پیش کش بہ حضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان فرمانروای دولت مستقلہ افغانستان خلد اللہ ملکہ و اجلالہ
ای امیر کامگار ای شھریار نوجوان و مثل پیران پختہ کار
مطلب: اے بلند اقبال (خوش نصیب) سردار ، اے بادشاہ (تو) نوجوان مگر بوڑھوں کی طرح جہاں دیدہ ہے ۔
چشم تو از پردگیھا محرم است دل میان سینہ ات جام جم است
مطلب : تیری آنکھ چھپے ہوئے رازوں سے آشنا ہے (رازداں ہے) تیرے سینے میں دل جمشید کے پیالہ کی مانند ہے ۔
عزم تو پایندہ چون کہسار تو حزم تو آسان کند دشوار تو
مطلب: تیرا پکا ارادہ تیرے پہاڑ کی طرح اٹل ہے ۔ تیری سوجھ بوجھ تیری مشکل آسان کرتی ہے ۔
ہمت تو چون خیال من بلند ملت صد پارہ را شیرازہ بند
مطلب: تیری ہمت میرے تخیل (فکر) کی طرح بلند ہے ۔ یہ ہمت تتر بتر ملت کو اکٹھا (متحد) کرنے والی ہے ۔ تو نے اپنی ہمت کو کام میں لے کر قبائل ، عقائد و نظریات اور زبان و نسب میں بٹی ہوئی افغان قوم کو جو صد ہا ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی متحد کر دیا ۔
ہدیہ از شاہنشاہان داری بسی لعل و یاقوت گران داری بسی
مطلب: بڑے بڑے بادشاہوں نے تجھے نذریں گزاری ہیں تو بہت سے قیمتی اور انمول ہیرے موتی رکھتا ہے ۔
ای امیر، ابن امیر، ابن امیر ہدیہ ئی از بینوائی ہم پذیر
مطلب: اے جدی پشتی سلطان (اے رئیس سرداروں کی اولاد) ایک (اس) فقیر بے سروسامان کی ناچیز نذر کو بھی قبول کر لے ۔
تا مرا رمز حیات آموختند آتشی در پیکرم افروختند
مطلب: چونکہ مجھے زندگی کا بھید سکھایا گیا ہے اور میرے پیکر میں ایک آگ بھڑکائی گئی ہے ۔
یک نوای سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام
مطلب: ( میں ) سینہ روشن کرنے والا ایک نغمہ لایا ہوں ۔ ( میں ) عشق کا عہد شباب واپس لایا ہوں ۔
پیر مغرب شاعر آلمانوی آن قتیل شیوہ ہای پہلوی
مطلب: (وہ) اہل مغرب کا گرو (استاد) المانوی شاعر (جرمن شاعر گوءٹے) وہ پہلوی اداؤں کا مارا ہو ا(فارسی شاعری کا فدائی) ہے ۔
بست نقش شاہدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامتی از فرنگ
مطلب: اس نے اپنے کلام میں شوخ و شنگ حسینوں کا تصور باندھا اور مغرب سے مشرق کو سلام بھیجا ہے ۔ نوٹ: حکیم مغرب جرمن شاعر گوءٹے نے جو فارسی ادبیات کا دلدادہ تھا ، مغرابی دیوان کی وساطت سے اہل مشرق کو سلام محبت بھیجا تھا میں نے اس کے جواب میں پیام مشرق لکھا ہے ۔
در جوابش گفتم ام پیغام شرق ماہتابی ریختم بر شام شرق
مطلب: میں نے اس کے جواب میں مشرق کا پیغام (پیام مشرق) کہا ہے ۔ (گویا) یورپ کے جھٹپٹے پر چاندی بکھیر دی ہے ۔
تا شناسای خودم خود بین نیم با تو گویم او کہ بود و من کیم
مطلب: یہ تو ہے کہ میں خود شناس ہوں مگر خود پرست (مغرور) نہیں ہوں ۔ ( میں ) تجھے بتاتا ہوں کہ وہ (گوءٹے) کون تھا اور میں کون ہوں ۔
او ز افرنگی جوانان مثل برق شعلہ ی من از دم پیران شرق
مطلب: وہ بجلی ایسے فرنگی جوانوں میں سے تھا ۔ میرا شعلہ مشرق کے بوڑھوں نے دھونکا (پیران شرق کے فیض سے) ۔
