Please wait..

لالہ طور
بخشش اول ۔ قسمت اول ۔وادی طور کے لالہ کا پھول
لالہ، اقبال کے کلام میں ایک علامت ہے یعنی مظہر عشق ہے اور طور وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حسن مطلق کی تجلی دیکھی تھی ۔

 
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است

مطلب: ساری کائنات اسی (اللہ تعالیٰ) کی کبریائی پر نثار ہے ۔ بندگی تمام موجودات کی سرشت میں ہے ۔ دستور قدیم کے مطابق اقبال نے اس میں حمد باری تعالیٰ بیان کی ہے ۔

 
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیماے سحر داغ سجود است

مطلب: (کیا) تو نہیں دیکھتا کہ آسمان کو چمکانے والا سورج صبح کے ماتھے پر سجدے کا نشان ہے ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ صبح کی روشنی سورج کی مرہون منت ہے ۔ اگر سورج نہ ہوتا تو صبح کی روشنی بھی نہ ہوتی اور اگر خدا نہ ہوتا تو آفتاب بھی نہ ہوتا ۔ یعنی ساری کائنات اپنے وجود اور بقا میں خدا کی محتاج ہے ۔ اس میں وحدۃ الوجود کا مضمون پنہاں ہے ۔

 
دل من روشن از سوز درون است
جہان بیں چشم من از اشک خون است

مطلب: میرا دل (سوز درون) باطن کی آنچ سے روشن ہے ۔ میری آنکھ خون کے آنسووَں کے باعث دنیا دیکھتی ہے یعنی رموز و اسرار جہان کو دیکھنے والی ہے ۔

 
ز رمز زندگی بیگانہ تر باد
کسے کو عشق را گوید جنون است

مطلب: خدا کرے زندگی کے راز سے اور بھی بے خبر رہے وہ شخص جو عشق کو پاگل پن (جنون) کہتا ہے ۔ بنیادی تصور عشق زندگی کی حقیقت ہے ۔

 
بباغان باد فروردین دہد عشق
براغان غنچہ چون پروین دہد عشق

مطلب: عشق باغوں کی بہار کو ہوا دیتا ہے ۔ عشق جنگلوں کو ستاروں کی مانند گچھے ایسی کلیاں سفید غنچے بخشتا ہے ۔

 
شعاع مہر او قلزم شگاف است
بماہی دیدہ ی رہ بین دہد عشق

مطلب: اس کے سورج کی کرن سمندر کی گہرائی کو چیر جاتی ہے ۔ عشق سمندر میں موجود مچھلی کو راستہ دیکھنے والی آنکھ عطا کرتا ہے ۔ مراد کائنات میں ہر جگہ اور ہر شے میں عشق ہی کی جلوہ گری ہے ۔

 
عقابان را بہای کم نہد عشق
تذروان را ببازان سر دہد عشق

مطلب: عشق عقابوں کا مول گھٹا دیتا ہے (عشق کی نظر میں عقاب کوئی شے نہیں ) ۔ عشق چکوروں کو بازوں پر فوقیت دیتا ہے ۔ مراد ہے عشق کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ۔

 
نگہ دارد دل ما خویشتن را
ولیکن از کمینش بر جہد عشق

مطلب: ہمارا دل اپنی بہت حفاظت کرتا ہے ۔ لیکن عشق اسی کی گھات سے (نکل کر) جست لگاتا ہے (حملہ کرتا ہے) ۔ عشق (جذبہ محبت) ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں کارفرما ہے ۔

 
بہ برگ لالہ رنگ آمیزی عشق
بجان ما بلا انگیزی عشق

مطلب: گل لالہ کی پنکھڑیوں میں عشق کی رنگ آمیزی ہے ۔ ہماری جانوں میں عشق کی بلا انگیزی ہے یعنی شور ہے ۔

 
اگر این خاکدان را واشگافی
درونش بنگری خونریزی عشق

مطلب: اگر تو اس زمین کو چیرے تو تجھے اس کے اندر عشق ہی کی خونریزی نظر آئے گی ۔ مراد کائنات میں ہر جگہ عشق ہی کی حکومت ہے ۔

 
نہ ہر کس از محبت مایہ دار است
نہ با ہر کس محبت سازگار است

مطلب: ہر شخص محبت کی دولت نہیں رکھتا نہ محبت ہر کسی کو موافق آتی ہے ۔

 
بروید لالہ با داغ جگر تاب
دل لعل بدخشان بی شرار است

مطلب: گل لالہ جگر چمکانے والا داغ لیے اگتا ہے ۔ مگر لعل بدخشاں کے دل میں کوئی شرارہ نہیں ہے ۔

 
درین گلشن پریشان مثل بویم
نمی دانم چہ میخواہم چہ جویم

مطلب: میں ا س باغ (دنیا) میں خوشبو کی طرح سرگرداں (پریشان) ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں کیا ڈھونڈتا ہوں ۔

 
بر آید آرزو یا بر نیاید
شہید سوز و ساز آرزویم

مطلب: میری آرزو بر آئے یا نہ آئے (پوری ہو یا نہ ہو) ۔ میں تو صرف آرزو کے سوزو سامان کا مارا ہوا ہوں ، ہر شخص گرفتار دام آرزو ہے ۔

 
جہان مشت گل و دل حاصل اوست
ہمین یک قطرہ ی خون مشکل اوست

مطلب : یہ دنیا مٹھی بھر مٹی (خاک) ہے اور دل اس کا حاصل ہے ۔ یہی ایک بوند لہو اس کی مشکل ہے (اسی قطرہَ خون کو سنبھالنا مشکل ہے) ۔

 
نگاہ ما دو بین افتاد ورنہ
جہان ہر کسی اندر دل اوست

مطلب: ہماری نظر ایک کا (دوجہان اور دل) دونوں کو الگ الگ دیکھتی ہے ۔ دیکھنے والی ہو گی ورنہ ہر آدمی کی دنیا اس کے دل میں ہے (دل کے اندر ہے) ۔

 
سحر می گفت بلبل باغبان را
درین گل جز نہال غم نگیرد

مطلب: صبح کے وقت بلبل نے باغبان سے کہا کہ اس مٹی میں غم کے پودے کے سوا اور کچھ نہیں اگتا ۔

 
بہ پیری می رسد خار بیابان
ولی گل چون جوان گردد بمیرد

مطلب: بیابان کا کانٹا بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے ۔ لیکن گلستان کا پھول جوان ہوتے ہی مر جاتا ہے (حسن ایک زوال پذیر شے ہے دنیا میں دلکش اور حسین اشیا کو ثبات و قرار نہیں ہے ۔ )

 
جہان ما کہ نابود است بودش
زیان توام ہمی زاید بسودش

مطلب: ہمارا جہان جس کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ نقصان یہاں کے فائدے کا ہمزاد ہے یہاں فائدے کے ساتھ نقصان بھی بڑھتا ہے

 
کہن را نو کن و طرح دگر ریز
دل ما بر نتابد دیر و زودش

مطلب: اس پرانے کو نیا کر اور دوسری (نئی) بنیاد ڈال ۔ ہمارا دل اس کے اب اور تب کو گوارا نہیں کرتا ۔

 
نوای عشق را ساز است آدم
گشاید راز و خود راز است آدم

مطلب: عشق کے نغمے کے لیے آدمی ساز ہے (عشق کے نغمے انسان ہی کے قلب سے پھوٹتے ہیں ) ۔ آدمی خالق حقیقی کے بھید کھولتا ہے مگر خود راز ہے ۔

