حلاج
بود اندر سینہ من بانگ صور ملتے دیدم کہ دارد قصد گور
مطلب: میرے سینے میں بانگِ صور تھی ۔ میں نے ایک ملت کو دیکھا کہ وہ قبر کا ارادہ کر رہی ہے ۔
مومنان با خوے و بوے کافران لا الہ گویان و از خود منکران
مطلب: ان مومنوں کی خوبو کافروں جیسی تھی ، زبان سے تو وہ لا الہ کہتے تھے لیکن اپنے آپ سے منکر تھے ۔
امر حق گفتند نقش باطل است زانکہ او وابستہ آب و گل است
مطلب: وہ کہتے تھے کہ امرِ حق ایک باطل نقش ہے کیونکہ وہ بدن کے ساتھ وابستہ ہے (اس کا تعلق بدن سے ہے)
من بخود افروختم نار حیات مردہ را گفتم ز اسرار حیات
مطلب: میں نے اپنے اندر زندگی کی آگ روشن کی، مردوں کو زندگی کے راز بتا دیئے ۔
از خودی طرح جہانے ریختند دلبری قاہری آمیختند
مطلب: میں (حلاج) نے ان سے کہا کہ جہان کی بنیاد خودی پر رکھی گئی ہے ۔ یہاں دلبری (جمال) کو قاہری (جلال) سے ملا دیا گیا ہے ۔
ہر کجا پیدا و ناپیدا خودی بر نمے تابد نگاہ ما خودی
مطلب: خودی جہان میں ہر جگہ ہے کہیں ظاہر ہے اور کہیں پوشیدہ ، ہماری نگاہیں خودی کے جلوے کی تاب نہیں لا سکتیں ۔
نارہا پوشیدہ اندر نور اوست جلوہ ہائے کائنات از طور اوست
مطلب: اس (خودی) کے نور کے اندر نار (آگ) چھپی ہوئی ہے ۔ کائنات کے سارے جلوے اسی طور کی تجلیات کے ہیں ۔
ہر زمان ہر دل درین دیر کہن از خودی در پردہ می گوید سخن
مطلب: اس پرانی دنیا میں ہر دل ہر لمحہ خودی سے پوشیدہ طور پر گفتگو کرتا ہے ۔
ہر کہ از نازش نصیب خود نبرد در جہان از خویشتن بیگانہ مرد
مطلب: جس کسی نے بھی اس (خودی) کی آگ سے اپنا حصہ نہ لیا یعنی استفادہ نہ کیا وہ جہان میں خود سے بیگانہ ہو کر یا خودی سے محروم ہو کرمر گیا ۔
ہند و ہم ایران ز نورش محرم است آنکہ نازش ہم شناسد آن کم است
مطلب: ہندوستان اور ایران کے لوگ خودی کے نور سے تو واقف ہیں لیکن ان میں کوئی اسکی نار کو بھی پہچانے نہیں ہے ۔
من ز نور و نار او دادم خبر بندہ محرم گناہ من نگر
مطلب: میں نے خود کے نور اور نار کی خبر دی ، اے اسرار سے آگاہ بندے یعنی زندہ رود تو ہی بتا کہ اس میں میرا کیا گناہ تھا ۔
آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس محشرے بر مردہ آوردی بترس
مطلب: (اے زندہ رود) جو کچھ میں نے کیا اب وہی کچھ تو بھی کر رہا ہے ۔ (خودی پہچاننے کی تلقین کر رہا ہے ) تو ڈر کے رہ، کہیں تجھ سے بھی میرے جیسا سلوک نہ ہو ۔ تو نے بھی مردہ قوم کو جگانے کے لیے محشر برپا کیا ہے اس لیے ڈر کر رہ ۔ کہیں نامحرم لوگ تجھے بھی میرے والی سزا نہ دیں ۔
طاہرہ
از گناہ بندہ صاحب جنون کائنات تازہ آید برون
مطلب: (طاہرہ کو بھی حلاج کی طرح قتل کیا گیا تھا ) عشق کے جذبو ں سے سرشار ایک بندے کے گناہ سے ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے (طاہرہ نے حلاج کی حمایت میں بات کی ہے) ۔
شوق بے حد پردہ ہا را بر درد کہنگی را از تماشا می برد
مطلب: حد سے بڑھے ہوئے عشق سارے پردے پھاڑ دیتا ہے اور اس کے تماشا سے قدامت پرستی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔
آخر از دار و رسن گیرد نصیب بر نگردد زندہ از کوے حبیب
مطلب: ایک عاشق کے نصیب میں آخر کار دار و رسن ہوتی ہے ۔ وہ (عاشق) محبوب حقیقی کے کوچے سے زندہ واپس نہیں آتا ۔
جلوہ او بنگر اندر شہر و دشت تانہ پنداری کہ از عالم گزشت
مطلب: تو (زندہ رود) اس (حلاج جیسے سچے عاشق) کا جلوہ آج بھی شہر اور بیابان میں دیکھ تا کہ تو یہ نہ سمجھ لے کہ وہ تو دنیا ہی سے رخصت ہو گیا ہے ۔