او چمن زادی چمن پروردہ ئی من دمیدم از زمین مردہ ئی
مطلب: وہ چمن کا بیٹا، چمن (بہار) کا پالا ہوا ۔ اور میں ایک مردہ زمین سے اگا ہوا (ایسے ملک میں پیدا ہوا جو غریب، غیر ترقی یافتہ اور غلام ہے) ۔
او چو بلبل در چمن فردوس گوش من بصحرا چون جرس گرم خروش
مطلب: وہ چمن میں بلبل کی طرح کانوں کی جنت ہے (وہ چمن کے اس بلبل کی مانند ہے جس کے نغمے کانوں کے لیے جنت ہیں یعنی اس کے ملک کے لوگ اس کا کلام بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ) ۔ میں صحرا میں جرس کے مانند شور مچاتا ہوا فریادی ۔ میں قافلے کے اس گھڑیال یا گھنٹی کی طرح ہوں جو صحرا میں شور کر رہی ہو(اور سننے والا کوئی نہ ہو) ۔
ہر دو دانای ضمیر کائنات ہر دو پیغام حیات اندر ممات
مطلب: ہم دونوں ہی کائنات کا بھید جاننے والے ہیں ۔ (ہم) دونوں موت کے اندر زندگی کا پیغام (ہیں ) ۔ تبصرہ: اس کی قوم نے اس کے کلام کی قدر کی لیکن میری قوم میرے کلام سے غافل ہے ۔ ہم دونوں کائنات کی حقیقت سے آگاہ ہیں دونوں نے دنیا کو زندگی کا پیغام دیا ہے ۔
ہر دو خنجر صبح خند، آئینہ فام او برہنہ من ہنوز اندر نیام
مطلب: (ہم) دونوں صبح کی طرح روشن اور آئینہ کی طرح چمکدار خنجر ہیں ، یعنی اس کے پیغام کا چرچا اور اثر ہو چکا ہے ۔ وہ کھلا ہوا اور میں ابھی تک نیام میں ہوں یعنی میرا پیغام ابھی تک کانوں میں پہنچ کر اثر انگیز نہیں ہوا ۔
ہر دو گوہر ارجمند و تاب دار زادہ ی دریای ناپیدا کنار
مطلب: (ہم) دو قیمتی چمکدار موتی ہیں (جو) بیکراں سمندر کے پیدا کئے ہوئے ہیں یعنی ہم دونوں وہ موتی ہیں جو اس دریا میں پیدا ہوئے ہوں جس کا کوئی کنارہ نہیں ۔ ایسے دریا میں پیدا ہونے والے موتی زیادہ آب و تاب والے ہوتے ہیں ۔ تبصرہ: ہم دونوں باطل کے خلاف جنگ آزما ہیں ۔ دونوں کا کلام منور اور تابناک ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اس کی قوم نے اس کو پہچان لیا ہے لیکن میری قوم میرے کلام سے نا آشنا ہے ۔ یہاں علامہ اقبال نے قوم کی تغافل شعاری اور کوتاہ نظری کا شکوہ کیا ہے ۔
او ز شوخی در تہ قلزم تپید تا گریبان صدف را بر درید
مطلب: وہ شوخی سے سمندر کی تہ میں تڑپا ۔ یہاں تک کہ گریبان چاک کر دیا ، پھاڑ دیا ۔ موتی نے سیپ کے اندر رہنا پسند نہ کیا اور نکلنے کے لیے بیتاب ہوا ۔
من بہ آغوش صدف تابم ہنوز در ضمیر بحر نایابم ہنوز
مطلب: میں ابھی تک صدف کے آغوش میں الجھا ہوا چمک رہا ہوں ۔ (صدف کے اندر پیچ و تاب کھا رہا ہوں ) ۔ ( میں ) اب تک سمندر کے باطن میں نایاب ہوں ۔ تبصرہ: اس نے سیپ کے گریبان کو پھاڑ دیا ہے وہ اپنی قوم کو عمل کا پیغام دینے کے لیے بیتاب رہا ۔ میری قوم نے ابھی تک میری شاعری اور میرے پیغام کو نہیں پہچانا ۔ گوءٹے دنیا میں مشہور ہو گیا اور میں اپنے دیس میں اجنبی ہوں ۔
آشنای من ز من بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت
مطلب: میرا آشنا بھی مجھے جانے بغیر چلا گیا (انجان بن کر گزر گیا) وہ میرے شراب خانے سے خالی پیالہ لے کرنکل آیا یعنی میرے اپنے بھی میری شاعری کی اصلیت سے ناواقف اور فائدہ اٹھائے بغیر رخصت ہو گئے ۔ حالانکہ میرے شراب خانے کے مٹکے شراب سے بھرے ہوئے تھے ۔ مراد میری شاعری اور پیغام سے کسی نے فائدہ نہ اٹھایا ۔
من شکوہ خسروی او را دہم تخت کسری زیر پای او نہم
مطلب: میں اسے خسرو کا جاہ و جلال پیش کرتا ہوں ۔ اس کے قدموں کے نیچے کسریٰ کا تخت رکھتا ہوں ۔
او حدیث دلبری خواہد ز من رنگ و آب شاعری خواہد ز من
مطلب: وہ مجھ سے دل لبھانے والی بات چاہتا ہے ۔ وہ مجھ سے شاعرانہ رنگینی اور چمک مانگتا ہے یعنی وہ مجھ سے عمل آموز شاعری کے بجائے ایسی شاعری کی مانگ کر رہا ہے جو محض تفریح طبع کے لیے ہو ۔ میں شاعری میں حسینوں اور محبوبوں کی دلبری کی بات بیان کروں ۔
کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید
مطلب: (اس) کم نظر نے میری روح (جان) کی تڑپ نہ دیکھی اس نے صرف میرا ظاہر دیکھا، باطن نہیں دیکھا ۔
فطرت من عشق را در بر گرفت صحبت خاشاک و آتش در گرفت
مطلب: میری فطرت نے عشق کو آغوش میں لے لیا (اپنے اندر سمو لیا) آگ اور خاشاک کا یہ میل ٹھیک بیٹھا( میں نے تنکے اور آگ کو اپنے اندر اکٹھا کر لیا) ۔
حق رموز ملک و دین بر من گشود نقش غیر از پردہ ی چشمم ربود
مطلب: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر سلطنت اور دین کے بھید کھولے ہیں ۔ میری آنکھ کے پردے سے غیر کی صورت مٹا دی (غیر اللہ کا پردہ ہٹا دیا) ۔ یعنی اسرار جہاں بانی کے ساتھ ساتھ مجھے دین کی فہم بھی عطا کی گئی ہے ۔
برگ گل رنگین ز مضمون من است مصرع من قطرہ ی خون من است
مطلب: گلاب کی پنکھڑی میرے مضمون سے رنگین ہے ۔ میرے ہر شعر کا مصرع میرے خون کا قطرہ ہے ۔
تا نہ پنداری سخن دیوانگیست در کمال این جنون فرزانگیست
مطلب: تاکہ تو یہ گمان نہ کرے کہ شاعری دیوانگی ہے ۔ یہ دیوانگی اپنی انتہا میں عقلمندی ہے ( میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ) اس کے جنون کا کمال دانائی ہے ۔
از ہنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیار ہند خوارم کردہ اند
مطلب: مشیت نے مجھے ہنر (سخن) کی دولت سے مالامال کر رکھا ہے مگر سرزمین ہندوستان میں مجھے خوار کیا گیا ہے ۔ یعنی میرے ہنر کی قدر کرنے والا کوئی نہیں میری شاعری سے استفادہ کرنے والا کوئی نہیں ۔
لالہ و گل از نوایم بی نصب طایرم در گلستان خود غریب
مطلب: یہاں کے لالہ و گل (عاشق و محبوب) میرے نغمے سے بے بہرہ ہیں ۔ میں اپنے ہی چمن میں اجنبی پرندہ ہوں ۔
بسکہ گردون سفلہ و دون پرور است وای بر مردی کہ صاحب جوہر است
مطلب: غرضکہ آسمان انہی کمینوں اور رذیلوں کی پرورش کرتا ہے ۔ ا س شخص کی قسمت پر افسوس ہے جسے کوئی جوہر عطا کیا گیا ہو (کیونکہ اس کی قدر نہیں ہو گی بے جوہر کی ہو گی) ۔
دیدہ ئی ای خسرو کیوان جناب آفتاب ما توارت بالحجاب
مطلب: اے بلند مرتبت بادشاہ تو نے دیکھا ہے کہ ہمارا سورج غروب ہو گیا ۔ پردے میں چھپ گیا ہے ۔ ملت اسلامیہ زوال کا شکار ہے ۔