 
جہان او آفرید این خوب تر ساخت
مگر با ایزد انبار است آدم

مطلب: اللہ تعالیٰ نے دنیا پیدا کی اور اس (آدمی) نے اسے خوب تر بنایا ۔ شاید آدمی خدا کا ہم کار ہے (گویا یہ خالق کا شریک کار ہے) ۔ نوٹ: حقیقی معنی میں کوئی ہستی خدا کی شریک نہیں ہو سکتی نہ وجود میں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں ۔ یہ محض شاعرانہ انداز بیان ہے جسے اقبال نے اس لیے اختیار کیا ہے کہ اس سے مصرع میں بلا کی دلکشی پیدا ہو گئی ہے ۔

 
نہ من انجام و نی آغاز جویم
ہمہ رازم جہان راز جویم

مطلب: نہ مجھے انجام کی تلاش ہے نہ آغاز کی ۔ میں خود تمام کا تمام راز ہوں اور جہان راز کو ڈھونڈتا ہوں ۔

 
گر از روی حقیقت پردہ گیرند
ہمان بوک و مگر را باز جویم

مطلب: اگر حقیقت کے چہرے سے پردہ ہٹا بھی دیں (تو بھی) میں اسی تمنا کو پھر سے تلاش کروں گا ۔ نوٹ:انسان عقل کی مدد سے کبھی اپنی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو سکتا، عقل اسے ہمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رکھے گی ۔

 
دلا نارائی پروانہ تا کی
نگیری شیوہ ی مردانہ تا کی

مطلب: اے دل! پروانے کی سی نادانی کب تک (کب تک بے عقلی سے بے مقصدیت کی زندگی بسر کرتا رہے گا) ۔ تو کب تک مردوں کا انداز اختیار نہیں کرے گا(کب ہمت سے کام لے گا) ۔

 
یکی خود را بسوز خویشتن سوز
طواف آتش بیگانہ تا کی

مطلب: ایک بار خود کو اپنی آگ میں جلا کے دیکھ دوسرے کے شعلے کا طواف کب تک (غیروں کی آگ کا طواف تو کب تک کرتا رہے گا) ۔

 
تنی پیدا کن از مشت غباری
تنی محکم تر از سنگین حصاری

مطلب: اس مٹھی بھر خاک سے ایک ایسا پیکر (بدن) پیدا کر ۔ جو چٹانی قلعے سے زیادہ مضبوط پیکر ہو ۔

 
درون او دل درد آشنائی
چو جوئی در کنار کوہساری

مطلب: مگر اس کے اندر درد سے آشنا ایک دل ہو جیسے کسی پہاڑ کی آغوش میں ایک ندی ۔ نوٹ: جو شخص اپنی خودی کی تربیت نہیں کرتا وہ انسان ہونے کے باوجود دراصل مشت خاک سے زیادہ قیمت نہیں رکھتا ۔

 
ز آب و گل خدا خوش پیکری ساخت
جہانی از ارم زیباتری ساخت

مطلب: خدا نے مٹی اور پانی سے کیا حسین پیکر تراشا ۔ خوبصورت کائنات تخلیق کی ۔ جنت سے زیادہ خوشنما دنیا بنائی ۔

 
ولی ساقی بہ آن آتش کہ دارد
ز خاک من جہان دیگری ساخت

مطلب: لیکن ساقی نے اپنے پاس کی آگ آتش عشق سے میری خاک سے ایک اور ہی عالم تعمیر کیا (ایک نیا جہان پیدا کر دیا) ۔ نوٹ: اگر ساقی سے سروردوعالمﷺ کی ذات قدسی صفات اور آتش سے قرآن مرا د لی جائے تو رباعی کا مطلب یہ ہو گا ۔ خدا تعالیٰ نے یہ دنیا آب و گل سے بنائی اور بلاشبہ بہت دلکش بنائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے قرآن حکیم کی بدولت بنی آدم کے اندر ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے بالکل نئی دنیا پیدا کر دی ۔

 
بہ یزدان روز محشر برہمن گفت
فروغ زندگی تاب شرر بود

مطلب: قیامت کے دن برہمن نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا ۔ زندگی کا فروغ اجالا چمک (گویا) چنگاری کی چمک تھی مراد آدمی کی زندگی جلد گزرنے والی ہے ۔

 
ولیکن گر نرنجی با تو گویم
صنم از آدمی پایندہ تر بود

مطلب: لیکن اگر ناراض نہ ہو تو تجھ سے کہوں کہ دنیا میں میرا بنایا ہوا بت آدمی سے زیاہ پائندہ تھا ۔

 
گذشتی تیز گام ای اختر صبح
مگر از خواب ما بیزار رفتی

مطلب: اے صبح کے ستارے تو بہت تیزی سے گزر گیا شاید تو ہماری غفلت سے بیزار گیا (تو ہم سے ناراض ہو گیا) ۔

 
من از نا آگہی گم کردہ راہم
تو بیدار آمدی بیدار رفتی

مطلب: میں نے بے خبری کی وجہ سے راستہ اپنا گم کر دیا اپنا مقصد حیات حاصل نہ کر سکا ۔ لیکن تو بیدار آیا تھا اور بیدار چلا گیا ۔

 
تہی از ہای و ہو میخانہ بودی
گل ما از شرر بیگانہ بودی

مطلب: تو یہ میخانہ (دنیا) ہاے و ہو سے خالی ہوتا ۔ ہماری مٹی چنگاری (کی چمک) سے خالی رہتی ۔

 
نبودی عشق و این ہنگامہ ی عشق
اگر دل چون خرد فرزانہ بودی

مطلب: نہ یہاں عشق ہوتا اور نہ عشق کا یہ ہنگامہ ہوتا ۔ اگر دل بھی عقل کی طرح سمجھ بوجھ والا عقل مند ہوتا ۔

 
ترا ای تازہ پرواز آفریدند
سراپا لذت بال آزمائی

مطلب: اے تازہ پرواز پرندے (انسان) تجھے خدا نے (صرف اس لیے) بنایا کہ تو سر سے پاؤں تک اڑان کی لذت لے ۔

 
ہوس ما را گران پرواز دارد
تو از ذوق پریدن پر گشائی

مطلب: ہوس نے ہماری پرواز کوتاہ کر دی ہے ۔ اب تو اڑان کی مستی میں پر کھولتا ہے(کہ تجھ میں اڑنے کا ذوق ہے) ۔

 
چہ لذت یارب اندر ہست و بود است
دل ہر ذرہ در جوش نمود است

مطلب: یارب ہونے اور ہو جانے (وجود ہستی) میں کیا لذت رکھی ہے ۔ ہر ذرے کا دل اپنا آپ ظاہر کرنے کے لیے بیتاب ہے ۔

 
شگافد شاخ را چون غنچہ ی گل
تبسم ریز از ذوق وجود است

مطلب: کلی جب شاخ کو پھاڑتی چیرتی ہے تو وہ وجود میں آنے کی لذت یا ذوق سے مسکرا رہی ہوتی ہے ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر شے میں ذوق وجود پایا جاتا ہے اور یہی ذوق وجود اس میں جوش نمو پیدا کر دیتا ہے اور اسی جوش کی بدولت وہ موجود ہو جاتا ہے اگر وجود میں لذت نہ ہوتی تو کوئی شے موجود نہ ہوتی ۔

