تمہید
پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر
مطلب: پیر رومی ایک روشن ضمیر مرشد ہیں اور عشق و مستی کے قافلہ سالار ہیں ۔
منزلش برتر ز ماہ و آفتاب خیمہ را از کہکشان سازد طناب
مطلب: ان کا مقام چاند اور خورشید سے بھی بلند تر ہے ۔ وہ کہکشاں اس کے خیمہ کی رسی ہے ۔
نور قرآن درمیان سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش
مطلب: ان کا دل قرآن پاک کی روشنی سے منور ہے ۔ ان کے صاف آئینہ (دل) کے سامنے جام جم بھی شرمندہ ہے ۔
از نے آن نے نواز پاک زاد باز شورے در نہاد من فتاد
مطلب: اس پاک فطرت نے نواز کے نغمہ نے میری طبیعت کے اندر دوبارہ ہنگامہ پیدا کر دیا ہے ۔
گفت جانہا محرم اسرار شد خاور از خواب گران بیدار شد
مطلب: (مولانا روم ) نے مجھ سے فرمایا کہ مشرق کے لوگوں کی جانیں رازہائے حیات سے واقف ہو گئی ہیں ۔ مشرق گہری نیند سے جاگ اٹھا ہے ۔
جذبہ ہاے تازہ او را دادہ اند بند ہاے کہنہ را بکشادہ اند
مطلب: قدرت سے اسے (مشرق کو ) نئے ولولے عطا ہوئے ہیں اور اس کی پرانی غلامی کی بیڑیاں کھول دی گئی ہیں (غلامی سے نجات پانے کا احساس پیدا کر دیا ہے ) ۔
جز تو اے داناے اسرار فرنگ کس نکو ننشست در نار فرنگ
مطلب: تو کہ اہل یورپ کے احوال سے اچھی طرح باخبر ہے، تیرے علاوہ کوئی اور یورپی آگ میں ٹھیک طرح نہیں بیٹھا ۔
باش مانند خلیل اللہ مست ہر کہن بتخانہ را باید شکست
مطلب: تو (اقبال) حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرح مست ہو کر قائم رہ، جو بھی پرانا بتخانہ نظر آتا ہے اسے گرا دینا ضروری ہے ۔
امتان را زندگی جذب درون کم نظر این جذب را گوید جنون
مطلب: اقوام کے لیے باطنی کشش ہی سے زندگی کا سامان ملتا ہے، عقل کا اندھا اس کشش یعنی جذب کو پاگل پن کا نام دیتا ہے ۔
ہیچ قومے زیر چرخ لاجورد بے جنون ذو فنون کارے نکرد
مطلب: نیلے آسمان کے نیچے (اس د نیا میں ) کوئی بھی قوم اس ذوفنون جنون کے بغیر ایک بھی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتی ۔
مومن از عزم و توکل قاہر است گر ندارد این دو جوہر کافر است
مطلب: مومن عزم اور توکل علی اللہ ہی سے صاحب قوت و جبروت ہے ۔ اگر وہ یہ جوہر نہیں رکھتا ہے تو وہ مومن نہیں کافر ہے ۔
خیر را او باز میداند ز شر از نگاہش عالمے زیر و زبر
مطلب: وہ خیر اور شر میں امتیاز کرنا جانتا ہے، اس کی نگاہ سے ایک دنیا درہم برہم ہو کے رہ جاتی ہے ۔
کوہسار از ضربت او ریز ریز در گریبانش ہزاران رستخیز
مطلب: اسکی چوٹ یا ٹھوکر سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں ، اسکے گریبان میں ہزاروں ہنگامے برپا رہتے ہیں ۔
تا مے از میخانہ من خوردہ کہنگی را از تماشا بردہ
مطلب: چونکہ تو نے میرے میخانے سے شراب پی ہے اور قدامت (پرانے اقتدار) کو منظر سے ہٹا دیا ہے ۔
در چمن زی مثل بو مستور و فاش درمیان رنگ پاک از رنگ باش
مطلب: اس لیے چمن میں خوشبو کی مانند زندگی اس طرح بسر کر کہ تو مخفی بھی رہے اور اپنے وجود کا اظہار بھی کرتا رہے، اسی طرح رنگوں میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو رنگ سے پاک رکھ ۔
عصر تو از رمز جان آگاہ نیست دین و جز حب غیر اللہ نیست
مطلب: تیرا یہ دور روح کی رمز سے آگاہ نہیں ہے، اس کا دین تو صرف غیر اللہ کی محبت یعنی مادیت کے چنگل میں اسیری ہے اور بس ۔
فلسفی این رمز کم فہمیدہ است فکر او بر آب و گل پیچیدہ است