ابطحی در دشت خویش از راہ رفت از دم او سوز الا اللہ رفت
مطلب: وادی بطحا کے باشندے یعنی عرب اپنے ہی صحرا میں راہ سے بے راہ ہو گیا ۔ راہ گم کئے ہوئے ہے ۔ اسلام کے اصولوں سے بیگانہ ہو چکے ہیں ۔ اسکی روح سے الا اللہ کا سوز رخصت ہو گیا ۔ اس شعر میں تلمیح ہے عربوں کی اسلام کش روش کی طرف کی 1916-17 میں انھوں نے ترکوں کے خلاف ان ترکوں کے خلاف جنھوں نے چار سو سال تک اپنے خون سے سرزمین حجاز کی آبیاری کی تھی اور لفظ حرمین شریفین کو اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز تصور کیا تھا اعلان جنگ کر کے دشمنان اسلام یعنی انگریزوں سے مل کر اپنے محسنوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔
مصریان افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیان ژندہ پیل
مطلب: اہل مصر نیل کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ مست ہاتھیوں ایسے تورانی کاہل اور بے حس ہو چکے ہیں کمزور پڑ چکے ہیں ۔ مصری، انگریزوں کی غلامی میں ہیں ، ترکمانستان کے باشندے اوسیوں کے زیر اقتدار ہیں ۔
آل عثمان در شکنج روزگار مشرق مغرب ز خونش لالہ زار
مطلب: عثمانی ترک (زمانے) کے شکنجے میں (ہیں ) ایشیا اور یورپ ان کے خون سے سرخ ہو چکا ہے ۔ ترکوں کے تحت یورپ، ایشیا اور افریقہ کا بہت سا علاقہ تھا وہ کمزور ہو گئے اب ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔
عشق را آئین سلمانی نماند خاک ایران ماند و ایرانی نماند
مطلب: عشق کا سلمانی طریق (انداز) نہ رہا ۔ ایران کی بس سرزمین رہ گئی اور ایرانی نہ رہے ۔
سوز و ساز زندگی رفت از گلش آن کہن آتش فسرد اندر دلش
مطلب: اس کی مٹی (بدن) سے زندگی کی حرارت اور مستی کوچ کر گئی ۔ اس کے دل میں وہ قدیم آگ بجھ گئی ۔
مسلم ہندی شکم را بندہ ئی خود فروشی دل ز دین بر کندہ ئی
مطلب: ہندی مسلمان صرف پیٹ کا غلام ہے (وہ پیٹ بھرنے یا حصول دولت کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے) ۔ وہ خود فروش ہے جس کا دل دین سے اکھڑ گیا ہے ۔ اس میں حمیت و غیرت مر چکی ہے ۔
در مسلمان شان محبوبی نماند خالد و فاروق و ایوبی نماند
مطلب: مسلمانوں میں شان محبوبی نہ رہی ۔ خالد، فاروق اور اصلاح الدین ایوبی کے اوصاف نہ رہے ۔
ای ترا فطرت ضمیر پاک داد از غم دین سینہ ی صد چاک داد
مطلب: یہاں امیر امان اللہ کو خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں ۔ اے کہ قدرت نے تجھے پاک دل بخشا دین کے غم سے چاک چاک سینہ عطا کیا ۔
تازہ کن آئین صدیق و عمر چون صبا بر لالہ ی صحرا گذر
مطلب: تو صدیق اکبراور عمر فاروق کا انداز تازہ کر ۔ صبا کی طرح لالہ صحرا پر سے گزر جا ۔
ملت آوارہ ی کوہ و دمن در رگ او خون شیران موج زن
مطلب: پہاڑوں اور وادیوں میں بکھری ہوئی افغان قوم ہے ۔ جس کے رگوں میں شیروں کا خون ٹھاٹھیں مارتا ہے ۔ وہ بہادر اور نڈر ہیں ۔ آپ کی قوم (افغان) عرصہ دراز سے منتشر اور غیر منظم ہے ۔ علم و فن سے عاری ہے آپ اس غیور قوم کی تعلیم اور تہذیب میں کوشش کریں ۔
