غزل نمبر۲
حلقہ بستند سر تربت من نوحہ گران دلبران زہرہ وشان ، گلبدنان ، سیم بران
مطلب: میری قبر پر ماتم کرنے والوں نے حلقہ باندھا ، دلبروں ، زہرہ جمالوں ، گلبدنوں ، سیم بروں نے ۔
در چمن قافلہ لالہ و گل رخت کشود از کجا آمد اند این ہمہ خونیں جگران
مطلب: لالہ و گل کے قافلے نے چمن میں ڈیرا ڈالا یہ سب خونیں جگر والے کہاں سے آئے ہیں ۔
اے کہ در مدرسہ جوئی ادب و دانش و ذوق نخرد بادہ کس از کارگہ شیشہ گران
مطلب: اے کہ تو مدرسے میں ادب اور دانش میں مستی ڈھونڈ رہا ہے ۔ شیشہ گروں کی دکان سے کوئی شراب نہیں خریدتا ۔ اے مخاطب تو مدرسہ میں ادب و دانش و ذوق ان تین خوبیوں کو تلاش کر رہا ہے یہ تیری نادانی ہے ۔ شیشہ گر کی دکان سے جام اور صراحی تو مل سکتی ہے لیکن شراب نہیں ۔
خرد افزود مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظران
مطلب: یورپ کے فلسفیوں کی تعلیمات نے اگرچہ میری سمجھ بوجھ بڑھا ئی لیکن نظر والوں کی صحبت نے میرا سینہ روشن کیا ۔
بر کش آن نغمہ کہ سرمایہ آب و گل تست اے ز خود رفتہ تہی شو ز نواے دگران
مطلب: وہ نغمہ پیدا کر جو تیری مٹی کا سرمایہ ہے ۔ اے اپنے آپ سے بے سدھ دوسروں کا راگ الاپنا چھوڑ دے ۔ (دوسروں کی تقلید مت کر اپنی خودی میں ڈوب کر اپنی معرفت حاصل کر ۔ )
کس ندانست کہ من نیز بہاے دارم آن متاعم کہ شود دست زد بے بصران
مطلب: کسی نے نہ جانا کہ میں بھی کوئی قیمت رکھتا ہوں ۔ افسوس! میری قوم نے مجھے نہیں پہچانا ۔ میں ایسی دولت ہوں جو اندھوں کے ہاتھ لگ جائے ۔