غزل نمبر۳۲
سطوت از کوہ ستانند و بکاہے بخشند کلہ جم بگدائے سر راہے بخشند
مطلب: پہاڑ سے ہیبت اور جلال چھین کر ایک تنکے کو بخش دیتے ہیں ۔ راستے میں پڑے ہوئے کسی فقیر کو جمشید کا تاج عطا کر دیتے ہیں ۔
در رہ عشق فلاں ابن فلاں چیزے نیست ید بیضاے کلیمے بسیاہے بخشند
مطلب: عشق کی راہ میں نام و نسب (فلاں ابن فلاں ) کوئی چیز نہیں ۔ حضرت موسیٰ کا ید بیضا کسی حبشی کو بخش دیا جاتا ہے ۔
گاہ شاہی بجگر گوشہ سلطان ندہند گاہ باشد کہ بزندانی چاہے بخشند
مطلب: کبھی سلطان کے فرزند تک کو بادشاہی نہیں دیتے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک کنویں میں پڑے ہوئے شخص (یوسف) کو بخش دیتے ہیں ۔
فقر را نیز جہانبان و جہانگیر کنند کہ باین راہ نشین تیغ نگاہے بخشند
مطلب: فقر کو بھی جہاں کا رکھوالا اور حاکم بنا دیتے ہیں اسی لیے اس راہ نشیں کو نگاہ کی تلوار عطا کرتے ہیں ۔ اسی مضمون کو اقبال نے بال جبریل میں یوں ادا کیا ہے ۔
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی وہ نگہ کی تیغ بازی
عشق پامال خرد گشت و جہان دیگر شد بود آیا کہ مرا رخصت آہے بخشند
مطلب: عشق، عقل کے ہاتھوں پامال ہو گیا اور جہان بدل گیا (دنیا وہ نہیں رہی) کیا ایسا ہو گا کہ وہ مجھے ایک آہ کی رخصت بخش دیں ۔