Please wait..

غنی

 
ہند را این ذوق آزادی کہ داد
صید را سوداے صیادی کہ داد

مطلب: ہندوستان کو آزادی کا یہ ذوق کس نے دیا شکار کو شکاری کا جنون کس نے دیا

 
آن برہمن زادگان زندہ دل
لالہ احمر ز روئے شان خجل

مطلب: (یہ ذوق) ان برہمن زادوں نے دیا جو زندہ دل ہیں ، جن کے حسین چہروں کے سامنے لالہ کا سرخ پھول بھی شرمسار ہے ۔

 
تیز بین و پختہ کار و سخت کوش
از نگاہ شاں فرنگ اندر خروش

مطلب: یہ تیز نگاہ اور تجربہ کار اور جفاکش ، محنتی ہیں ۔ اور ان کی نگاہ سے انگریز شور کرتے ہوئے واویلا مچا رہے ہیں ۔

 
اصل شان از خاک دامنگیر ماست
مطلع این اختران کشمیر ماست

مطلب: ان کی اصل ہماری دامن گیر مٹی (کشمیر) سے ہے ۔ ان ستاروں کا مطلع (طلوع ہونا) ہمارا کشمیر ہے ۔

 
خاک ما را بے شرر دانی اگر
بر درون خود یک بکشا نظر

مطلب: اگر تو (زندہ رود) ہماری خاک کو شعلے سے خالی سمجھتا ہے تو پھر ذرا اپنے اندر ہی نظر ڈال، یعنی تو بھی تو کشمیری ہے ۔ کیا تو نہیں چاہتا کہ کشمیر آزاد ہو ۔

 
این ہمہ سوزے کہ داری از کجاست
این دم باد بہاری از کجاست

مطلب: یہ جو تجھ میں سارا سوز ہے یہ کہاں سے آیا ہے، یہ موسم بہار کی ہوا کے جھونکے کہاں سے اٹھے ہیں

 
این ہمان باد است کز تاثیر او
کوہسار ما بگیرد رنگ و بو

مطلب: یہ وہی ہوا ہے جس کی تاثیر سے ہمارے پہاڑ بڑے رنگ و بو پاتے ہیں ۔

 
ہیچ میدانی کہ روزے در ولر
موجہ ئی می گفت با موج دگر

مطلب: کیا تجھے کچھ علم ہے کہ ایک روز ولر جھیل میں ایک موج نے دوسری موج سے کہا

 
چند در قلزم بیک دیگر زنیم
خیز تا یک دم بساحل سر زنیم

مطلب: ہم کب تک اس سمندر میں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہیں گی ، تو اٹھ تا کہ ہم کچھ دیر ساحل سے سر ٹکرائیں ۔

 
زادہ ما یعنی آن جوے کہن
شور او در وادی و کوہ و دمن

مطلب: ہماری پیدا کی ہوئی وہ پرانی ندی جس کا شور وادی، پہاڑ اور دمن میں ہے ۔

 
ہر زمان بر سنگ رہ خود را زند
تا بناے کہہ را بر می کند

مطلب: وہ ہر لمحہ خود کو راستے کے پتھروں سے ٹکراتی ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کی بنیاد تک کو کھو ددیتی ہے (پہاڑ کے اندر بھی راستہ بنا لیتی ہے ) ۔

 
آن جوان کو شہر و دشت و در گرفت
پرورش از شیر صد مادر گرفت

مطلب: وہ جوان جس نے شہر و بیابان اور وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اس کی پرورش سو ماؤں کے دودھ سے ہوئی ہے ۔

 
سطوت او خاکیان را محشرے است
ایں ہمہ از ماست نے از دیگرے است

مطلب: اس کا دبدبہ انسانوں کے لیے ایک قیامت کی حیثیت رکھتا ہے، جب اس میں سیلاب آتا ہے تو وہ بڑی تباہی مچاتا ہے ۔ یہ ہمارے اندر سے نکلا ہے کسی اور جگہ سے تو نہیں نکلا ۔ تو یہ سب کچھ کشمیر ہی کی بدولت ہے ۔ گویا کشمیر نہ ہوتا تو جہلم بھی نہ ہوتا ۔