زیرک و روئین تن و روشن جبین چشم او چون جرہ بازان تیز بین
مطلب: یہ لوگ ہوشیار اور فولاد بدن اور روشن جبین ہیں ۔ ان کی آنکھ سفید شہبازوں کی طرح تیز ہے ۔
قسمت خود باز جہان نایافتہ کوکب تقدیر او ناتافتہ
مطلب: مگر انھوں نے اس دنیا سے اپنا پور ا حصہ نہیں پایا ۔ ان کی قسمت کا ستارہ ابھی نہیں چمکا ۔ مراد ہے وہ غیر ترقی یافتہ اور غریب ہیں اس کی قسمت کا ستارہ روشن نہیں ہوا ۔
در قہستان خلوتی ورزیدہ ئی رستخیز زندگی نادیدہ ئی
مطلب: وہ پہاڑوں میں الگ تھلگ رہ رہے ہیں ۔ وہ زندگی کے ہنگاموں سے انجان ہیں ۔ زندگی کی کشمکش نہیں دیکھی ۔
جان تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیب افغان غیور
مطلب: تیری جان لگاتار محنت کی سہار رکھتی ہے (سعی پیہم پر استقلال موجود) ان غیرت مند افغانیوں کی تراش خراش کے لیے کوشش کر ۔
تا ز صدیقان این امت شوی بہر دین سرمایہ ی قوت شوی
مطلب: تاکہ تو اس امت کے صدیقوں میں شامل ہو جائے اور دین کے لیے سرمایہ قوت بن جائے ۔
زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست
مطلب: زندگی جدوجہد کا نام ہے ۔ اس پر کسی کو کوئی استحقاق نہیں ۔ یہ تو بس انسان اور کائنات کا علم ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا این خیر را بینی بگیر
مطلب: حکمت کو خدا نے خیر کثیر (بہت بڑی بھلائی) فرمایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ دولت جہاں بھی نظر آئے حاصل کر لے، جہاں سے حکمت ملے اسے لے لو ۔
سید کل، صاحب ام الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بی حجاب
مطلب: آپ کل کے (موجودات) کے سردار، اور صاحب ام الکتاب ہیں ۔ جن کے قلب (دل) پر چھپی ہوئی چیزیں آشکار ہیں ، پوشیدہ باتیں ظاہر ہیں ۔
گرچہ عین ذات او بی پردہ دید رب زدنی از زبان او چکید
مطلب: اگرچہ انھوں نے خاص ذات باری تعالیٰ کو بالکل بے پردہ دیکھا (پھر بھی) ان کی زبان مبارک سے رب زدنی علماً ہی نکلا (اے میرے رب میرے علم کو زیادہ کر) ۔
علم اشیا علم الاسماستی ہم عصا و ہم ید بیضاستی
مطلب: اشیاء کا علم ہی علم الاسماء ہے (علم الاسماء کی تفسیر ہے) یہ عصا بھی ہے اور ید بیضا بھی ۔ مراد ہے اشیا ء کے خواص کا علم جو حیران کن ایجادات کے معجزے دکھا سکتا ہے ۔
علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماست می بندد ز دوغ
مطلب: علم اشیاء ہی نے مغرب (یورپ) کو فروغ بخشا (یورپ نے ترقی حاصل کی) اس کی حکمت چھا چھ سے پنیر جماتی ہے ۔ مراد مشکل باتیں بروئے کار لاتی ہے ۔
جان ما را لذت احساس نیست خاک رہ جز ریزہ ی الماس نیست
مطلب: ہماری جان میں احساس کی لذت نہیں ہے ۔ (احساس کی لذت کا پتہ نہیں ) ۔ ہم یہ نہیں سمجھتے راستوں میں بچھی ہوئی خاک، خاک نہیں ہے بلکہ قیمتی ہیروں کے ریزے ہیں ۔ مراد تجسس اور تحقیق سے مٹی سے سونا نکالا جا سکتا ہے ۔
علم و دولت نظم کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است