در ضمیر عصر خود پوشیدہ است اندرین خلوت چسان گنجیدہ است
مطلب: وہ (منصور) اپنے زمانے کے ضمیر میں پوشیدہ (چھپا ہوا) ہے وہ اس ضمیر کی خلوت میں کیسے سما گیا ہے (وہ تو کائنات میں بھی نہیں سما سکتا ) ۔
زندہ رود
(زندہ رود غالب کی روح سے مخاطب ہے)
اے ترا دادند درد جستجوے معنی یک شعر خود با من بگوے
مطلب: اے (غالب) تجھے تلاش و جستجو کا درد عطا ہوا ہے ، مجھے اپنے ایک شعر کے معنی تو بتائیے ۔
قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ چیست
مطلب: قمری تو کف خاکستر ہے، اور بلبل رنگ کا ایک پنجرہ ہے ۔ بلبل کے سیاہ رنگ سے بھی اس کے باطن میں جلی ہوئی آگ ظاہر ہو رہی ہے ۔ اے نالہ نشانِ جگر سوختہ کیا ہے، اے نالہَ انسان جگر سوختہ کا نشان کیا ہے
غالب
نالہ کو خیزد از سوز جگر ہر کجا تاثیر او دیدم دگر
مطلب: وہ نالہ جو جگر کے سوز سے اٹھتا ہے ، میں نے ہر جگہ اس کی تاثیر مختلف دیکھی ہے ۔
قمری از تاثیر او واسوختہ بلبل از وے رنگہا اندوختہ
مطلب: قمری اس کی تاثیر سے مکمل طور پر جل جاتی ہے، لیکن بلبل اس کی تاثیر سے کئی رنگ اختیار کر لیتی ہے ۔
اندرو مرگے بآغوش حیات یک نفس اینجا حیات، آنجا ممات
مطلب: اسی نالے کے اندر موت، زندگی کی گود میں ہے ۔ ایک ہی دم یہاں (بلبل کو) زندگی دیتا ہے اور وہاں (قمری کو) موت دیتا ہے (یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ سانس کا لمحہ ایک ہی ہے جو یہاں موت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور وہاں زندگی کی) ۔
آنچنان رنگے کہ ارژنگی ازوست آنچنان رنگے کہ بیرنگی ازوست
مطلب: یہ ایک ایسا رنگ ہے کہ اس سے کئی قسم کے رنگ پیدا ہوتے ہیں ، یہ ایک ایسا بھی رنگ ہے جس سے بے رنگی پیدا ہوتی ہے ۔
تو ندانی این مقام رنگ و بوست قسمت ہر دل بقدرہاے و ہوست
مطلب: تو نہیں جانتا کہ یہ رنگ و بو کا مقام ہے، یہاں ہر دل کی قسمت اس کے ہائے و ہو کے مطابق حصہ پاتا ہے ۔
یا بہ رنگ آ یا بہ بے رنگی گزر تا نشانے گیری از سوز جگر
مطلب: تو یا تو رنگ میں آ جایا پھر بے رنگی میں گزر جا ۔ (بے رنگی اختیار کر لے ) تاکہ تجھے سوزِ جگر سے کوئی نشان حاصل ہو سکے ۔
زندہ رود
صد جہان پیدا درین نیلی فضاست ہر جہان را اولیا و انبیاست
مطلب: اس نیلی فضا میں سینکڑوں جہاں موجود ہیں ، کیا ہر جہان میں اولیاَ اور انبیا َ ہوتے ہیں ۔
غالب
نیک بنگر اندرین بود و نبود پے بہ پے آید جہانہا در وجود
مطلب: اس ہستی و عدم کو غور سے دیکھ، یہاں مسلسل جہان وجود میں آ رہے ہیں ۔
ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ للعالمینے ہم بود
مطلب: جہاں کہیں بھی دنیا کا ہنگامہ ہے وہاں ایک رحمت للعالمین بھی ہیں ۔
زندہ رود
فاش تر گو زانکہ فہمم نارساست
مطلب: وضاحت سے کہیے کیونکہ میرا فہم نارسا ہے (سمجھنے والا نہیں ہے ) ۔
زندہ رود
نقش حق را در جہان انداختند من نمی دانم چسان انداختند
مطلب: جہان پر اللہ تعالیٰ کا نقش ڈالا گیا ہے ۔ مگر میں نہیں جانتا کہ اسے کیسے ثبت کیا گیا ہے ۔
حلاج
یا بزور دلبری انداختند یا بزور قاہری انداختند
مطلب: یا تو دلبری (جمال) کے زور سے یہ نقش ڈالا گیا یا پھر قاہری (جلال و دبدبہ ) کے زور سے ۔
زانکہ حق در دلبری پیدا تر است دلبری از قاہری اولیٰ تر است
مطلب: چونکہ حق دلبری میں زیادہ واضح ہوتا ہے اس لیے دلبری ، قاہری سے بہتر ہے (اونچا درجہ رکھتی ہے ) ۔
زندہ رود