 
زیستن اندر حد ساحل خطاست
ساحل ما سنگے اندر راہ ماست

مطلب: ساحل کی حدود میں زندگی بسر کرنا غلطی ہے، ہمارا ساحل ہمارے راستے کا پتھر بنا ہو اہے ۔

 
با کران در ساختن مرگ دوام
گرچہ اندر بحر غلتی صبح و شام

مطلب: ساحل سے موافقت کر لینا (کناروں کے اندر رہنا) ہمیشہ کی موت ہے، خواہ اے موج تو سمندر میں صبح و شام کیوں نہ لڑھکتی رہے، طوفان ہی کیوں نہ برپا کرتی رہے ۔

 
زندگی جولان میان کوہ و دشت
اے خنک موجے کہ از ساحل گزشت

مطلب: زندگی تو کوہ و دشت میں اپنی جولانیاں دکھانا ہے ، مبارک ہے وہ موج ہو ساحل سے باہر نکل گئی ۔

 
اے کہ خواندی خط سیمائے حیات
اے بہ خاور دادہ غوغاے حیات

مطلب: اے (زندہ رود) تو نے تو زندگی کی پیشانی کی لکیریں پڑھی ہیں اور اہل مشرق کو زندگی کا ہنگامہ دیا ہے (تجھے قوموں کی تقدیر کی پوری خبر ہے) ۔

 
اے ترا آہے کہ می سوزد جگر
تو ازو بے تاب و ما بے تاب تر

مطلب: اے کہ تو ایسی آہ رکھتا ہے جو جگر کو جلاتی ہے ، تو اس سے بے قرار ہے تو ہم تجھ سے زیادہ بے قرار ہیں ۔

 
اے ز تو مرغ چمن را ہاے و ہو
سبزہ از اشک تو می گیرد وضو

مطلب: اے کہ تجھ سے باغ کے پرندوں میں ہائے و ہو کا شور ہے، اور سبزہ تیرے آنسووَں سے وضو کرتا ہے ۔

 
اے کہ از طبع تو کشت گل دمید
اے ز امید تو جانہا پر امید

مطلب: اے کہ تیری طبع سے پھولوں کی کیاری کھل اٹھی، اے کہ تیری امید سے دوسری جانیں بھی پرامید ہو گئی ہیں ۔

 
کاروانہا را صداے تو درا
تو ز اہل خطہ نومیدی چرا

مطلب: قافلوں کے لیے تیری صدا بیداری اور کوچ کی گھنٹی ہے، پھر تو خطہ کشمیر کے لوگوں سے نا امید کیوں ہے

 
دل میان سینہ شان مردہ نیست
اخگرشاں زیر یخ افسردہ نیست

مطلب: ان (اہل کشمیر) کے سینوں میں مردہ دل نہیں ہیں ، ان کا شعلہ (انگارہ) برف کے نیچے دب کر نہیں بجھا ۔

 
باش تا بینی کے بہ آواز صور
ملتے بر خیزد از خاک قبور

مطلب: ذرا ٹھہر تاکہ تو دیکھے کہ ایک ملت (اہل کشمیر) صور کی آواز کے بغیر ہی قبروں کی مٹی سے اٹھنے والی ہے ۔ (وہ وقت قریب ہے جب اہل کشمیر غلامی سے نجات پا لیں گے ) ۔

 
غم مخور اے بندہ صاحب نظر
بر کش آن آہے کہ سوزد خشک و تر

مطلب: اے صاحب نظر (زندہ رود) تو غم نہ کھا تو ایسی آہ کھینچ جو خشک و تر کو جلا دے ۔