مطلب: ملت کے معاملات علم اور دولت ہی کے سبب ہیں ۔ علم اور دولت ہی سے ملت کا وقار ہے ۔ مراد ہے قوم کی سربلندی اور راز تحقیق کے علوم اور اقتصادی خوشحالی پر ہے ۔
آن یکی از سینہ ی احرار گیر وان دگر از سینہ ی کہسار گیر
مطلب: ایک (علم) کو آزاد قوموں کے سینے سے حاصل کر اور دوسری (یعنی دولت کو) پہاڑوں کی چھاتی سے، یعنی علوم سیکھو اور زمین کو چیر کر دولت حاصل کرو ۔
دشنہ زن در پیکر این کائنات در شکم دارد گہر چون سومنات
مطلب: اس کائنات کے پیکر (جسم) میں خنجر گھونپ (اتار) ۔ سومنات کی طرح یہ بھی اپنے پیٹ میں بہت سے گوہر رکھتی ہے مراد ہے تو علم اشیا کی بدولت کائنات میں چھپے ہوئے خزانوں کو دریافت کر ۔
لعل ناب اندر بدخشان تو ہست برق سینا در قہستان تو ہست
مطلب: تیرے بدخشاں کے اندر قیمتی لعل ہیں ۔ تیرے پہاڑوں میں سینا کی برق (بجلی) ہے ۔ مراد تیرے ملک میں ہرقسم کے وسائل موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھا نا تمہارا کام ہے ۔
کشور محکم اساسی بایدت دیدہ ی مردم شناسی بایدت
مطلب : تجھے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد درکار ہے۔ (تو پھر) تجھے آدمی کو پرکھنے والی (مردم شناس) نظر چاہیے ۔
ای بسا آدم کہ ابلیسی کند ای بسا شیطان کہ ادریسی کند
مطلب: بہت سے آدمی ہیں جو (اندر اندر) ابلیس کا کام کرتے ہیں ۔ اور بہت سے شیطان (ابلیس) ہیں جو ادریسی کے لباس میں نظر آتے ہیں ۔
رنگ او نیرنگ و بود او نمود اندرون او چو داغ لالہ دود
مطلب: ایسے شخص کا رنگ ڈھنگ دھوکا اور ظاہر دکھاوا ہے اس کا ہونا نہ ہونا ہے ۔ اس کے اندر لالے کے داغ کی طرح دھواں دھواں ہے (گل لالہ کا داغ نہیں بلکہ کینے کا دھواں ہے) ۔
پاکباز و کعبتین او دغل ریمن و غدر و نفاق اندر بغل
مطلب: بظاہر وہ پاکباز ہے مگراس کے دونوں پانسے کھوٹے ہیں ۔ (مگر وہ فریب کا کھیل کھیلتا ہے ) وہ دل میں فریب اور دوغلا پن رکھنے والا مکار ہے ۔
در نگر ای خسرو صاحب نظر نیست ہر سنگی کہ می تابد گہر
مطلب: اے صاحب نظر بادشاہ! اچھی طرح سمجھ لے کہ ہر چمکنے والا پتھر موتی نہیں ہے ۔
مرشد رومی حکیم پاک زاد سر مرگ و زندگی بر ما گشاد
مطلب: مرشد رومی جو ربانی علم رکھنے والا پاک فطرت ہے ۔ اس نے ہم پر زندگی اور موت کا راز ظاہر کر دیا ہے ۔
ہر ہلاک امت پیشین کہ بود زانکہ بر جندل گمان بردند و عود
مطلب: پہلی قوموں پر جو بھی ہلاکت آئی اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے پتھر کو عود سمجھ لیا تھا ۔
سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقی و فقر حیدری است
مطلب: ہمارے دین (اسلام ) میں سرداری خدمتگاری (کا نام ) ہے ۔ فاروقی عدل اور حیدری فقر (سے عبارت) ہے ۔
در ہجوم کارہای ملک و دین با دل خود یک نفس خلوت گزین
مطلب: دین اور سلطنت کے کاموں کے ہجوم میں پل بھر کو اپنے دل کے ساتھ تنہائی اختیار (کیا) کر ۔ مراد ہے اپنا احتساب نفس کرنا اچھائیوں اور برائیوں کا جائزہ لینا ۔