باز گو اے صاحب اسرار شرق درمیان زاہد و عاشق چہ فرق
مطلب: اے اہل مشرق کے رازدان، ایک بار پھر بیان کر کہ زاہد اور عاشق کے درمیان کیا فرق ہے
حلاج
زاہد اندر عالم دنیا غریب عاشق اندر عالم عقبی غریب
مطلب: زاہد دنیا میں اجنبی ہے اور عاشق عالم عقبیٰ (جنت) میں اجنبی ہے ۔
زندہ رود
معرفت را انتہا نابودن است زندگی اندر فنا آسودن است
مطلب: معرفت کی انتہا اپنی فنا (ہستی مٹانا) ہے ۔ کیا زندگی فنا میں آرام و سکون حاصل کرنا ہے
حلاج
سکر یاران از تہی پیمانگی است نیستی از معرفت بیگانگی است
مطلب: دوستوں کی مستی ان کے خالی پیالے کے باعث ہے ۔ فنا (اپنے آپ کو مٹا دینا) معرفت سے بیگانگی (نا آشنا ہونے) کا نام ہے ۔
اے کہ جوئی در فنا مقصود را در نمی یابد عدم موجود را
مطلب: تو جو فنا میں اپنے مقصود کو تلاش کر رہا ہے یہ جان لے کہ عدم موجود کو نہیں پا سکتا ۔ (عدم موجود کی ضد ہے) ۔
زندہ رود
آنکہ خود را بہتر از آدم شمرد در خم و جامش نہ مے باقی، نہ درد
مطلب: وہ کہ جس نے خود کو آدم سے بہتر شمار کیا یعنی ابلیس ، اس کے مٹکے اور پیالے میں نہ تو شراب باقی ہے اور نہ تلچھٹ ۔
مشت خاک ما بگردون آشناست آتش آن بے سر و سامان کجاست
مطلب: ہم انسانوں کی مٹی کی مٹھی تو آسمان سے آشنا ہے ۔ اس بے سروسامان (ابلیس) کی آگ (جس پر اسے ناز تھا ) آج کہاں ہے ۔
حلاج
کم بگو زان خواجہ اہل فراق تشنہ کام و از ازل خونین ایاق
مطلب: تو اس خواجہ اہل فراق کی بات نہ کر، وہ جو پیاسا ہے اور ازل سے اس جس کا پیالہ خون سے بھرا ہوا ہے (وہ اہل فراق کا سردار اس لحاظ سے ہے کہ وہ درگاہِ ایزدی سے راندہ ہو گیا ہے جو کوئی اس کی پیروی کرے گا خدا سے دور ہو جائے گا ) ۔
ما جہول او عارف بود و نبود کفر و این راز را بر ما کشود
مطلب: ہم جہول ہیں جبکہ وہ (ابلیس) ہستی و نیستی کا عارف (واقف ) ہے ۔ اس کے اس کفر یعنی آدم کو سجدہ کرنے سے انکار نے ہم پر یہ راز کھولا ہے ۔
از فتادن لذت برخاستن عیش افزون ز درد کاستن
مطلب: اٹھنے کی لذت گرنے ہی سے ہے اور درد سے گھٹ جانے میں عشق کا اضافہ ہے ۔
عاشقی در نار او واسوختن سوختن بے نار او ناسوختن
مطلب: عاشقی اس (ابلیس) کی آگ میں جل جانے کا نام ہے ۔ اس کی آگ میں جلنا نہ جلنے کے برابر ہے (ابلیس نے اپنے خالق کے سوا اور کسی کو سجدہ نہ کیا، گویا یہ پختہ عشق کی علامت ہے) ۔
زانکہ او در عشق و خدمت اقدم است آدم از اسرار او نامحرم است
مطلب: چونکہ وہ (ابلیس) عشق اور خدمت میں سب سے پہلے (قدیم تر) ہے یعنی آدم سے پہلے کا ہے، اس لیے آدم اس کے رازوں سے بے خبر ہے ۔
چاک کن پیراہن تقلید را تا بیاموزی ازو توحید را
مطلب: (اے زندہ رود) تو کسی کی بے جا پیروی کے لباس کو پھاڑ ڈال (مت پیروی کر) تاکہ تو اس (ابلیس) سے توحید سیکھ سکے ۔
زندہ رود
اے ترا اقلیم جان زیر نگین یک نفس با ما دگر صحبت گزین
مطلب: اے (حلاج) کہ روح کی سلطنت تیرے قبضے میں ہے (تو روح کے رموز و اسرار سے آگاہ ہے ) کچھ دیر کے لیے ہمیں اپنی صحبت سے مزید نوازیئے ۔
حلاج
با مقامے در نمی سازیم و بس ما سراپا ذوق پروازیم و بس
مطلب: ہم ایک منزل سے موافقت نہیں کرتے یعنی رکتے اور بس، اس لیے کہ ہم سراسر ذوقِ پرواز ہیں اور بس ۔ (ہم ہر لمحہ نئی منزل کی تلاش میں رواں دواں رہتے ہیں ) ۔
ہر زمان دیدن تپیدن کار ماست بے پر و بالے پریدن کار ماست
مطلب: ہر لمحہ دیکھنا اور تڑپنا ہمارا کام ہے، بال و پر کے بغیر اڑنا ہمارا کام ہے ۔