Please wait..

جمیعت الاقوام
مجلس اقوام (قیام امن کے لیے 1920 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشنز)

 
بر فتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جہان طرح نو انداختہ اند

مطلب : جہان کا دکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے تاکہ اس دنیا سے جنگ کی ریت اٹھ جائے

 
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

مطلب: میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے ۔

 
شوپن ہارو نٹیشا(یہ جرمنی کے دو مشہور فلسفی تھے)

مرغے ز آشیانہ بسیر چمن پرید
خارے ز شاخ گل بہ تن نازگش خلید

مطلب: ایک پرندہ آشیانے سے چمن کی سیر کو اڑا گلاب کی ٹہنی سے ایک کانٹا اس کے نازک بدن میں چبھ گیا ۔

 
بد گفت فطرت چمن روزگار را
از درد خویش و ہم ز غم دیگران تپید

مطلب : اس نے زمانے کے چمن کی فطرت کو برا کہا ۔ اپنے اور دوسرے کے درد سے تڑپ اٹھا ۔ اقبال نے ایک مصرع میں نٹشے کی ساری زندگی بیان کر دی ۔

 
داغے ز خون بیگنہے لالہ را شمرد
اندر طلسم غنچہ فریب بہار دید

مطلب: اس نے گل لالہ کو کسی بے گناہ کے خون کا داغ شمار کیا ۔ غنچے کی طلسم میں اسے بہار کا دھوکا دکھائی دیا ۔

 
گفت اندریں سراکہ بنایش فتادہ کج
صبحے کجا کہ چرخ در و شامہانہ چید

مطلب: وہ بولا اس مکان میں جس کی بنیاد ہی ٹیڑھی پڑی ہے وہ صبح کہاں جس میں آسمان نے شا میں نہیں چن دیں ۔

 
نالید تا بحوصلہ آں نوا طراز
خون گشت نغمہ وزدو چشمش فرو چکید

مطلب: یہاں تک رویا کہ اس نوا طراز کے گلے میں نغمہ خون ہو گیا اور اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑا ۔

 
سوز فغان او بہ دل ہدہدے گرفت
با نوک خویش را ز اندام او کشید

مطلب: اس کی فریاد کی لپک نے ایک ہد ہد کے دل کو متاثر کیا ہد ہد نے اپنی چونچ سے اس کے بدن میں سے کانٹاکھینچ لیا ۔

 
گفتش کہ سود خویش ز جیب زیان برآر
گل از شگاف سینہ زرناب آفرید

مطلب: وہ اس سے بولا کہ نقصان کے اندر سے فائدہ کی صورت پیدا کر ۔ پھول نے سینے کے شگاف سے کھرا سونا پیدا کیا ۔

 
درمان ز درد ساز اگر خستہ تن شوی
خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی

مطلب: اگر ترا بدن زخمی ہو جائے تو درد ہی کو اپنا علاج بنا کانٹے سے میل کر لے تاکہ تو سراپا چمن ہو جائے ۔

فلسفہ و سیاست

 
فلسفی را با سیاست دان بیک میزان مسنج
چشم آن خورشید کورے، دیدہ این بے نمے

مطلب: فلسفی کو سیاستدان کے ساتھ ایک ہی ترازو میں مت تول ۔ اس کی آنکھ سورج سے اندھی اس کی آنکھ نم سے خالی ہے ۔

 
آن تراشد قول حق را حجت نا استوار
ویں تراشد قول باطل را دلیل محکمے

مطلب: وہ حق بات کے لیے کمزور دلیل تراشتا ہے اور یہ جھوٹی بات کے لیے مضبوط دلیل گھڑ لیتا ہے ۔

صبح رفتگان (در عالم بالا)(گزرے ہوءوں کی مجلس ۔ عالم بالا میں )

 
بارکش اہرمن لشکری شہریار
از پے نان جویں تیغ ستم برکشید

مطلب: شیطان کا بوجھ ڈھونے (اٹھانے ) والا بادشاہ کا لشکری ہے ۔ جو کی روٹی کے لیے اس نے ظلم کی تلوار اٹھا لی ۔