 
شنیدم در عدم پروانہ می گفت
دمی از زندگی تاب و تبم بخش

مطلب: میں نے عدم میں پروانے کو یہ کہتے سنا مجھے زندگی بھر میں سے ایک پل کی تپش اور تڑپ بخش دے یعنی میں دنیا میں عاشقانہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں ۔

 
پریشان کن سحر خاکسترم را
و لیکن سوز و ساز یک شبم بخش

مطلب: بے شک سویرے میری راکھ بکھیر دینا لیکن مجھے ایک رات کا سوز و ساز عطا کر دے ۔ نوٹ: سوزوساز اقبال کی محبوب اور کثیر الاستعمال تراکیب میں سے ہے ۔ اقبال کے رائے میں عاشق کی زندگی انہی دو باتوں سوز و ساز سے عبارت ہے ۔ یہ اس قدر قیمتی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں شان خداوندی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

 
مسلمانان مرا حرفی است در دل
کہ روشن تر ز جان جبرئیل است

مطلب: اے مسلمانو! میرے دل میں ایک حرف (رمز) ہے جو جبرئیل کی روح سے زیادہ روشن ہے ۔

 
نہانش دارم از آزر نہادان
کہ این سری ز اسرار خلیل است

مطلب : میں اسے آزر کی سرشت (بت پرستی) رکھنے والوں سے چھپا کر رکھتا ہوں (اس لیے برملا نہیں کہتا) ۔ کیونکہ یہ حرف (لفظ اللہ کی طرف اشارہ ہے) خلیل اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ لا موجود الا اللہ یعنی اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ۔

 
بہ کویش رہ سپاری ای دل ای دل
مرا تنہا گذاری ای دل ای دل

مطلب: اے دل اے دل تو اس کی گلی میں پھرتا رہتا ہے تو نے مجھے اکیلا چھوڑ رکھا ہے ۔ اے دل اے دل ( میں بے راہ و منزل آوارہ و پریشان ہوں ) ۔

 
دمادم آرزوہا آفرینی
مگر کاری نہ داری ای دل ای دل

مطلب: لمحہ بہ لمحہ نئی نئی آرزوئیں پیدا کرتا رہتا ہے ۔ اے دل اے دل تجھے شاید اور کوئی کام نہیں ہے ۔

 
رہی در سینہ ی انجم گشائی
ولی از خویشتن نا آشنائی

مطلب:تو ستاروں کے سینے میں راستہ بنا لیتا ہے ۔ (تیری ستاروں تک رسائی ہے) لیکن اپنے آپ سے بے خبر ہے ۔

 
یکی بر خود گشا چون دانہ چشمی
کہ از زیر زمین نخلی برآئی

مطلب: دانے کی مانند کبھی خود پر بھی آنکھ کھول ۔ تا کہ تو زمین کے نیچے سے پیڑ (بن کے) باہر آئے (نکلے)(تو خود کو بھی پہچان لے اور مقصود زندگی حاصل کر لے ۔ تبصرہ: اے انسان تو دور افتادہ ستاروں کے حالات دریافت کرتا رہتا ہے لیکن اپنی ذات سے نا آشنا ہے ۔ علامہ اقبال یہ خیال ضرب کلیم میں پیش کرتے ہیں
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

 
سحر در شاخسار بوستانی
چہ خوش میگفت مرغ نغمہ خوانی

مطلب: صبح کے وقت کی بہت سی ٹہنیوں والے درخت کی شاخ پر ایک چہچہانے والا پرندہ کیا خوب کہہ رہا تھا ۔

 
برآور ہر چہ اندر سینہ داری
سرودی، نالہ ئی آہی، فغانی

مطلب: تیرے سینے میں جو کچھ ہے باہر نکال وہ راگ ہو، نالہ و فریاد ہو یا آہ و فغاں ہو ۔

 
ترا یک نکتہ ی سر بستہ گویم
اگر درس حیات از من بگیری

مطلب: میں تجھ سے ایک راز کی بات کہتا ہوں ۔ اگر تو زندگی کا سبق مجھ سے لے یا لینا چاہے ۔

 
بمیری گر بہ تن جانی نداری
وگر جانی بہ تن داری نمیری

مطلب: اگر تو بدن میں روح نہیں رکھتا تو تو مر جائے گا اور اگر بدن میں روح رکھتا ہے تو نہیں مرے گا ۔ نوٹ: جان سے اقبال کی مراد وہ جان نہیں ہے جس کے نکلنے سے آدمی مر جاتا ہے بلکہ یہاں جان سے وہ خودی مراد ہے جو پختہ ہو چکی ہے ۔ تبصرہ: اگر خودی مستحکم ہو جائے تو انسان غیر فانی ہو سکتا ہے
ہو اگر خودنگر و خود گرد خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

 
بہل افسانہ ی آن با چراغی
حدیث سوز او آزار گوش است

مطلب: چھوڑ اس پتنگے (پروانہ بے قرار) کی داستان اس کے جلنے کا بیان کانوں کے لیے تکلیف دہ ہے(شمع اور پروانہ کے قصہ کو کون نہیں جانتا) ۔

 
من آن پروانہ را پروانہ دانم
کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است

مطلب: میں تو اس پروانے کو پروانہ سمجھتا ہوں کہ جس کی جان سخت کوش اور شعلہ نوش ہو (شعلے کو کھا جائے) ۔

 
ترا از خویشتن بیگانہ سازد
من آن آبی طربناکی ندارم

مطلب: (جو) تجھے خود سے بیگانہ بنا دے میں وہ سرور پیدا کرنے والی شراب نہیں رکھتا ۔

 
ببازارم مجو دیگر متاعی
چو گل جز سینہ ی چاکی ندارم

مطلب: میرے بازار میں (کوئی) اور سامان مت ڈھونڈ میں پھول کی طرح پھٹے ہوئے سینے کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتا ۔ نوٹ: یہاں خودفراموشی کے بجائے خود شناسی کا پیغام دیا گیا ہے ۔

 
زیان بینی ز سیر بوستانم
اگر جانت شہید جستجو نیست

مطلب: تو میرے باغ کی سیر سے نقصان کی بات دیکھے گا ۔ اگر تیری جان جستجو کی ماری ہوئی نہیں ہے ۔

 
نمایم آنچہ ہست اندر رگ گل
بہار من طلسم رنگ و بو نیست

مطلب: میں دکھاتا ہوں جو کچھ پھول کی رگوں میں چھپا ہے میری بہار خوشبو اور رنگ کا دھوکا نہیں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ میں اپنی شاعری کے ذریعے زندگی کی حقیقت کو واشگاف کرتا ہوں ۔ میرا کلام (بہار) محض لفاظی (طلسم رنگ و بو) نہیں ہے بلکہ حقیقت رس ہے اور اس لیے حقیقت نما ہے ۔

 
برون از ورطہ ی بود و عدم شو
فزون تر زین جہان کیف و کم شو

مطلب: ہونے اور نہ ہونے کے بھنور سے نکل جا ، کیسے اور کتنے کی اس دنیا سے بلند ہو جا ۔