ہر کہ یکدم در کمین خود نشست ہیچ نخچیر از کمند او نجست
مطلب: جو (شخص) بھی ایک پل کے لیے اپنی گھات میں بیٹھا (اپنا محاسبہ کیا) اس کے پھندے سے کوئی شکار بچ کر نہیں جا سکتا ۔
در قبای خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی
مطلب: بادشاہی لباس میں درویش بن کر زندگی بسر کر ۔ بیدار آنکھوں والا اور خدا خوفی کے ساتھ جی (راتوں کو جاگ اور ہر دم اللہ تعالیٰ کو دیکھ) ۔
قاید ملت شہنشاہ مراد تیغ او را برق و تند خانہ زاد
مطلب: ملت کا رہنما سلطان مراد تھا ۔ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج جس کی تلوار کے غلام تھے ۔ مراد ہے اس کی ہیبت اور طاقت سے دشمن لرزتے تھے ۔
ہم فقیری ہم شہ گردون فری اردشیری با روان بوذری
مطلب: وہ فقیر بھی تھا اور آسمان جیسی عظمت والا بادشاہ بھی ۔ (وہ) گویا ابوذر کی روح رکھنے والا اردشیر کی مانند تھا ۔
غرق بودش در زرہ بالا و دوش درمیان سینہ دل موئینہ پوش
مطلب: وہ سر سے پاؤں تک زرہ میں ڈوبا رہتا تھا لیکن اس کے سینے میں ایک دل تھا جو خرقہ پوش تھا ۔ (صوف میں ملبوس )یہ عام طور پر درویشوں کا لباس سمجھا جاتا ہے ۔
آن مسلمانان کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند
مطلب: وہ مسلمان جنھوں نے (اس طرح) حکمرانی کی ہے ۔ انھوں نے بادشاہی میں فقیری کی ہے ۔
در امارت فقر را افزودہ اند مثل سلمان در مدائن بودہ اند
مطلب: انھوں نے حکمرانی میں فقر کو پروان چڑھایا (فقر میں اضافہ کیا) مدائن میں سلمان فارسی کی طرح رہے۔
حکمرانی بود و سامانی نداشت دست او جز تیغ و قرآنی نداشت
مطلب: اگرچہ وہ حاکم تھے مگر ان کے پاس کوئی سامان نہ تھا ۔ ان کے ہاتھ میں تلوار اور قرآن کے سوا کچھ نہ تھا ۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشہ ی دامان اوست
مطلب: جس کی پونجی (سامان) عشق رسول اللہ ﷺ ہے ۔ خشکی اور تری اس کے دامن کے کونے میں بندھے ہوئے ہیں ۔
سوز صدیق و علی از حق طلب ذرہ ئی عشق نبی از حق طلب
مطلب: اللہ تعالیٰ سے حضرت صدیق اور حضرت علی کا سوز مانگ ۔ عشق نبی ﷺ کا ایک ذرہ خدا سے مانگ (اسی عشق سے یہ سوز و ساز حاصل ہو گا) کیونکہ ملت اسلامیہ کی بقا ان کے عشق سے ہے ۔
زانکہ ملت را حیات از عشق اوست برگ و ساز کائنات از عشق اوست
مطلب: کائنات کا سازو سامان ان ﷺ کی محبت ہی تو ہے یہی عشق کائنات کا سارا سازو سامان ہے ۔
جلوہ ی بی پردہ ی او وا نمود جوہر پنہان کہ بود اندر وجود
مطلب:وجود کا چھپا ہوا جوہر آپ ﷺ کے ظہور سے آشکار ہو گیا ۔ اشارہ نور محمدی ﷺ کی طرف ہے مراد ہے کائنات کی تخلیق کا باعث نبی کریم ﷺ ہیں ۔
روح را جز عشق او آرام نیست عشق او روزیست کورا شام نیست
مطلب: آپ ﷺ کے عشق کے بغیر روح کو تسکین نہیں (چین نہیں ہے) آپ ﷺ کا عشق وہ دن ہے جسے شام نہیں ہے ۔
خیز و اندر گردش آور جام عشق در قہستان تازہ کن پیغام عشق
مطلب: اٹھ اور ان کے عشق کے پیالے کو گردش میں لا ۔ کوہستان (افغانستان) میں عشق کا پیغام تازہ کر ۔