 
زشت بہ چشمش نکوست مغز نداند ز پوست
مردک بیگانہ دوست سینہ خویشاں درید

مطلب: برا اس کی آنکھوں میں بھلا ہے ۔ وہ مغز اور پوست میں تمیز نہیں کرتا ۔ غیروں کو دوست رکھنے والا احمق اس نے اپنوں کا سینہ چھلنی کر دیا ۔

 
داروئے بیہوشی است تاج ، کلیسا، وطن
جان خداداد را خواجہ بجامے خرید

مطلب: بے ہوشی کی دوا ہے ملوکیت، پاپائیت ، وطنیت خدا کی دی ہوئی جان کو سرمایہ دار نے ایک جام کے مول خرید لیا ہے ۔

 
کارل مارکس(جرمنی کا مشہور اسرائیلی ماہر اقتصادیات)

راز دان جزو و کل از خویش نامحرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

مطلب: جزو کل کا بھید جاننے والا انسان خود اپنے آپ سے انجان ہو چکا ہے ۔ سرمایہ داری کے ہاتھوں آدمی خود آدمی کا قاتل بن گیا ۔

ہیگل (جرمنی کا مشہور و معروف فلسفی)

 
جلوہ دہد باغ و راغ معنی مستور را
عین حقیقت نگر جنظل و انگور را

مطلب: باغ اور بن چھپی ہوئی حقیقت کے درشن کراتے ہیں ۔ حنظل اور انگور کو عین حقیقت دیکھ ۔

 
فطرت اضداد خیز لذت پیکار داد
خواجہ و مزدور را آمر و مامور را

مطلب: اضداد کو ابھارنے والی فطرت نے پیکار کی لذت بخشی سرمایہ دار اور مزدور کو ، حاکم اور محکوم کو ۔

ٹالسٹاے

 
عقل دورو آفرید فلسفہ خود پرست
درس رضا می دہی بندہ مزدور را

مطلب: دوزخی عقل نے خود پرستی کا فلسفہ ایجاد کیا ۔ کیا تو بندہَ مزدور کو تقدیر پر راضی رہنے کا درس دیتا ہے ۔

مزدک

 
دانہ ایران ز کشت زار و قیصر بردمید
مرگ نومی رقصد اندر قصر سلطان و امیر

مطلب: ایران کا بیج زارا اور قیصر کی کھیتی سے پھوٹا ۔ بادشاہوں اور سرمایہ داروں کے محل میں ایک نئی موت ناچ رہی ہے ۔

 
مدتے در آتش نمرود می سوزد خلیل
تا تہی گردد حرمیش از خداوندان پیر

مطلب: اللہ کا خلیل نمرود کی آگ میں ایک مدت جلتا ہے تب کہیں اس کا حرم پرانے خداؤں سے خالی ہوتا ہے ۔

 
دور پرویزی گزشت اے گشتہ پرویز خیز
نعمت گم گشتہ ی خود را ز خسرو باز گیر

مطلب: پرویز کا دور گزر گیا، اے پرویزی مظالم کے شکار اٹھ اپنی کھوئی ہوئی نعمت کو خسرو سے واپس لے ۔

کوہکن

 
نگار من کہ بسے سادہ و کم آمیز است
ستیزہ کیش و ستم کوش و فتنہ انگیز است

معانی: کوہکن: یہ فرہاد کا لقب ہے جو شیریں پر عاشق تھا جو خسرو پرویز شاہ ایران کی محبوبہ تھی
مطلب: میرا محبوب جو ویسے تو بہت سادہ اور کم آمیز ہے ۔ لڑائی کی خو رکھنے والا اور نت نئے ستم ڈھانے والا اور فتنے اٹھانے والا ہے ۔

 
برون او ہمہ بزم و درون او ہمہ رزم
زبان او ز مسیح و دلش ز چنگیز است

مطلب: اس کا ظاہر تمام بزم اس کا باطن تمام رزم ہے اس کی زبان مسیح جیسی اور دل چنگیز کا سا ہے ۔

 
گسست عقل و جنون رنگ بست و دیدہ گداخت
در بجلوہ کہ جانم ز شوق لبریز است

مطلب: عقل کوچ کر گئی اور دیوانگی نے رنگ جمایا اور دیدے بہہ گئے (میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے) ۔ سامنے آ اپنا جلوہ دکھا کہ میری جان شوق سے بھری ہوئی ہے ۔