مطلب: فلسفی اس رمز کو نہیں سمجھ سکتا، اس لیے کہ اس کی ساری سوچ آب وگل کے گرد گھومتی ہے ۔
دیدہ از قندیل دل روشن نکرد پس ندید الا کبود و سرخ و زرد
مطلب: اس (فلسفی) نے اپنی آنکھ کو دل کے چراغ سے روشن نہیں کیا، اس لیے اس نے صرف نیلے، سرخ اور زرد (ظاہری) رنگ دیکھے ہیں ۔ (وہ اللہ تعالیٰ کا رنگ نہ دیکھ سکا) ۔
اے خوش آن مردے کہ دل با کس نداد بند غیر اللہ را از پا کشاد
مطلب: وہ انسان بڑا ہی مبارک ہے جس نے کسی کو دل نہیں دیا اور اپنے پاؤں سے غیر اللہ کی زنجیر کھول ڈالی ۔
سر شیری را نہ فہمد گاو و میش جز بہ شیران کم بگو اسرار خویش
مطلب: شیر کے بھید بھیڑ اور بکری نہیں سمجھ سکتیں ، شیروں کے سوا کم کسی پر اپنے احوال ظاہر کر ۔
با حریف سفلہ نتوان خورد مے گرچہ باشد پادشاہ روم و رے
مطلب: کم ظرف ساتھ کے ساتھ شراب نہیں پی جا سکتی، خواہ وہ روم یا ملک رے کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ۔
یوسف ما را اگر گرگے برد بہ کہ مردے ناکسے او را خرد
مطلب: اگر ہمارے یوسف کو کوئی بھیڑیا اٹھا لے جائے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسکو کوئی گھٹیا آدمی اسے خرید لے ۔
اہل دنیا بے تخیل، بے قیاس بوریا بافان اطلس ناشناس
مطلب: دنیا کے غلام تو نہ تخیل رکھتے ہیں اور نہ سوچ، وہ ٹاٹ بننے والے ہیں جنہیں اطلس کی پہچان ہی نہیں ۔
اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود سوزد از تاثیر او جان در وجود
مطلب: ایک عجمی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ اس کی تاثیر سے جسم میں روح تڑپ اٹھی ہے ۔
نالہ عشق بگوش مردم دنیا بانگ مسلمانی و دیار فرنگ است
مطلب: دنیا والوں کے کانوں میں ایک عاشق کی نالہ و زاری ایسی ہی ہے جیسے فرنگیوں کے ملک میں کوئی مسلمان اذان دے دے ۔
معنی دین و سیاست باز گوے اہل حق را زیں دو حکمت باز گوے
مطلب: تو (اقبال) دین اور سیاست کے معانی پھر بیان کر، ان دو حکمتوں کے بارے میں ان کی حقیقت اہل حق کو دوبارہ بتا دے ۔
غم خور و نان غم افزایان مخور زانکہ عاقل غم خورد کودک شکر
مطلب: غم کھا لے لیکن غم بڑھانے والوں کی روٹی نہ کھا، کیونکہ عقل مند تو غم کھاتا ہے اور بچے کی خوراک شکر ہے ۔
خرقہ خود بار است بر دوش فقیر چون صبا جز بوے گل سامان مگیر
مطلب: فقیر کے کندھے پر تو گدڑی بھی بوجھ ہے، باد صبح کی طرح سوائے پھول کی خوشبو کے اور کوئی سامان نہ لے ۔
قلزمی با دشت و در پیہم ستیز شبنمی خود را بہ گلبرگے بریز
مطلب: تو ایک سمندر ہے تو پھر آبادی و ویرانہ سے مسلسل برسر پیکار رہ، تو ایک قطرہ شبنم ہے تو پھر خود کو پھول کی پتی پر گرا ۔
سر حق بر مرد حق پوشیدہ نیست روح مومن ہیچ میدانی کہ چیست
مطلب: حق کا بھید مرد حق پر پوشیدہ نہیں ہے، کیا تو جانتا ہے کہ روح مومن کیا ہے
قطرہ شبنم کہ از ذوق نمود عقدہ خود را بدست خود کشود
مطلب: شبنم کے قطرے نے اپنی ذات کے اظہار کی خاطر اپنی گتھی اپنے ہی ہاتھوں سے سلجھائی ۔
از خودی اندر ضمیر خود نشست رخت خویش از خلوت افلاک بست
مطلب: وہ قطرہَ شبنم خودی کی بنا پر اپنے ضمیر میں بیٹھ گیا، اس نے افلاک کی خلوت سے اپنا بستر سمیٹا ۔
رخ سوے دریاے بے پایان نکرد خویشتن را در صدف پنہان نکرد
مطلب: اس قطرے نے وسیع اور بیکراں سمندر کا رخ نہ کیا اور نہ خود کو سیپی ہی میں چھپایا ۔
اندر آغوش سحر یک دم تپید تا بکام غنچہ نورس چکید
مطلب: وہ ایک لمحے کے لیے سحر کی آغوش میں تڑپا، پھر تازہ کھلے غنچے کے حلق میں ٹپکا ۔