حورانِ بہشتی
شیوہ ہا داری مثال روزگار یک نوائے خوش دریغ از ما مدار
مطلب: (اے زندہ رود) تیرے طور طریقے زمانے کی طرح ہیں ، ایک اچھی نوا تو ہمیں سنانے میں تامل نہ کر ۔ اپنے چند شعر ہی سنا دے ۔
غزلِ زندہ رود
بآدمے نرسید، خدا چہ می جوئی ز خود گریختہ آشنا چہ می جوئی
مطلب: تو آدمی تک تو پہنچا نہیں ، خدا تعالیٰ کو کیا ڈھونڈتا ہے ۔ تو تو خود سے بھاگا ہوا ہے (اپنے آپ سے دور ہے ) تو آشنا کیا تلاش کرتا ہے ۔
دگر بشاخ گل آویز و آب و نم در کش پریدہ رنگ ز باد صبا چہ می جوئی
مطلب: تو پھر پھول (اسلام) کی شاخ سے لٹک اور پانی اور نمی جذب کر لے ۔ اے اڑے ہوئے رنگ والے (کملائے ہوئے پھول) تو بادصبا سے کیا تلاش کرتا ہے ۔
دو قطرہ خون دل است آنچہ مشک می نامند تو اے غزال حرم در خطا چہ می جوئی
مطلب: جسے کستوری کہا جاتا ہے وہ خون دل کے دو قطرے ہی تو ہیں ۔ اے حرم کے ہرن تو ملک خطا میں کیا ڈھونڈتا ہے (غزال حرم سے مراد مسلمان ہے ) ۔
عیار فقر ز سلطانی و جہانگیری است سریر جم بطلب، بوریا چہ می جوئی
مطلب: فقر کی کسوٹی سلطانی اور جہانگیری ہے ۔ تو جمشید کا تخت طلب کر، بوریا کیا ڈھونڈ رہا ہے
سراغ او ز خیابان لالہ می گیرند نواے خون شدہ ما ز ما چہ می جوئی
مطلب: اس کا سراغ تو لالہ کی کیاریوں سے لگایا جاتا ہے ۔ ہماری خوں شدہ نوا کو ہم سے کیا ڈھونڈتا ہے ۔
نظر ز صحبت روشندلان بیفزاید ز درد کم بصری توتیا چہ می جوئی
مطلب: روشن ضمیر حضرات کی صحبت سے نظر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ تو اپنی کمزورنظروں کے لیے سرمے کی تلاش کر رہا ہے ۔
قلندریم و کرامات ما جہان بینی است ز ما نگاہ طلب کیمیا چہ می جوئی
مطلب: ہم قلندرہیں اور ہماری کرامات جہاں بینی ہے ۔ تو ہم سے نگاہ طلب کر، کیمیا کیا تلاش کرتا ہے ۔