 
شہرہا زیر سپہر لاجورد
سوخت از سوز دل درویش مرد

مطلب: اس نیلے آسمان کے نیچے بہت سے شہر ایک مرد درویش کے سوز دل سے جل اٹھے ہیں ۔

 
سلطنت نازک تر آمد از حباب
از دمے او را توان کردن خراب

مطلب: سلطنت پانی کے بلبلے سے بھی زیادہ نازک چیز ہے، اسے ایک پھونک سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔

 
از نوا تشکیل تقدیر امم
از نوا تخریب و تعمیر امم

مطلب: نوا (شاعری) ہی سے امتوں کی تقدیر بنائی جا سکتی ہے اور اسی شاعری ہی سے قوموں کو تباہ کیا جا سکتا ہے یا انکی تعمیر کی جا سکتی ہے ۔

 
نشتر تو گرچہ در دلہا خلید
مر ترا چو نانکہ ہستی کس ندید

مطلب: اگرچہ تیرا نشتر کلام دلوں میں پیوست ہو چکا ہے لیکن جو کچھ تو ہے ویسا تجھے کسی نے نہیں دیکھا ۔

 
پردہ تو از نواے شاعری است
آنچہ گوئی ماوراے شاعری است

مطلب: تیرا پردہ اگرچہ شاعری کے نغمے سے ہے ورنہ جو کچھ تو کہتا ہے وہ شاعری سے ماورا ہے ۔

 
تازہ آشوبے فگن اندر بہشت
یک نوا مستانہ زن اندر بہشت

مطلب: تو بہشت میں (جہاں اس وقت زندہ رود رومی کے ساتھ ہے ) ایک نوائے مستانہ نیا ہنگامہ برپا کر دے ۔

زندہ رود

 
با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن

مطلب: تو نشہَ درویشی کے ساتھ موافقت کر اور مسلسل پی (مست رہ) جب تو اس نشہ میں پختہ ہو جائے تو اپنے آپ کو جمشید کی سلطنت کے مقابلے پر لے آ ۔

 
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کر برہم زن

مطلب: پوچھنے لگے کہ کیا ہمارا جہان تجھ سے موافقت کر رہا ہے میں نے کہا نہیں ، تو اس پر انھوں نے کہا کہ اس جہان کو درہم برہم کر دے ۔

 
در میکدہ ہا دیدم شائستہ حریفے نیست
با رستم دستان زن با مغچہ ہا کم زن

مطلب: میں نے شراب خانوں میں د یکھا ہے کہ وہاں کوئی بھی شایستہ مدِ مقابل نہیں ہے ۔ تو رستم دستاں کے ساتھ بیٹھ کر پی مغچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ پی ۔

 
اے لالہ صحرائی تنہا نتوانی سوخت
این چراغ جگر تابے بر سینہ آدم زن

مطلب: اے لالہَ صحرائی تو اکیلا نہیں جل سکتا تو جگر میں حرارت پیدا کرنے والا اپنا یہ داغ آدمی کے سینے میں لگا ، پیدا کر ۔

 
تو سوز درون او، تو گرمی خون او
باور نکنی چاکے در پیکر عالم زن

مطلب: تو اس کائنات کا سوزِ دروں ہے اور تو ہی اس کے خون کی حرارت ہے ۔ اگر تجھے اس بات پر یقین نہیں ہے تو پھر جہان کے بدن میں چیر ، پھاڑ ڈال کر دیکھ لے ۔

 
عقل است چراغ تو در راہگزارے نہ
عشق است ایاغ تو با بندہ محرم زن

مطلب: کیا عقل تیری چراغ ہے اگر ہے تو اسے کسی راہ گزر میں رکھ دے ۔

 
لخت دل پر خونے از دیدہ فرو ریزم
لعلے ز بدخشانم بردار و بخاتم زن

مطلب: میں اپنے خون دل کا ایک ٹکڑا آنکھوں سے گرا رہا ہوں ، تو میرے بدخشاں کا ایک لعل اٹھا لے اور اسے اپنی انگوٹھی میں جڑ لے ۔