 
اگرچہ تیشہ من کوہ راز پا آورد
ہنوز گردش گردون بکام پرویز است

مطلب: اگرچہ میرے تیشے نے پہاڑ کو ڈھا دیا ہے مگر اب تک آسمان کی گردش پرویز کی موافقت میں ہے (اس لیے اے تمام دنیا کے مزدورو متحد ہو جاوَ) ۔

 
ز خاک تا بہ فلک ہر چہ ہست رہ پیماست
قدم کشاے کہ رفتار کارواں تیز است

مطلب: زمین سے آسمان تک جو کچھ ہے سفر میں ہے تو بھی قدم اٹھا کہ قافلے کہ رفتار بہت تیز ہے (کائنات کا ذرہ ذرہ مصروف عمل ہے جو شخص عمل نہیں کرتا وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ )

نیٹشا

 
از سستی عناصر انسان دلش تپید
فکر حکیم پیکر محکم تر آفرید

مطلب: انسان کی بناوٹ کے بودے پن سے اس کا دل تڑپا ۔ اس فلسفی کی فکر نے ایک بہت پائدار پیکر ایجاد کیا (انسانی برتری کا تصور دیا) ۔

 
افگند در فرنگ صد آشوب تازہ
دیوانہ ئی بکارگہ شیشہ گر رسید

مطلب : اس نے مغرب میں سینکڑوں نئے ہنگامے کھڑے کر دیے (یوں لگتا ہے جیسے) ایک دیوانہ شیشہ گری کے کارخانے میں داخل ہو گیا ہو ۔

حکیم آئن سٹائن

 
جلوہ ئی می خواست مانند کلیم ناصبور
تاضمیر مستنیر او کشود اسرار نور

(یہ جرمنی کا مشہور ماہر ریاضیات و طبیعات جس نے نظریہ اضافیت کا حیرت انگیز انکشاف کیا ہے) مطلب: وہ موسیٰ کی طرح تجلی کے لیے بے تاب تھا یہاں تک کہ اس کے روشن دل نے نور کے اسرار کھول دیئے ۔

 
از فراز آسمان تا چشم آدم یک نفس
زود پروازے کہ پروازش نیاید در شعور

مطلب: پل بھر میں آسمان کی بلندی سے آدمی کی آنکھ تک ایسا تیز اڑان والا جس کی پرواز خیال میں نہیں آتی (روشنی آسمان کی بلندی سے آدم کی آنکھ تک ایک لمحہ میں پہنچ جاتی ہے ۔ )

 
خلوت او در زغال تیرہ فام اندر مغاک
جلوتش سوزد درختے را چو خس بالاے طور

مطلب: روشنی کی خلوت کان میں پڑے ہوئے سیاہ رنگ کوئلے میں (بصورت ہیرا ) ہے ۔ اور اس کی جلوت طور پر اگے ہوئے درخت کو خس کی مانند جلا دیتی ہے ۔

 
بے تغیر در طلسم چون و چند و پیش و کم
برتر از پست و بلند و دیر و زود و نزد و دور

مطلب: یہ روشنی کمی بیشی اور کیوں اور کیسے کے طلسم اس دنیا میں تبدیلی کے بغیر ہے ۔ اسی طرح یہ اس جہان کے پست و بالا (مکان) دیر و زود (زمان) اور نزدیک و دور (مسافت) سے بھی بالاتر ہے ۔

 
در نہادش تا روشید و سوز و ساز مرگ و زیست
اہرمن از سوز او ز ساز او را جبریل و حور

مطلب: تاریکی اور رروشنی ، سوز و ساز، موت اور زندگی اس کی نہاد میں پوشیدہ ہیں ۔ شیطان اس کے جلال (حرارت کے سوز سے ہے) اور جبریل و حور اس کے جمال سے ہے (اس کی ٹھنڈک کے ساز سے) ۔

 
من چہ گویم از مقام آن حکیم نکتہ سنج
کردہ زردشتے ز نسل موسیٰ و ہارون ظہور

مطلب: میں اس دانا سائنسدان کے مرتبے کا کیا کہوں ایک زردشت نے موسیٰ اور ہارون کی نسل میں ظہور کیا ہے (زردشت آگ کو مقدس سمجھتا تھا ۔ یوں سمجھو کہ یہودی قوم میں دوسرا زرتشت پیدا ہو گیا) ۔

