Please wait..

(۱)

 
بر خیز کہ آدم را ہنگام نمود آمد
این مشت غبارے را انجم بسجود آمد

مطلب: (اے انسان) اٹھ کھڑا ہو کیونکہ آدم کی خوبیوں کے اظہار کا وقت آ پہنچا ہے ۔ اس مٹھی بھر خاک کے پتلے (انسان) کے آگے ستارے سجدہ ریز ہیں (انسان کے سیاروں پر قدم رکھنے کا وقت آ گیا ہے) ۔

 
آن راز کہ پوشیدہ در سینہ ہستی بود
از شوخی آب و گل در گفت و شنود آمد

مطلب: وہ راز جو اس کائنات کے سینے میں پوشیدہ تھا پانی اور مٹی سے تخلیق شدہ انسان کی شوخی گفتار کی وجہ سے منظر پر آ گیا ۔ (آدم کی تخلیقی صلاحیتوں اور تسخیری قوتوں نے کائنات کا راز فاش کر دیا ۔ وہ کائنات جو پہلے ایک سربستہ راز تھی ۔ )

(۲)

 
مہ و ستارہ کہ در راہ شوق ہم سفرند
کرشمہ سنج و ادا فہم و صاحب نظرند

مطلب: چاند اور ستارے جو راہِ شوق (عشق) میں اکھٹے محوِ سفر ہیں وہ (حسن) کی اشارہ بازیوں کو پرکھنے ، اس کی دلفریب اداؤں کو سمجھنے اور حقیقت شناس نظر رکھنے والے ہیں (چاند اور ستارے منشاے فطرت کے مطابق مصروف سفر ہیں ) ۔

 
چہ جلوہ ہاست کہ دیدند در کف خاکے
قفا بجانب افلاک سوے ما نگرند

مطلب: اپنی (روشنی) اور (دوسری صفات) کے باوجود انھوں نے اس خاک کے پتلے میں ایسی کونسی خوبی دیکھی ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے ان کی پیٹھ تو آسمانوں کی طرف ہے اور ان کی نظریں آدمی کی طرف ہیں (جو کہ رب کائنات کا نائب، اور کائنات کی ہر شے پر بھاری ہے) ۔

(۳)

 
درون لالہ گزر چوں صبا توانی کرد
بیک نفس گرہ غنچہ وا توانی کرد

مطلب: لالہ کے پھولوں کے اندر نرم و لطیف ہو اکی طرح گزرا جا سکتا ہے ۔ ایک شگفتہ اور نرم سانس سے غنچہ کھلایا جا سکتا ہے ۔ (اسی طرح غم زدہ دلوں کی مسرتیں بھی تلاش کی جا سکتی ہے) ۔

 
حیات چیست جہان را اسیر جان کردن
تو خود اسیر جہانی، کجا توانی کرد

مطلب: زندگی کی حقیقت کیا ہے یا جہان کو غلام بنانے کا نام ہے یا کہ دنیا کے غلام بننے کا ۔

 
مقدر است کہ مسجود مہر و مہ باشی
ولے ہنوز ندانی چہا توانی کرد

مطلب: اے انسان! تیری تقدیر یہ ہے کہ چاند اور سورج تجھے سجدہ کرتے رہیں یعنی تیرے حکم کے تابع ہوں ۔ لیکن ابھی تک تو یہ نہیں جانتا کہ تو یہ کام کیسے کر سکتا ہے ۔

 
اگر ز میکدہ من پیالہ گیری
ز مشت خاک جہانے بپا توانی کرد

مطلب: اگرتو میرے شراب خانے سے ایک پیالہ شراب بھی پی لے تو (اے انسان) تو اپنی مٹھی بھر خاک سے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ سکتا ہے (ایسی دنیا جو تیرے زیرِ سایہ ہو) ۔

 
چسان بسینہ چراغے فروختی اقبال
بخویش آنچہ توانی بما توانی کرد

مطلب: اے اقبال! (یہ بتا کہ) تو نے اپنے سینے میں یہ چراغ (افکار تازہ) کس طرح روشن کیا ہےجس طرح تو نے اپنے سینے کو نئے افکار سے روشن کیا ہے اسی طرح تو میرے تاریک سینے کو بھی روشن کر سکتا ہے ۔

(۴)

 
اگر بہ بحر محبت کرانہ می خواہی
ہزار شعلہ دہی یک زبانہ می خواہی

مطلب: (اے انسان) اگر تو محبت کے سمندر میں رہتے ہوئے ساحل کی تمنا کر رہا ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے تو ہزاروں شعلے دے کر ایک چنگاری حاصل کرنا چاہتا ہے ۔

 
مرا ز لذت پرواز آشنا کردند
تو در فضائے چمن آشیانہ می خواہی

مطلب: مجھے تو کھلی فضاؤں میں پرواز کی لذت سے آشنا کیا گیا ہے ۔ اور تو صرف چمن کی فضاؤں میں ہی آشیانہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے (اپنے ذوق عمل کو ترک کر کے بے عملی کی زندگی بسر کر نا چاہتا ہے) ۔

