غزل نمبر۱۰
ہوای فرودین در گلستان میخانہ می سازد سبو از غنچہ می ریزد، ز گل پیمانہ می سازد
مطلب: بہار کی ہوا نے گلستان کے اندر میخانہ بنا دیا ہے ۔ موسم بہار میں گلستان کو دیکھو تو میخانہ معلوم ہوتا ہے ۔ غنچے سے صراحی بن رہی ہے پھول کو پیالہ بنا رہی ہے یعنی غنچہ سبو ہے اور گل اس کا پیمانہ ۔
محبت چون تمام افتد، رقابت از میان خیزد بہ طوف شعلہ ئی پروانہ با پروانہ می سازد
مطلب: جب محبت مکمل ہو جائے تو رقابت درمیان سے اٹھ جاتی ہے ۔ پروانے ایک دوسرے سے مل کر ایک ہی شعلے کا طواف کرتے ہیں ۔ (کوئی پروانہ کسی پروانے سے جنگ و جدل میں مصروف نہیں ہوتا بلکہ سب مل کر محبوب کا طواف کرتے ہیں ) ۔
بہ ساز زندگی سوزی ، بہ سوز زندگی سازی چہ بیدردانہ می سوزد، چہ بیتابانہ می سازد
مطلب: زندگی کے ساز میں ایک سوز ہے اور زندگی کا سوز ساز سے خالی نہیں ہے (یعنی عاشق میں سوز کے ساتھ ساز کی کیفیت بھی برقرار رہتی ہے) ۔ کس بیدردی سے سوز توڑتا ہے کس بے تابی سے ساز جوڑتا ہے ۔
تنش از سایہ بال تذروی لرزہ می گیرد چو شاہیں زادہ اندر قفس با دانہ می سازد
مطلب: اس کا بدن چکور کے پر کے سایہ سے بھی کانپ اٹھتا ہے ۔ جب کوئی شاہیں بچہ پنجرے کے اندر دانہ پر راضی ہو جاتا ہے (جب مرد مومن، غیر اللہ کی غلامی اختیار کر لیتا ہے تو اس میں اس قدر بزدلی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ کافر کو دیکھ کر لرزہ براندام ہو جاتا ہے یعنی جہاد نہیں کر سکتا ۔ )
بگو اقبال را ای باغبان رخت از چمن بندد کہ ایں جادو نوا ما را ز گل بیگانہ می سازد
مطلب: اے باغبان اقبال سے کہہ دے کہ وہ چمن سے نکل جائے کیونکہ یہ جادو نوا ہمیں پھول سے بیگانہ کر رہا ہے(ہمارے اندر پھولوں کی رغبت نہیں رہی ۔ اقبال کہنا چاہتے ہیں کہ اگر قوم میرے کلام کو سمجھ لے تو دنیا اور اس کی فانی لذتوں سے بیگانہ ہو کر اپنے مقصد حقیقی کے حصول کی طرف راغب ہو سکتی ہے ۔ )