 
خودی تعمیر کن در پیکر خویش
چو ابراہیم معمار حرم شو

مطلب: اپنے بدن میں خودی کی تعمیر کر ۔ ابراہیم کی مانند کعبے کا معمار بن جا ۔

 
ز مرغان چمن نا آشنایم
بشاخ آشیان تنہا سرایم

مطلب: میں چمن کے پرندوں سے نا آشنا ہوں ۔ آشیانے کی شاخ پر اکیلا گاتا ہوں ( میں منفرد شاعر ہوں میری شاعری کی اپنی انفرادیت ہے) ۔

 
اگر نازک دلی از من کران گیر
کہ خونم می تراود از نوایم

مطلب: اگر تو نازک دل کا ہے (تو) مجھ سے کنارہ کر لے(مجھ سے دور رہ) ۔ کہ میری آواز سے میرا خون ٹپکتا ہے (میرے اشعار سے تو میرے خون کی بوندیں ٹپک رہی ہیں اور خون کی یہ بوندیں زبان حال سے قوم کو درس جہاد دے رہی ہیں ۔ )

 
جہان یارب چہ خوش ہنگامہ دارد
ہمہ را مست یک پیمانہ کردی

مطلب: یارب اس دنیا میں کیا خوب ہنگامہ بپا ہے ۔ تو نے سب کو ایک ہی پیالے سے مست کر دیا ۔

 
نگہ را بانگہ آمیز دادی
دل از دل ، جان ز جان بیگانہ کردی

مطلب: نظر تو نظر سے مل جاتی ہے مگر دل کو دل سے جان کو جان سے بے سدھ کر دیا ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ سب اسی ذات مطلق کے جو پاس یعنی سب کا مطمع نظر ایک ہی ہے لیکن اس کے باوجود ہر ایک کا طریق کار یا ہر ایک کی راہ جداگانہ ہے ۔

 
سکندر با خضر خوش نکتہ ئی گفت
شریک سوز و ساز بحر و بر شو

مطلب: سکندر نے خضر سے کیا اچھی بات کہی ہے ۔ بحر و بر کے سوز و ساز میں حصہ دار ہو (شریک ہو جا) ۔

 
تو این جنگ از کنار عرصہ بینی
بیمر اندر نبرد و زندہ تر شو

مطلب: تو یہ جنگ میدان کے کنارے سے دیکھتا ہے ۔ زندگی کی تگ و دو کے معرکے میں مر جا اور زندہ تر ہو جا ۔ یعنی اگر زندگی کی آرزو ہے تو موت سے ہم آغوش ہو جا جیسے ٹیپو سلطان میدان جنگ میں شہادت پا کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا ۔

 
سریر کیقباد، اکلیل جم خاک
کلیسا و بتستان و حرم خاک

مطلب: (ایران کے بادشاہ) کیقباد کا تخت ہو یا جمشید کا تاج سب خاک ہیں ۔ (مادی ہیں مٹ جانے والے ہیں ) گرجا اور مندر اور کعبہ سب مٹی سے بنے ہوئے ہیں ۔

 
ولیکن من ندانم گوہرم چیست
نگاہم برتر از گردون تنم خاک

مطلب: مگر میں نہیں جانتا میری اصل کیا ہے ۔ میری نگاہ آسمان سے اونچی ہے مگر میرا بدن مٹی کا ہے ۔

 
اگر در مشت خاک تو نہادند
دل صد پارہ ی خونابہ باری

مطلب: اگر خدا نے تیرے بدن میں خون کے آنسو برسانے والا سو ٹکڑے ہوا دل رکھا ہے ۔

 
ز ابر نوبہاران گریہ آموز
کہ از اشگ تو روید لالہ زاری

مطلب: تازہ اور نئی بہار کے بادل سے رونا سیکھ تاکہ تیرے آنسووَں سے لالے کا باغ اگے (پیدا ہو) ۔ مراد یہ ہے کہ اے مسلمان اگر اللہ تعالیٰ تجھے محبت کرنےوالا دل عطا فرمائے تو تجھے لازم ہے کہ محبت کرنے والوں سے قوم کے غم میں جلنے اور سلگنے کا فن سیکھ لے تاکہ تو اپنی قوم کی خدمت کر سکے ۔

 
دمادم نقشہای تازہ ریزد
بیک صورت قرار زندگی نیست

مطلب: زندگی ہر پل نئی نئی صورتیں ڈھالتی ہے (ایک نیا نقش پیدا کرتی ہے) ۔ (کسی) ایک صورت پر زندگی کا ٹھہراوَ نہیں (زندگی کو ایک صورت پر قرار نہیں ) ۔

 
اگر امروز تو تصویر دوش است
بخاک تو شرار زندگی نیست

مطلب: اگر تیرا آج کل ہی کی تصویر ہے (اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی) تو تیری مٹی میں زندگی کی چنگاری نہیں ہے ۔

 
چوں ذوق نغمہ ام در جلوت آرد
قیامت افکنم در محفل خویش

مطلب: جب نغمہ سرائی کا ذوق جب مجھے مجلس میں لے آتا ہے تو میں اپنی محفل میں قیامت برپا کر دیتا ہوں (انقلاب برپا کر دیتا ہوں ) ۔

 
چو می خواہم دمی خلوت بگیرم
جہان را گم کنم اندر دل خویش

مطلب: جس گھڑی چاہتا ہوں کہ پل بھر کو تنہائی پکڑوں لیکن جب میں ذرا خلوت اختیار کرتا ہوں تو میں دنیا کو اپنے دل میں گم کر لیتا ہوں ۔ یعنی سمٹے تو دل، پھیلے تو زمانہ ہے ۔

 
چہ می پرسی میان سینہ دل چیست
خرد چون سوز پیدا کرد دل شد

مطلب: تو کیا پوچھتا ہے کہ سینے میں دل کیا ہے ۔ عقل نے جب سوز پیدا کر لیا تو وہ دل بن گیا ۔

 
دل از ذوق تپش دل بود لیکن
چو یک دم از تپش افتاد گل شد

مطلب: دل حرارت کی لذت سے دل تھا لیکن جو دم بھر حرارت سے دور ہوا (سوز سے محروم ہوا) تو مٹی ہو گیا ۔ (مراد ہے دل، ذوق تپش ہی کا دوسرا نام ہے ۔ )

 
خرد گفت او بچشم اندر نگنجد
نگاہ شوق در امید و بیم است

مطلب: عقل کہتی ہے کہ وہ محبوب خدا آنکھ میں نہیں سما سکتا (آنکھ دیکھ نہیں سکتی) عشق کی نظر آس اور دھڑکے میں ہے ۔

 
نمی گردد کہن افسانہ ی طور
کہ در ہر دل تمنای کلیم است

مطلب: طور کا قصہ (کبھی) پرانا نہیں ہوتا (اب بھی دہرایا جاتا ہے) کیونکہ ہر دل میں موسیٰ کی سی آرزو ہے ۔ (اشارہ ہے حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ سے اپنا آپ دکھانے کو کہا تو جواب ملا تھا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ۔

 
کنشت و مسجد و بتخانہ و دیر
جز این مشت گلی پیدا نگردی

مطلب: آتشکدہ اور مسجد اور مند اور گرجا نے تو بس یہ مٹھی بھر گارا پیدا کیا (تو نے اپنی ساری توجہ چونے اور پتھر کی عمارتوں کے بنانے میں صرف کر د ی ان میں خدا کو تلاش کرنا شروع کر دیا)

