غزل ۔ پہلا بند
فنا را بادہ ہر جام کردند چہ بیدردانہ او را عام کردند
مطلب: کارکنانِ قضا و قدر نے فنا کو ہر پیالے کی شراب بنا دیا ہے اور اسے فنا کو کس رحمی سے عام کیا ہے ۔
تماشا گاہ مرگ ناگہان را جہان ماہ و انجم نام کردند
مطلب: اس جہانِ ناگہانی اچانک مرگ کی تماشا گاہ کو انہوں نے چاند اور ستاروں کا جہان بنا دیا ہے ۔ (یہ جہان فانی ہے پھر بھی ہم سے دلکشی کا مرکز بنائے ہوئے ہیں ) ۔
اگر یک ذرہ اش خوے رم آموخت بافسون نگاہے رام کردند
مطلب: اگر اس جہان کے ایک ذرے نے بھی اس سے دور ہونا سیکھا تو انھوں نے جہان کی دلفریبیوں اور دلکشیوں نے اسے پھر اپنے جادو میں گرفتار کر لیا ۔
قرار از ما چہ می جوئی کہ ما را اسیر گردش ایام کردند
مطلب: تو ہم سے ہمارے دوانی یا مستقل ہونے کی تلاش کیوں کرتا ہے کیونکہ ہمیں تو گردشِ ایام نے اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے ۔ (چونکہ اس زمانے کو قرار نہیں وہ تغیر و تبدل سے گزرتا رہتا ہے اس لیے ہم بھی اس عمل سے گزرتے رہتے ہیں ) ۔
خودی در سینہ چاکے نگہدار ازیں کوکب چراغ شام کردند
مطلب: اس جہان کی ہر شے فنا ہونے والی ہے ۔ لیکن تو خودی کی معرفت حاصل کر کے اسے اپنے عشق بھرے سینے میں حفاظت سے رکھ ۔ کیونکہ یہی وہ ستارہ ہے جس سے شام روشن کی گئی ہے ۔
دوسرابند
جہان یکسر مقام آفلین است دریں غربت سرا عرفان ہمین است
مطلب: جہان بہر طور فنا ہونے والا باطل ہے ۔ اس غربت سرا (جہاں ) میں جہاں انسان مسافر کی طرح آتا ہے ۔ اور پھر اپنے اصلی وطن کو لوٹ جاتا ہے معرفت تو یہی کہ وہ مسافر اس جہان کو باطل سمجھے ۔
دل ما در تلاش باطلے نیست نصیب ما غم بے حاصلے نیست
مطلب: ہمارا دل کسی باطل کی تلاش میں نہیں ہے ۔ ہمارے مقدر میں ایسا کوئی غم نہیں ہے جس کا کوئی حاصل نہ ہو ۔
نگہ دارند اینجا آرزو را سرور ذوق و شوق جستجو را
مطلب: اس جہان میں آرزو پر نظر رکھتے ہیں ۔ اس جگہ سرور و کیف، ذوق و شوق اور جستجوئے درست کو نگاہ میں رکھا جاتا ہے ۔
خودی را لازوالے می توان کرد فراقے را وصالے می توان کرد
مطلب: خودی کو لازوال کیا جا سکتا ہے اور فراق کو وصال کیا جا سکتا ہے ۔
چراغے از دم گرمے توان سوخت بسوزن چاک گردوں میتوان دوخت
مطلب: گرم سانس سے چراغ جلایا جا سکتا ہے ۔ جب عشق سے خودی لازوال ہو جائے تو سوئی سے آسمان کا چاک سینہ سیا جا سکتا ہے ۔ خودی کی معرفت کے بعد ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔
خلاصہ
باطل اور مٹنے والی جان کا عرفان یہی ہے کہ آرزو کو زندہ رکھا جائے اور جہاں کی تسخیر کے لیے ذوق و شوق اور جستجو سے خودی کو لازوال بنایا جائے ۔
تیسرا بند
خداے زندہ بے ذوق سخن نیست تجلی ہاے او بے انجمن نیست
مطلب: زندہ خدا گفتگو کے ذوق کے بغیر نہیں یہی وجہ ہے کہ اس نے انسان کو بات کرنا سکھایا تا کہ اس سے ہمکلام ہو سکے اور اگر انجمن نہ ہوتی تو اس کے حسن کے جلوے بیکار جاتے ۔
کہ برق جلوہ او بر جگر زد کہ خورد آن بادہ و ساغر بسر زد
مطلب: اس کے حسن کے جلوے کی بجلی کو کس نے جگر پر گرایاکس نے اس کی محبت کی شراب پی کر پیالے کو سر پر مار کر اسے توڑ دیا ۔ اس کی محبت کی شراب پینے کے بعد کسی اور شراب کی تمنا باقی نہ رہی ۔
عیار حسن و خوبی از دل کیست مہ او در طواف منزل کیست
مطلب: حسن اور خوبی کا معیار کس کے دل کی وجہ سے ہےاور اس کا چاند کس کی منزل کے طواف میں رواں دواں ہے ۔
الست ، از خلوت نازے کہ برخاست بلیٰ از پردہ سازے کہ برخاست
مطلب: الست بربکم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ) کا سوال کس کی اداؤں کی خلوت سے بلند ہوا اور اس سوال کے جواب میں بلیٰ (ہاں ) کا جواب کس کے ساز کے پردہ یعنی سر سے نکلا (کس نے کہا ہاں تو میرا رب ہے) ۔
چہ آتش عشق در خاکے بر افروخت ہزاران پردہ یک آواز ما سوخت
مطلب: عشق نے آدم کے جسم خاکی میں یہ کونسی آگ جلائی ہے ۔ کہ ہماری آواز نے ہزاروں پردے جلا دیئے ۔ اور اس حسن کے جلووں کا تماشا کر لیا ۔
اگر مائیم گردان جام ساقی است ببزمش گرمی ہنگامہ باقی است
مطلب: ہماری وجہ سے ساقی کا جام گردش میں ہے ہماری وجہ سے اس کی محفل میں رونق ہے ۔
مرا دل سوخت بر تنہائی او کنم سامان بزم آرائی او
مطلب: میرا دل اس کی تنہائی پر جل اٹھا ۔ اس لیے میں اس کے لیے بزم سجانے کا کام کر رہا ہوں ۔
مثال دانہ می کارم خودی را برائے او نگہدارم خودی را
مطلب: میں اپنی زندگی کی کھیتی میں خودی کو دانے کی طرح کاشت کر رہا ہوں ۔ میں اس کے لیے خودی کی حفاظت کر رہا ہوں ۔ اس کی معرفت حاصل کر رہا ہوں کیونکہ خودی کی پہچان ہی خدا کی معرفت ہے ۔
خلاصہ
اس بند میں اللہ اور اسکے بندے کے درمیان وہ عہدِ محبت ہے جو بندے نے بلیٰ کہہ الست بربکم کی تصدیق کے وقت کیا تھا ۔