Please wait..

حضورِ رسالت

 
ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید

مطلب: زیر آسماں حضرت محمد کا شہر ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی جیسے عظیم الشان ولی بھی سانس روک کر آتے ہیں ۔ یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے ۔ (یہ شعر فارسی شاعر عزت بخاری کا ہے)

(۱)

 
الا یا خیمگی خیمہ فرو ہل
کہ پیش آہنگ بیروں شد ز منزل

مطلب: خبردار اے خیمہ میں بیٹھنے والے خیمہ چھوڑ دے کیونکہ قافلے کی رہنمائی کرنے والا منزل سے آگے نکل چکا ہے ۔

 
خرد از راندان محمل فرو ماند
زمام خویش دادم در کف دل

مطلب: عقل کجاوے یعنی جسم کو ہانکنے (سفر کے لیے) سے عاجز آ چکی ہے ۔ میں نے اس کی مہار دل کی ہتھیلی میں تھما دی ہے ۔

 
نگاہے داشتم بر جوہر دل
تپیدم آرمیدم در بر دل

مطلب: میں نے دل کے جوہر (جذبہ عشق) پر نظر رکھی ۔ میں (عشق کی آگ میں ) تڑپا اور میں نے دل کے پہلو میں ہی آرام کیا ۔

 
رمیدم از ہواے قریہ و شہر
بباد دشت وا کردم در دل

مطلب: میں شہر اور گاؤں کی ہوا سے باہر آ گیا ۔ میں نے دل کے دروازے کو صحرا کی ہوا (شہر مدینہ کی روانگی) کے لیے کھول دیا ۔

 
ندانم دل شہید جلوہ کیست
نصیب او قرار یک نفس نیست

مطلب: میں نہیں جانتا کہ میرا دل کس کے جلوے کی گواہی دیتا ہے کہ اس کی قسمت میں ایک پل کا سکون نہیں ہے ۔

 
بصحرا بردمش افسردہ تر گشت
کنار آبجوے زار بگریست

مطلب: میں دل کو صحرا میں لے گیا اور زیادہ افسردہ ہو ا ۔ میں اسے نہر کے کنارے لے آیا یہاں بھی وہ بہت زیادہ رویا ہے ۔

 
مپرس از کاروان جلوہ مستان
ز اسباب جہاں بر کندہ دستان

مطلب: قافلے سے نہ پوچھو وہ محبوب کے جلوے میں مست ہیں ۔ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے اسباب سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

 
بجان شان ز آواز جرس شور
چو از موج نسیمے در نیستان

مطلب: قافلے کی گھنٹی کی آواز سے ان کی جان میں شدت پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے نسیم کے جھونکے سے نرکل یا بانسوں کی جنگل میں شور پیدا ہو جاتا ہے ۔

 
بایں پیری رہ یثرب گرفتم
نوا خوان از سرور عاشقانہ

مطلب: میں نے اس بڑھاپے میں عاشقانہ نغمے کی نوجوانی سے مدینہ منورہ کا راستہ اختیار کیا ۔

 
چون آن مرغے کہ در صحرا سر شام
کشاید پر بہ فکر آشیانہ

مطلب: اس پرندے کی طرح جو صحرا میں شام کے وقت اپنے گھونسلے میں جانے کی فکر میں پرواز کے لیے پر کھولتا ہے ۔

(۲)

 
گناہ عشق و مستی عام کردند
دلیل پختگان را خام کردند

مطلب: عشق و مستی کے گناہ کو عام کردیا ۔ پختہ دلیلوں (فلسفیوں کے طریقہ کار کو ) جھٹلا دیا گیا ۔

 
بآہنگ حجازی می سرایم
نخستین بادہ کاندر جام کردند

مطلب: میں حجازی سر کے ساتھ گا رہا ہوں ۔ سب سے پہلے جو شراب پیالے میں ڈالی گئی وہ ساقی کی مست آنکھ سے ادھار لی گئی ۔

 
چہ پرسی از مقامات نوایم
ندیمان کم شناسند از کجایم

مطلب: میری شاعری کے مقامات کے بارے میں کیا پوچھ گچھ کرتا ہے ۔ میرے دوست نہیں پہچانتے کہ میں کہاں سے ہوں

 
کشادم رخت خود را اندریں دشت
کہ اندر خلوتش تنہا سرایم

مطلب: میں نے اپنے مال و اسباب کو صحرا میں کھول دیا تاکہ میں اس کی تنہائی میں اکیلا ہی گیت گاتا رہوں ۔

(۳)

 
سحر با ناقہ گفتم نرم تر رو
کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است

مطلب: صبح کے وقت میں نے اونٹنی سے کہا کہ آہستگی سے چل کیونکہ تیرا سوار کمزور ، بیمار اور بوڑھا ہے ۔

