ گردش میں ہے ۔ اس لیے عرصہ آفاق (دنیا کا میدان ) اس کے پاؤں کے نیچے ہے ۔

 
ہمچو جو سرمایہ از باران مخواہ
بیکران شو در جہان پایان مخواہ

مطلب: تو ندی کی طرح بارش سے پانی کا سرمایہ نہ لے ۔ تو دنیا میں کناروں سے بے نیاز ہو جا اور حدود نہایت طلب نہ کر ۔ تو حدود کا پابند نہ ہو بلکہ تو پیش نظر رکھ ۔

 
بود بحر تلخ رو یک سادہ دشت
ساحلی ورزید و از شرم آب گشت

مطلب: کبھی سوچا کہ ہیبت ناک (یا کڑوے پانی کے) سمندر کی حقیقت کیا ہے یہ ایک چٹیل میدان تھا یا جنگل تھا جب اس نے ساحل اختیار کر لیا تو اس کی ہستی محدود ہو گئی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا ۔

 
بایدت آہنگ تسخیر ھمہ
تا تو می باشی فراگیر ھمہ

مطلب: تجھے چاہیے کہ ہر شے کی تسخیر کا پختہ ارادہ کرے اسی طرح تو تمام چیزوں کو اپنے اندر سمیٹ لینے کا اہل بن جائے گا ۔

 
صورت ماہی بہ بحر آباد شو
یعنی از قید مقام آزاد شو

مطلب: مچھلی کی طرح سمندر میں آباد ہو جا ، یعنی کسی ایک مقام کا پابند نہ رہ (جس طرح دریا میں مچھلی جہاں چاہتی ہے چلی جاتی ہے اور آزادانہ زندگی بسر کرتی ہے اسی طرح مسلمان کو بھی مقامیت سے آزاد ہونا چاہیے ۔ )

 
ہر کہ از قید جہات آزاد شد
چون فلک در شش جہت آباد شد

مطلب: جس شخص نے اطراف و حدود کی قید سے آزادی حاصل کر لی وہ آسمان کی طرح چھ طرفوں میں آباد ہو گیا ۔ یہ خصوصیت آسمان کو اس وجہ سے ملی کہ اس نے اپنے آپ کو اطراف کی قید سے آزاد کر لیا ۔

 
بوی گل از ترک گل جولانگر است
در فراخای چمن خود گسترست

مطلب: خوشبو پھول سے نکلتی ہے تو جولانی اختیار کرتی ہے ۔ یعنی ہر طرف پھیلتی ہے اور باغ کی وسعت میں اپنے آپ کو پھیلا دیتی ہے ۔

 
ای کہ یکجا در چمن انداختی
مثل بلبل با گلی در ساختی

مطلب: اے مخاطب تو نے باغ میں اپنے آپ کو ایک جگہ وابستہ کر رکھا ہے ۔ بلبل کی طرح تو نے ایک پھول سے عہد محبت باندھ لیا ہے ۔

 
چون صبا بار قبول از دوش گیر
گلشن اندر حلقہ ی آغوش گیر

مطلب: تجھے چاہیے کہ صبا کی طرح اپنے کندھے سے قبول کا بوجھ اتار دے، یعنی محتلف خوشبوئیں اپنے دامن میں سمیٹنے کی روش ترک کر دے اور پورے باغ کو اپنی آغوش میں لے لے ۔

 
از فریب عصر نو ہشیار باش
رہ فتد ای رہرو ہشیار باش

مطلب: جدید دور کے فریب سے ہوشیار ، خبردار ۔ ذرا سوچ سنبھل کر قدم اٹھا کر چلتا رہ ۔ اے چلنے والے ذرا چوکس ہو کر چل ۔