 
ز حکم غیر نتوان جز بدل رست
تو ای غافل دلی پیدا نکردی

مطلب: دل کے علاوہ کوئی غیر کی غلامی سے نجات نہیں دلا سکتا ۔ او بے خبر تو نے اپنے اندر دل (ہی) پیدا نہیں کیا (جس میں عشق ہو جو تجھے صرف اللہ کا بندہ بنا دے) ۔

 
نہ پیوستم درین بستان سرا دل
ز بند این و آن آزادہ رفتم

مطلب: میں نے اس باغ (دنیا) میں دل نہیں لگایا میں اس کے بندھنوں (دنیاوی علائق و آلائش) سے آزاد رہا ہوں ۔

 
چو باد صبح گردیدم دمی چند
گلان را آب و رنگی دادہ رفتم

مطلب: صبح کی ہوا کی طرح پل دو پل گھوما پھرا ۔ پھولوں کو تروتازگی دے کر چل دیا( مراد ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو دوسروں کے فائدے کے لیے صرف کیا ۔ یہی عشق کا مقصد حیات ہے) ۔

 
بخود باز آورد رند کہن را
می برنا کہ من در جام کردم

مطلب: پرانے مست (شرابی) کو اپنے آپ میں لوٹا لاتی ہے (دوبارہ ہوش میں لے آتی ہے) ۔ وہ نئی جوان شراب جو میں نے پیالے میں بھری ہے

 
من این می چون مغان دور پیشین
ز چشم مست ساقی وام کردم

مطلب: اگلے وقتوں کے شراب سازوں کی طرح میں نے یہ شراب ساقی کی متوالی آنکھوں سے مستعار لی ہے ۔

 
سفالم را می او جام جم کرد
درون قطرہ ام پوشیدہ یم کرد

مطلب:اس کی شراب (محبت) نے میرے مٹی کے پیالے کو جمشید کا پیالہ بنا دیا ۔ میرے قطرے میں دریا چھپا دیا ۔

 
خرد اندر سرم بتخانہ ئی ریخت
خلیل عشق دیرم را حرم کرد

مطلب: عقل نے میرے سر میں بتخانہ کھڑا کیا لیکن عشق کے ابراہیم نے میرے بتخانے کو کعبہ بنا دیا ۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات

 
خرد زنجیری امروز و دوش است
پرستار بتان چشم و گوش است

مطلب: عقل آج اور کل کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے ۔ آنکھ اور کان کے بتوں کو پوجنے والی ہے ۔

 
صنم در آستین پوشیدہ دارد
برہمن زادہ ی زنار پوش است

مطلب: آستین میں بت چھپائے رکھتی ہے ۔ زنار باندھنے والی برہمن زادی معلوم ہوتی ہے (وہ باطن پرست اور حق ناشناس ہے) یعنی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی ۔

 
خرد اندر سر ہر کس نہادند
تنم چون دیگران از خاک و خون است

مطلب: عقل تو ہر شخص کے سر میں رکھی گئی ہے (تھوڑی ہو یا بہت) دوسروں کی طرح میرا بدن (بھی) مٹی اور خون سے بنا ہے ۔

 
ولی این راز کس جز من نداند
ضمیر خاک و خونم بیچگون است

مطلب: لیکن میرے علاوہ کوئی یہ راز نہیں جانتا (کہ) میری مٹی اور خون کا ضمیر بے رنگ اور بے مثل ہے ۔ مراد یہ ہے کہ میرے خون اور مٹی والا جسم ضرور مادی ہے لیکن اس کا ضمیر مادی نہیں ہے ۔ حقیقت کا علم ہر عقل رکھنے والے کو نہیں صرف صاحب عرفان ہی کو ہو سکتا ہے ۔

 
گدای جلوہ رفتی بر سر طور
کہ جان تو ز خود نامحرمی ہست

مطلب: تو دیدار کا منگتا خدا کی تجلی کا طالب بن کر طور پر گیا کیونکہ تو خود اپنے آپ سے انجان ہے ۔ (تیری جان اپنے آپ سے ناشنا ساتھی تجھ کو معلوم نہیں کہ جس تجلی کو تو کوہ طور پر ڈھونڈتا ہے وہ تیرے اندر موجود ہے شرط خود کو پہچاننے کی ہے) ۔

 
قدم در جستجوی آدمی زن
خداہم در تلاش آدمی ہست

مطلب: تو آدمی (مرد کامل) کی تلاش میں قدم بڑھا (نکل پڑ) خدا بھی کسی آدمی کی تلاش میں ہے ۔ (جو خودی اور خود معرفتی کا حامل ہو ۔ پس تو خدا کی تلاش مت کر اپنی تلاش کر اگر تو اپنی معرفت حاصل کر لے گا تو خدا کی معرفت بھی حاصل ہو جائے گی من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔

 
بگو جبریل را از من پیامی
مرا آن پیکر نوری ندادند

مطلب: جبریل کو میرا ایک پیغام دو مجھے وہ نور پیکر نہیں بخشا گیا (مجھے خالق نے تجھ جیسا نورانی جسم عطا نہیں کیا ) ۔

 
ولی تاب و تب ما خاکیان بین
بنوری ذوق مہجوری ندادند

مطلب: لیکن ہم خاکیوں کی تپش اور تڑپ سوز و ساز دیکھ (اللہ نے)فرشتے کو جدائی کی لذت عطا نہیں کی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے دوری کا جو سوز و لطف ہمیں ملا ہے نوری اس سے محروم ہیں ۔

 
ہمای علم تا افتد بدامت
یقین کم کن، گرفتار شکی باش

مطلب: اگر تو چاہتا ہے کہ علم کا ہما تیرے جال میں آ پھنسے تو یقین کم کر ، شک میں گرفتار رہ ۔

 
عمل خواہی یقین را پختہ تر کن
یکی جوی و یکی بین و یکی باش

مطلب: اگر تو عمل چاہتا ہے تو اپنے یقین کو اور پختہ (پکا) کر ۔ ایک ڈھونڈ اور ایک دیکھ اور ایک ہو جا (ایک خدا کا طلب گار بن، کائنات میں ایک خدا کی جلوہ فرمائی دیکھ اور ایک خدا کی وحدت کا رنگ اپنے اندر پیدا کر) ۔

 
خرد بر چہرہ ی تو پردہ ہا بافت
نگاہی تشنہ ی دیدار دارم

مطلب: عقل نے تیرے چہرے پر پردے بن دیئے ہیں اور میں دیدار کی پیاسی ایک نظر رکھتا ہوں (میری نگاہ دیدار کی پیاسی ہے) ۔

 
در افتد ہر زمان اندیشہ با شوق
چہ آشوب افکنی در جان زارم

مطلب: عقل ہر گھڑی شوق سے الجھتی رہتی ہے تو نے میری گری پڑی کمزور جان میں کیسا فتنہ ڈال رکھا ہے (عقل کا خاصہ یہ ہے کہ وہ عشق سے برسر جنگ رہتی ہے ۔

 
دلت می لرزد از اندیشہ ی مرگ
ز بیمش زرد مانند زریری

مطلب: تیرا دل موت کے خوف سے لرزتا رہتا ہے اس کے ڈر سے تو ہلدی کی مانند پیلا پڑ گیا ہے