 
یکے بہ دامن مردان آشنا آویز
ز یار اگر نگہ محرمانہ می خواہی

مطلب: تو ایک بار مردان آشنا (معرفت الہٰی سے باخبر لوگوں ) کا دامن تھام لے ۔ اگر تو واقعی اپنے محبوب کی محرمانہ نگاہ چاہتا ہے تو چاہتا ہے کہ محبوب کی نظر کرم تجھ پر ہو جائے (تو مردانِ عشق آشنا) کا دامن تھام لے ۔

 
جنوں نہ داری و ہوے فگندہ در شہر
سبو شکستی و بزم شبانہ می خواہی

مطلب: تجھ میں عشق کا جنوں تو ہے ہی نہیں ۔ اور تو شہر بھر میں اس کا چرچا کرتا پھرتا ہے ۔ تو نے تو ساغرِ عشق ہی توڑ دیا ہے ۔ اور یہ خواہش کرتا ہے کہ رات کے وقت رندوں کی بزم بھی آراستہ ہو ۔

 
تو ہم بعشوہ گری گوش و دلبری آموز
اگر ز ما غزل عاشقانہ می خواہی

مطلب: اگر تو چاہتا ہے کہ بزمِ رند آراستہ ہو تو معشوقانہ ناز و ادا سیکھنے کی کوشش کر ۔ اگر تو ہم عاشقانہ غزل کی طلب رکھتا ہے تو پھر محفل کے آداب بھی سیکھنا پڑیں گے ۔

(۵)

 
زمانہ قاصد طیار دلآرام است
چہ قاصدے کہ وجودش تمام پیغام است

مطلب: یہ جہاں اس دل کو قرار پہنچانے والے محبوب (خالق کائنات) کا ایسا پیغام رساں ہے جو کبھی ایک جگہ ٹھہرتا نہیں ۔ ہر وقت سرگرمِ سفر رہتا ہے ۔ یہ جہاں کیسا زبردست قاصد ہے کہ جو سر تا پا پیغام ہی پیغام ہے (زمانہ ہر لمحہ نئے پیغامات لے کر آتا ہے) ۔

 
گمان مبرکہ نصیب تو نیست جلوہ دوست
درون سینہ ہنوز آرزوے تو خام است

مطلب: (اے انسان) یہ بات کبھی نہ سوچ کہ جلوہَ دوست تیری قسمت میں نہیں ہے ۔ اس مقصد کے لیے تو آرزو کا سچا ہونا ضروری ہے (عشق کی سچی لگن تجھے دوست کے جلووں سے شناسا کر دے گی) لیکن تیرے سینے میں جو آرزو ہے وہ بھی خام ہے ۔

گرفتم این کہ چو شاہیں بلند پروازی
بہوش باش کہ صیاد ما کہن دام است

مطلب: میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ تو شاہین کی طرح بلند پرواز ہے ۔ اور تجھے شکار کرنا آسان نہیں ۔ لیکن تو عقل کے پروں سے محو پرواز ہے ۔ اس لیے تجھے عشق کا شکاری، شکار کر سکتا ہے عشق کے آگے عقل بے کار ہے ۔ اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تو اپنی عقل کے بل بوتے پر کسی کے قابو میں نہیں آئے گا تو یہ تیری غلط فہمی ہے ۔ اب بھی وقت ہے ہوش سے کام لے کیونکہ عشق اپنا جال بچھانے والا ہے جو بڑا تجربہ کار ہے اور عقل شکاری ہے ۔

 
باوج مشت غبارے کجا رسید جبریل
بلند نامی او از بلندی بام است

مطلب: جہاں تک اس مشتِ خاک کی رسائی ہے جبرئیل فرشتہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کا بلند نام اس وجہ سے ہے کہ وہ آسمان کی چھت پر رہتا ہے (ورنہ وہ اہلِ زمین سے کم تر مقام کا مالک ہے ۔ یہ بات واقعہ معراج سے بھی ثابت ہے جب جبرئیل سدرہ سے آگے نہ جا سکا تھا) ۔

 
تو از شمار نفس زندہ نمیدانی
کہ زندگی بہ شکست طلسم ایام است

مطلب: اے انسان! تو سالوں کے شمار کی قید میں ہے اور اسی لیے بقا کے جوہر سے خالی ہے ۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ زندگی زمانے کے جادوکو توڑنے سے بقا حاصل کرے گی ۔ جس نے زمانے کے طلسم کو توڑ دیا وہ امر ہو گیا ۔

 
ز علم و دانش مغرب ہمیں قدر گویم
خوش است آہ و فغان تا نگاہ ناکام است

مطلب: مغرب کے علم و دانش کے بارے میں میری رائے یہی ہے کہ اس کی آہ و فریاد میں لذت تو ہے لیکن وہ فکری نگاہ سے محروم ہے ۔ اس لیے اس کا حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں ۔

 
من از ہلال و چلیپا دگر نیندیشم
کہ فتنہ دگرے در ضمیر ایام است

مطلب: مجھے ہلال (مسلمان) اور صلیب (عیسائیوں ) کی آویزش سے اس کے سوا اور کوئی خدشہ نہیں کہ ان دونوں کی چپقلش سے کہیں دنیا میں کوئی نیا فتنہ نمودار نہ ہو جائے ۔ اگر یہ دونوں قو میں آپس میں دست و گریبان رہیں گی تو دنیا میں بے و تہی یا اشتراکیت کی صورت میں نئی قوت ابھر سکتی ہے جو دونوں کے لیے نقصان دہ ہو ۔