 
قدم مستانہ زد چندان کہ گوئی
بپالش ریگ ایں صحرا حریر است

مطلب: میں نے اسے جتنا کہا اس نے اس کے خلاف مستی بھرے قدم اٹھائے جیسے اس کے پاؤں اس صحرا کی ریت پر نہیں ریشمی کپڑے پر ہوں ۔

 
مہار اے ساربان او را نشاید
کہ جاں او چو جان ما بصیر است

مطلب: اے ساربان اس کو نکیل نہیں چاہیے کیونکہ ان کی جان ہی میرے جان کی طرح (جلوہ محبوب) کو دیکھنے والی ہے ۔

 
من از موج خرامش می شناسم
چو من اندر طلسم دل اسیر است

مطلب: میں اسے اس کی رفتار کی موج سے پہچان رہا ہوں ۔ کہ میری طرح وہ بھی دل کے جادو کی قیدی ہے ۔

 
نم اشک است در چشم سیاہش
دلم سوزد ز آہ صبح گاہش

مطلب: اس کی اونٹنی کی سیاہ روشن آنکھوں میں آنسووَں کی نمی ہے ۔ میرا دل اس کی صبح کے وقت کی آہ سے جلتا ہے ۔

 
ہمان مے کو ضمیرم را بر افروخت
پیاپے ریزد از موج نگاہش

مطلب: وہی شراب (عشق رسول کی شراب) جس سے میرا ضمیر روشن ہے ۔ اس اونٹنی کی نگاہ کی موج سے مسلسل گر رہی ہے ۔

(۴)

 
چہ خوش صحرا کہ در وے کارواں ہا
درودے خواند و محمل براند

مطلب: کیا اچھا صحرا ہے جس میں قافلے والے درود پڑھتے جاتے ہیں اور کجاوے ہانکتے جاتے ہیں ۔

 
بہ ریگ گرم او آور سجودے
جبین را سوز تا داغے بماند

مطلب: اس صحرا کی گرم ریت پر سجدے بجا لا ۔ پیشانی کو جلا تاکہ نشان رہ جائے ۔

 
چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خند است
شبش کوتاہ و روز او بلند است

مطلب: صحرا کتنا اچھا ہے کیونکہ اس کی شام صبح کی طرح مسکراتی ہے اس کی رات چھوٹی اور اس کا دن بڑا ہے ۔

 
قدم اے راہرو آہستہ تر نہ
چو ما ہر ذرہ او دردمند است

مطلب: اے راہی! بڑی نرمی سے قدم رکھ کیونکہ اس کا (صحرا کا) ہر ذرہ میری طرح دردمند (عاشق ) ہے ۔

 
امیر کاروان آن اعجمی کیست
سرود او بآہنگ عرب نیست

مطلب: اے قافلے کے سردار وہ عجمی کون ہے اس کے نغمے کی لے عرب کے نغمے سے الگ ہے ۔

 
زند آن نغمہ کز سیرابی او
خنک دل در بیابانے توان زیست

مطلب: وہ ایسا نغمہ گا رہا ہے جس کی سیرابی سے اس کے دل میں ٹھنڈک محسوس ہو رہی ہے ، وہ شاعر خود اس بیابان میں زندگی بسر کر سکتا ہے ۔

 
مقام عشق و مستی منزل اوست
چہ آتش ہا کہ در آب و گل اوست

مطلب: عشق و مستی کا مقام اس عجمی کی منزل ہے ۔ اس کی مٹی اور پانی میں کیسی آگ پائی جاتی ہے ۔

 
نواے او بہ ہر دل سازگار است
کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست

مطلب: اس کے نغمے کی صدا ہر دل کے لیے سازگار ہے ۔ کیونکہ ہر سینے میں اس کے دل ایک قاش لگی ہوئی ہے ۔

 
بجان شان ز آواز جرس شور
چو از موج نسیمے در نیستان

مطلب: قافلے کی گھنٹی کی آواز سے ان کی جان میں شدت پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے نسیم کے جھونکے سے نرکل یا بانسوں کی جنگل میں شور پیدا ہو جاتا ہے ۔

 
بایں پیری رہ یثرب گرفتم
نوا خوان از سرور عاشقانہ

مطلب: میں نے اس بڑھاپے میں عاشقانہ نغمے کی نوجوانی سے مدینہ منورہ کا راستہ اختیار کیا ۔

 
چو آن مرغے کہ در صحرا سرشام
کشاید پر بہ فکر آشیانہ

مطلب: اس پرندے کی طرح جو صحرا میں شام کے وقت اپنے گھونسلے میں جانے کی فکر میں پرواز کے لیے پر کھولتا ہے ۔