بائرن (انگلستان کا مشہور شاعر)

 
مثال لالہ و گل شعلہ از زمین روید
اگر بہ خاک گلستاں تراود از جامش

مطلب: لالہ و گل کی طرح زمین سے شعلہ اگلے اگر چمن کی مٹی پر اس کے جام شراب سے کچھ ٹپک جائے ۔

 
نبود در خور طبعش ہواے سرد فرنگ
تپید پیک محبت ز سوز پیغامش

مطلب: انگلستان کی یخ ہوا یعنی ٹھنڈک بے سوز آب و ہوا راس نہ آئی مگر اس کے پیغام کے سوز سے محبت کا قاصد تڑپ اٹھا ۔

 
خیال او چہ پریخانہ ئی بنا کرد است
شباب غش کند از جلوہ ی لب بامش

مطلب: اس کے تخیل نے کیسا پری خانہ بنا دیا ہے جوانی اس کی لب بام کی ایک جھلک سے مدہوش ہو جاتی ہے ۔

 
گذاشت طایر معنی نشیمن خودرا
کہ سازگار تر افتاد حلقہ دامش

مطلب: طائر معنی نے اپنا نشیمن چھوڑ دیا ہے کیونکہ اسے اس (بائرن) کا جال زیادہ پسند آ گیا ہے (اس کی شاعری معانی سے لبریز ہے) ۔

نیٹشا

 
گر نوا خواہی ز پیش او گریز
در نئے کلکش غریو تندر است

نیٹشا پر یہ تیسری نظم ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس مجذوب فرنگی سے غیر معمولی دلچسپی تھی ۔ نیٹشا نے مسیحی فلسفہ اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے ۔ اس کا دماغ اس لیے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے ۔ گو بعض اخلاقی نتاءج میں اس کے افکار مذہب اسلام کے بہت قریب ہیں ۔ مطلب: اگر تجھے نغمے کی طلب ہے تو اس کے آگے سے بھاگ (اس سے دور رہ) اس کے قلم کی نے میں بجلی کا کڑکا پوشیدہ ہے ۔

 
نیشتر اندر دل مغرب فشرد
دستش از خون چلیپا احمر است

مطلب: اس نے مغرب کے دل میں نشتر چھبو دیا ہے ۔ اس کے ہاتھ عیسائیت کے خون سے سرخ ہیں ۔

 
آنکو بر طرح حرم بت خانہ ساخت
قلب او مومن و دماغش کافر است

مطلب: وہ ایسا شخص ہے جس نے حرم کی طرز پر بتخانہ کھڑا کیا ہے ۔ اس کا دل مومن اور دماغ کافر ہے(اسی قسم کا جملہ نبی کریم نے امیہ ابن الصات عرب شاعر کی نسبت کہا تھا ۔ اگر اس نے خدا کا انکار کیا تو اس لیے کہ اس کے زمانہ میں کوئی شخص ایسا موجود نہ تھا جو اسے مقام کبریا سے آگاہ کر سکتا اسی لیے اقبال نے یہ آرزو ظاہر کی تھی ۔

 
خویش را در نار آن نمرود سوز
زانکہ بستان خلیل از آزر است

مطلب: اپنے آپ کو اس نمرود کی آگ میں جلا کیونکہ خلیل کا گلزار آگ سے پھوٹا ہے ۔

جلال و ہیگل

 
می کشودم شبے بناخن فکر
عقدہ ہائے حکیم المانی

مولانا جلال الدین رومی و ہیگل(جرمن فلاسفر) مطلب: ایک رات میں ناخن فکر سے جرمن فلسفی کی گتھیاں سلجھا رہا تھا ۔