 
بخود باز آ خودی را پختہ تر گیر
اگر گیری پس از مردن نمیری

مطلب: اپنے آپ میں لوٹ ، آ خودی کو اور پختہ کر (روح کو عشق الہٰی سے پختہ کر لے) ۔ تو اگر (یہ) کر لے تو مرنے کے بعد بھی نہیں مرے گا ۔

 
ز پیوند تن و جانم چہ پرسی
بدام چند و چون در می نیایم

مطلب: تو میرے جسم اور روح کے جوڑ (تعلق) کا کیا پوچھتا ہے میں کتنے اور کیسے کے جال میں نہیں پھنستا ۔

 
دم آشفتہ ام در پیچ و تابم
چو از آغوش نی خیزم نوایم

مطلب: بکھری ہوئی سانس ہوں ۔ الجھتی بل کھاتی بانسری کے آغوش سے نکلتے ہی میں نغمہ دم آواز ہوں ۔

 
مرا فرمود پیکر نکتہ دانی
ہر امروز تو از فردا پیام است

مطلب: ایک دانا بزرگ نے مجھ سے فرمایا تیرا ہر آج تیرے آنے والے کل کا پیغام ہے (زمانہ حال سے فائدہ اٹھا) ۔

 
دل از خوبان بی پروا نگہدار
حریمش جز باو دادن حرام است

مطلب: اپنے دل کو ان بے پردہ محبوبوں (حسینوں ) سے بچائے رکھ ۔ اس (اللہ تعالیٰ) کا گھر اس کے علاوہ (کسی اور کو ) دینا حرام ہے (تیرا دل تیرا کعبہ ہے اس کو خدا کی بجائے کسی اور کو دینا حرام ہے) ۔

 
ز رازی معنی قرآن چہ پرسی
ضمیر ما بہ آیاتش دلیل است

مطلب: تو قرآن کے معنی رازی سے کیا پوچھتا ہے (خود) ہمارا دل اس کی آیتوں پر دلیل ہے ۔

 
خرد آتش فروزد دل بسوزد
ہمین تفسیر نمرود و خلیل است

مطلب: عقل تو آگ بھڑکاتی ہے اور دل جلتا ہے یہی نمرود اور ابراہیم سے متعلق آیات کی تفسیر ہے (نمرود عقل کا نمائندہ اور حضرت ابراہیم عشق کا نمائندہ تھا عقل ہمیشہ خدا کا انکار کرتی ہے اور عشق ہمیشہ خدا کی ہستی کا اقرار کرتا ہے اس لیے دونوں میں جنگ رہتی ہے جب تک دنیا قائم ہے یہ جنگ بھی قائم رہے گی) ۔

 
من از بود و نبود خود خموشم
اگر گویم کہ ہستم خود پرستم

مطلب: میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں چپ ہوں ۔ اگر کہوں کہ ( میں ) ہوں (تو گویا) میں خود پرست ہوں ۔

 
ولیکن این نوای سادہ ی کیست
کسی در سینہ می گوید کہ ہستم

مطلب: لیکن یہ صاف (اور واضح) آواز کیسی ہے کوئی (میرے) سینے میں کہتا ہے کہ میں ہوں ۔ (شعور ذات کا سرچشمہ خود انسان کے اندر موجود ہے اور یہی حقیقت انسانی ہے) ۔

 
زمن با شاعر رنگین بیان گوی
چہ سود از سوز اگر چون لالہ سوزی

مطلب: میری طرف سے رنگا رنگ شعر کہنے والے سے کہنا (اس) جلنے سے کیا فائدہ اگر تو لالے کی طرح جلا ۔ (لالہ اپنی آگ سے نہ خود جلتا ہے اور نہ دوسرے کو جلا سکتا ہے محض دیکھنے میں آگ کی طرح کا سرخ رنگ اور سیاہ داغ رکھنے والا ہوتا ہے ۔

 
نہ خود را می گدازی ز آتش خویش
نہ شام دردمندی بر فروزی

مطلب: نہ تو اپنی آگ سے خود کو پگھلاتا ہے نہ کسی دکھیارے کی شام کو روشن کرتا ہے ۔ (محض خیالی اور تفریحی شاعری پیدا کرنا اور حقیقت زندگی سے بیگانہ رکھنا مناسب نہیں ہے ۔

 
ز خوب و زشت تو نا آشنایم
عیارش کردہ ئی سود و زیان را

مطلب: میں تیرے برے بھلے سے انجان ہوں (متفق نہیں ہوں ) تو نے فائدے اور نقصان کو کسوٹی (معیار) بنا رکھا ہے ۔

 
درین محفل ز من تنہا تری نیست
بچشم دیگری بینم جہان را

مطلب: اس محفل جہان میں مجھ سے زیادہ اکیلا کوئی نہیں ہے ۔ میں دنیا کو اور نظر سے دیکھتا ہوں (وہ نگاہ فطرت اور حقیقت کو دیکھنے والی ہے) ۔

 
تو ای شیخ حرم شاید ندانی
جہان عشق را ہم محشری ہست

مطلب: اے شیخ حرم شاید تو نہیں جانتا کہ عشق کی دنیا کے لیے بھی جزا کا ایک دن (محشر) ہے ۔

 
گناہ و نامہ و میزان ندارد
نہ او را مسلمی نی کافری ہست

مطلب: ان کے محشر میں نہ گناہ و ثواب کا ذکر ہو گا نہ نامہ اعمال کسی کے ہاتھ میں دیا جائے گا اور نہ میزان قائم ہو گی اور نہ وزن اعمال ہو گا ۔ نہ وہاں کوئی مسلمان ہے نہ کافر ( نہ وہاں کافر اور مسلم کا امتیاز ہو گا ) ۔ اقبال یہی بات یوں کہتے ہیں ۔
مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم

 
چو تاب از خود بگیرد قطرہ ی آب
میان صد گہر یک دانہ گردد

مطلب: پانی کا قطرہ جب اپنے آپ سے چمک پکڑتا ہے (جو دوسروں کا محتاج نہیں ہوتا) وہ کئی سو موتیوں کے بیچ بے مثال ہو جاتا ہے ۔

 
بہ بزم ہمنوایان آنچنان زی
کہ گلشن بر تو خلوت خانہ گردد

مطلب: تو بھی اپنے ہم نواؤں کی بزم میں اس طرح سے زندگی کر کہ باغ تیرے لیے گوشہ تنہائی بن جائے مراد ہے انجمن میں رہتا ہوا انجمن سے الگ رہ ۔

 
من ای دانشوران در پیچ و تابم
خرد را فہم این معنی محال است

مطلب: اے عقلمندو میں سخت الجھن اور بیقراری میں ہوں عقل کے لیے یہ حقیقت سمجھنا مشکل ہے

 
چسان در مشت خاکی تن زند دل
کہ دل دشت غزالان خیال است

مطلب: مٹھی بھر مٹی میں دل کیسے ٹھہر جاتا ہے کہ دل تو خیال کے ہرنوں کا جنگل ہے ۔

 
میا را بزم بر ساحل کہ آنجا
نوای زندگانی نرم خیز است

مطلب: کنارے پر بزم آراستہ نہ کر ۔ زندگی کا نغمہ دھیمے دھیمے اٹھان پکڑتا ہے ۔

 
بدریا غلط و با موجش درآویز
حیات جاودان اندر ستیز است

مطلب: دریا میں لوٹ (غوطہ ) لگا اور اس کی موجوں کو للکار ہمیشہ کی زندگی جنگ و پیکار میں ہے ۔ (زندگی کی کشمکش سے گریز مت کرو ورنہ خودی ضعیف ہو جائے گی جس کا نتیجہ موت ہے ۔ )
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

 
سراپا معنی سر بستہ ام من
نگاہ حرف بافان بر نتابم

مطلب: میں سر سے پاؤں تک چھپی ہوئی حقیقت ہوں ۔ حرف بننے والوں کی نگاہ برداشت نہیں کرتا ( جو کچھ میں جانتا ہوں وہ نہیں جانتے) ۔

 
نہ مختارم توان گفتن نہ مجبور
کہ خاک زندہ ام در انقلابم

مطلب: مجھے نہ مختار کہا جا سکتا ہے نہ مجبور ۔ میں ایسی خاک زندہ ہوں جو ہر دم تغیر پذیر ہے ۔ یعنی میری مٹی با ارادہ ہے اور اس میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہوں ۔

 
مگو از مدعای زندگانی
ترا بر شیوہ ہای او نگہ نیست

مطلب: زندگی کے مقصد کے بارے میں زبان مت کھول ۔ اس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں ۔

 
من از ذوق سفر آنگونہ مستم
کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست

مطلب: میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں (منزل کو سنگ راہ سمجھتا ہوں ) ۔ یعنی میں منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں ہو جاتا ہوں ۔

 
اگر کردی نگہ بر پارہ ی سنگ
ز فیض آرزوی تو گہر شد

مطلب: اگر تو پتھر کے ٹکڑے پر نظر کرتا تو وہ تیری آرزو کے فیض سے ہیرا بن جاتا ۔

 
بزر خود را مسنج ای بندہ ی زر
کہ زر از گوشہ ی چشم تو زر شد

مطلب: او دولت کے بندے! خود کو سونے سے مت تول کہ سونا تو تیرے التفات سے زر ہو گیا ہے(اصل سونا اور جوہر خود آدمی ہے) ۔

 
وفا نا آشنا بیگانہ خو بود
نگاہش بیقرار از جستجو بود

مطلب: تو وفا سے انجان، سب سے الگ تھلگ رہنے والا (میرا دل ) تھا اس کی نظر (کسی کی) تلاش میں بے چین تھی ۔

 
چو دید او را پرید از سینہ ی من
ندانستم کہ دست آموز او بود

مطلب: جب (دل نے) اسے (محبوب کو) دیکھا تو میرے سینے سے اڑ کر نکل گیا ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ (دل) اس کا سدھایا ہوا (پرندہ) تھا ۔ مراد عاشق کا دل ہر وقت معشوق کی جستجو کرتا رہتا ہے ۔

 
مپرس از عشق و از نیرنگی عشق
بہر رنگی کہ خواہی سر برآرد

مطلب: عشق اور عشق کی جادوگری کا مت پوچھ تو جس رنگ میں چاہے وہ ظہور میں آ جاتا ہے ۔

 
درون سینہ بیش از نقطہ ئی نیست
چو آید بر زبان پایان ندارد

مطلب: (یہ) سینے کے اندر تو ایک نقطے سے زیادہ نہیں ہے ۔ اور جب زبان پر آ ئے تو اس کی کوئی حد نہیں ۔ عشق کی کیفیات اور واردات بے پایاں (غیر محدود) ہیں اقبال نے پہلے مصرع میں نیرنگی عشق سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

 
مشو ای غنچہ ی نورستہ دلگیر
ازین بستان سرا دیگر چہ خواہی

مطلب: اے تازہ تازہ اگے ہوئے غنچے اداس مت ہو تو اس باغ سے اور کیا چاہتا ہے (قدرت نے تیرا دل بہلانے کے لیے کیا کیا لوازمات رکھے ہیں ) ۔

 
لب جو، بزم گل، مرغ چمن سیر
صبا، شبنم، نوای صبحگاہی

مطلب: نہر کا کنارہ، پھولوں کی بزم، چمن میں اڑتے پھرتے پرندے ۔ صبح کی ہوا، شبنم، صبحدم کی چہکار سب کچھ ہے ۔ زندگی ایک خوبصورت چیز ہے اس سے بیزار ہونے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھاوَ ۔

 
مرا روزی گل افسردہ ئی گفت
نمود ما چو پرواز شرار است

مطلب: ایک دن مجھ سے ایک مرجھایا ہوا پھول بولا کہ ہماری ہستی (تو بس) چنگاری کی اڑان ایسی ہے (بہت تھوڑی ہے) ۔

 
دلم بر محنت نقش آفرین سوخت
کہ نقش کلک او ناپایدار است

مطلب: میرا دل صورت گر (خالق) کی محنت پر جل گیا کیونکہ اس کے قلم سے پیدا کردہ تصویر (کتنی ) ناپائیدار ہے ۔

 
جہان ما کہ پایانی ندارد
چو ماہی در یم ایام غرق است

مطلب: ہماری دنیا کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں (بہت وسیع ہے) مچھلی کی طرح زمانے کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے ۔

 
یکی بر دل نظر واکن کہ بینی
یم ایام در یک جام غرق است

مطلب: کبھی دل پر نظر ڈال تاکہ تو دیکھ لے زمانے کا یہ سمندر ایک پیالے (دل) میں غرق ہے (مراد ہے ساری کائنات دل میں موجود ہے) قلب مومن کائنات سے بھی زیادہ وسیع ہے اس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ۔

 
بمرغان چمن ہمداستانم
زبان غنچہ ہای بی زبانم

مطلب: میں باغ کے پرندوں کی داستان بیان کرتا ہوں ۔ (ہم نواہوں ) میں گونگی کلیوں کی زبان ہوں ۔

 
چو میرم با صبا خاکم بیامیز
کہ جز طوف گلان کاری ندانم

مطلب: جب میں مروں (تو) میری مٹی بہار کی ہوا میں ملا دینا کہ میں پھولوں کا طواف کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں جانتا ۔

 
نماید آنچہ ہست این وادی گل
درون لالہ ی آتش بجان چیست

مطلب: یہ پھولوں بھری وادی (حقیقت میں ) جیسی ہے (کیا ویسی ہی) دکھائی دیتی ہے ۔

 
بچشم ما چمن یک موج رنگ است
کہ می داند بچشم بلبلان چیست

مطلب: ہماری آنکھوں میں باغ (تو بس) رنگ کی ایک لہر ہے کون جانتا ہے (کہ یہ) بلبل کی نظر میں کیا ہےکائنات ہر شخص کے نظریہ اور احساس کے مطابق ہے ہر شخص کا نظریہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے ۔

 
تو خورشیدی و من سیارہ ی تو
سراپا نورم از نظارہ ی تو

مطلب: تو سورج ہے اور میں تیرا (تیرے گرد چکر لگانے والا)سیارہ ہوں ۔ میں تیرے دیدار سے سراپا نور بن گیا ہوں ۔ یعنی آدمی اس وقت تک ناقص ہے جب تک وہ اپنے خالق سے دور ہے اگر یہ دوری ہٹ جائے تو وہ اس کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔

 
ز آغوش تو دورم ناتمامم
تو قرآنی و من سیپارہ ی تو

مطلب: توقرآن ہے اور میں تیرا سپارہ ہوں ۔ تجھ میں اور مجھ میں وہی نسبت ہے جو قرآن اور سیپارہ میں ہے ۔ محدود ہونے کی وجہ سے سیپارہ پر قرآن کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن سیپارہ بھی قرآن ہی کا جزو ہے ۔