 
آنکہ اندیشہ اش برہنہ نمود
ابدی راز کسوت آنی

مطلب: وہ جس کی فکر نے الگ کر دیا ابدی حقیقت پر سے آنی جانی چیزوں کا لباس ۔

 
پیش عرض خیال او گیتی
خجل آمد ز تنگ دامانی

مطلب: اس کی خیال کی وسعت کے آگے کائنات اپنی تنگ دامانی کے سبب شرمندہ ہے ۔

 
چون بدریای او فرورفتم
کشتی عقل گشت طوفانی

مطلب: جونہی میں اس کے سمندر فکر میں اترا عقل کی ناوَ طوفان میں پھنس گئی ۔

 
خواب بر من دمید افسونے
چشم بستم ز باقی و فانی

مطلب: نیند نے مجھ پر ایک افسوں پھونکا میں نے باقی اور فانی کی طرف سے آنکھ بند کر لی ۔

 
نگہ شوق تیز تر گردید
چہرہ بنمود پیر یزدانی

مطلب: میری شوق کی نگاہ اور زیادہ تیز ہو گئی ۔ اس ربانی مرشد رومی نے صورت دکھائی ۔

 
آفتابے کہ از تجلی او
افق روم و شام نورانی

مطلب: وہ سورج جس کے نور سے روم اور شام کا افق نورانی ہو گیا ۔

 
شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد
بہ بیاباں چراغ رہبانی

مطلب: اندھیاری دنیا میں اسکی لپٹ (رومی کا) شعلہ اس تاریک دنیا کے اندر یوں روشن ہے جیسے بیابان کے اندر راستہ دکھانے والا چراغ ۔

 
معنی از حرف او ہمی روید
صفت لالہ ہائے نعمانی

مطلب: اس کے حرف سے معنی اگتے ہیں ۔ لالے کے سرخ پھولوں کی طرح ۔

 
گفت بامن چہ خفتہ برخیز
بہ سرابے سفینہ می رانی

مطلب: انھوں نے مجھ سے پوچھا کیا سویا پڑا ہے ۔ جاگ جا اور دیکھ کہ تو سراب میں اپنی کشتی چلا رہا ہے (کیا تو ہیگل کے فلسفہ میں حقیقت پانی ڈھونڈ رہا ہے جس طرح سراب سے پانی نہیں مل سکتا اسی طرح ہیگل کے فلسفہ سے حقیقت (معرفت الہٰی ) حاصل نہیں ہو سکتی ۔ ہیگل کے فلسفہ کا دارو مدار منطق پر ہے ۔ منطق سے سب کچھ مل سکتا ہے لیکن خدا نہیں مل سکتا ۔ ہیگل کا فلسفہ اپنی غیر معمولی شوکت اور عظمت کے باوجود سراب ہے ۔ محض لفاظی ہے، محض پوست ہے جس میں مغز نہیں ہے یا صدف ہے جس میں موتی نہیں ہے ۔

 
بہ  خرد راہ عشق می پوئی 
بہ چراغ آفتاب می جوئی

مطلب: تو عقل کی رہنمائی میں عشق کی راہ چل رہا ہے (اگر تو جویائے حقیقت ہے تو مسلک عشق اختیار کر) چراغ لیکے آفتاب ڈھونڈ رہا ہے (بھلا آفتاب کی روشنی کے سامنے چراغ کی کیا حقیقت

پٹوفی

 
نفسے دریں گلستاں ز عروس گل سرودی
بدلے غمے فزودی، ز دلے غمے ربودی

(ہنگری کا جوانمرگ شاعرجو اپنے وطن کے لیے لڑتے ہوئے مارا گیا اس کی لاش بھی نہ ملی کہ کوئی خاکی یادگار ہی باقی رہ جاتی ۔ ) مطلب: تو نے بس دم بھر کو اس گلستان میں عروس گل کا نغمہ چھیڑا ۔ کسی دل میں غم بڑھا دیا کسی دل سے غم دور کر دیا ۔

 
تو بخون خویش بستی کف لالہ را انگارے
تو بآہ صبحگاہے دل غنچہ را کشودی

مطلب: تو نے اپنے لہو سے گل لالہ کی ہتھیلی پر مہندی جمائی (نقش و نگار بنائے) تو نے صبح کی آہ سے کلی کا دل کھولا ۔

 
بنواے خود گم استی سخن تو، مرقد تو
بہ ز میں نہ باز رفتی کہ تو از ز میں نہ بودی

مطلب: تو اپنی نوا میں گم ہو گیا ہے ۔ تیرا کلام تیرا مرقد ہے ۔ تو زمین کی طرف نہیں پلٹا کہ تو زمین سے نہیں تھا ۔