 
خیال او درون دیدہ خوشتر
غمش افزودہ جان کاھیدہ خوشتر

مطلب: آنکھوں میں اس (محبوب) کا تصور خوب ہے ۔ اس کا غم بڑھا ہوا (اور اپنی) گھلتی ہوئی جان اچھی لگتی ہے ۔

 
مرا صاحبدلی این نکتہ آموخت
ز منزل جادہ ی پیچیدہ خوشتر

مطلب: ایک دل والے (حقیقت آشنا) نے مجھے یہ بھید سکھایا ۔ الجھا (پیچیدہ) ہوا راستہ منزل پر پہنچ جانے سے بہتر ہے ۔ منزل سے پیچیدہ راستہ زیادہ اچھا ہے ۔ کیونکہ منزل مل جائے تو آرزو ختم ہو جاتی ہے اور آرزو ختم ہو جائے تو دل مر جاتا ہے ۔ اس لیے اہل دل کے نزدیک وصل سے جدائی بہتر ہے ۔

 
دماغم کافر زنار دار است
بتان را بندہ و پروردگار است

مطلب: میرا دماغ جنیو ڈالنے والا (بت پرست) کافر ہے ۔ بت بناتا بھی ہے اور بتوں کا پجاری بھی ہے ۔

 
دلم را بین کہ نالد از غم عشق
ترا با دین و آئینم چہ کار است

مطلب: تو میرے دل کو دیکھ جو عشق کے بخشے ہوئے غم سے روتا ہے تجھے میرے دین و مذہب سے کیا کام ہے ۔ انسان کی قسمت کا فیصلہ دین یا آئین کو دیکھ کر نہیں ہو سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص بظاہر مسلمان ہو لیکن اس کے دماغ میں بت خانہ پوشیدہ ہو ۔ اس میں اور کافر میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اسی نکتہ کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے ۔ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلمان بھی کافر و زندیق
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام کا حقیقی مقام دل ہے نہ کہ دماغ ۔

 
صنوبر بندہ ی آزادہ ی او
فروغ روی گل از بادہ ی او

مطلب: صنوبر اس (ذات) کا آزاد کیا ہوا ایک غلا م ہے (کیونکہ اس پر دوسرے پودوں کی طرح خزاں کے اثرات نہیں ہوتے اسی لیے شاعروں نے صنوبر کو آزاد کہا ہے ۔ )پھول کے چہرے کی چمک دمک اس کی شراب (کی مستی) کی وجہ سے ہے ۔

 
حریمش آفتاب و ماہ و انجم
دل آدم در نگشادہ ی او

مطلب: سورج اور چاند اور ستارے اس کا گھر (سب اس کے مظاہر ہیں ) ۔ آدمی کا دل اس کا ان کھلا دروازہ سربستہ ران ہے ۔

 
ز انجم تا بہ انجم صد جہان بود
خرد ہر جا کہ پر زد آسمان بود

مطلب: ستاروں سے ستاروں تک سینکڑون جہان تھے ۔ جہاں جہاں عقل نے پرواز کی آسمان تھا (کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا) ۔

 
ولیکن چون بخود نگریستم من
کران بیکران در من نہان بود

مطلب: لیکن جب میں نے اپنے آپ میں جھانکا (اپنے اندر دیکھا یا معرفت حاصل کر لی تو معلوم ہوا) کہ ایک بے انت دنیا مجھ میں چھپی ہوئی تھی (دل کی دنیا غیر محدود ہے) ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مادی دنیا محدود ہے لیکن خودی غیر محدود ہے ۔

 
بپای خود مزن زنجیر تقدیر
تہ این گنبد گردان رہی ہست

مطلب: اپنے پیروں میں تقدیر کی زنجیر مت ڈال ۔ اس (گردش کرنے والے) آسمان کے نیچے نکلنے کا ایک راستہ ہے ۔ تقدیر پر شاکر رہنے کی بجائے ہمت اور عمل سے کام لے ۔

 
اگر باور نداری خیز و دریاب
کہ چون پا واکنی جولانگہی ہست

مطلب: اگر تو نہیں مانتا تو اٹھ اور (خود) دیکھ لے (اس راستے کو پا لے) جب تو قدم اٹھائے گا تو (دیکھے گا) کہ میدان موجود ہے ۔ جو شخص جدوجہد کرتا ہے وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے جو لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے جدوجہد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں وہ دراصل تقدیر کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے ۔ بیشک تقدیر الہٰی برحق ہے ۔ لیکن یہ بھی تو اسی کی تقدیر ہے کہ کامیابی کے لیے جدوجہد شرط ہے ۔

 
مپرس از صبح و شامم ز آفتابی
کہ پیش روزگار من پریر است

مطلب: میرا دل آپ اپنے جادو میں گرفتار ہے ۔ حالانکہ کائنات اس کے پرتو کی وجہ سے روشن ہے ۔ میرے صبح و شام کے بارے میں سورج سے مت پوچھ کہ (وہ تو) میرے آج کے سامنے پرسوں کی بات ہے ۔ مراد یہ ہے اگرچہ زمان و مکان کی قید میں ہے لیکن اصل میں وہ ذات مطلق کا مظہر ہے اس لیے زمان و مکان کی قید سے آزاد بے کنار اور دائمی ہے ۔ میرے آفتاب خودی کے مقابلے میں آفتاب فلک کی کیا حقیقت ہے اس کی تخلیق کو تو اس سے کہیں پہلے کی ہے ۔

 
نوا در ساز جان زخمہ ی تو
چسان در جانی و از جان برونی

مطلب: اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں روح کے ساز میں آواز تیری مضراب سے ہے ۔ آپ کس طرح میری جان کے اندر بھی ہیں اور جان سے باہر بھی ۔

 
چراغم، با تو سوزم بی تو میرم
تو ای بیچون من بی من چگونی

مطلب: میں چراغ ہوں تیرے حضور جلتا ہوں ۔ آپ کے بغیر میری روشنی بجھ جاتی ہے ۔ اے میرے بے مثال تو میرے بغیر کیسا ہےمراد ہے کہا گر تو نہ ہوتا تو میں نہ ہوتا اور اگر میں نہ ہوتا تو تیرا ہونا کیسے تحقیق ہو سکتا تھا تیرے وجود نے مجھے موجود کیا اور میری موجودگی نے تیرے وجود کا پتہ بتایا ۔

 
نفس آشفتہ موجی از یم اوست
نی ما نغمہ ی ما از دم اوست

مطلب: (ہماری ) سانس اس (اللہ تعالیٰ) کے سمندر کی ایک بےقرار موج ہے جو ملنے کے لیے بے قرار ہے ۔ ہماری بانسری ہمارا نغمہ اسی کے دم سے ہے ۔ (بانسری جسم ہے اور نغمہ اس کا دم اور یہ دونوں وجود خالق کے سبب سے ہیں ) ۔

 
لب جوی ابد چون سبزہ رستیم
رگ ما ریشہ ی ما از نم اوست

مطلب: ہم ابد کی نہر کے کنارے سبزے کی طرح اگے ہیں ۔ ہماری نشوونما اسی کے نم (پانی) کی وجہ سے ہے ۔ ہمارے وجود میں وہی جاری و ساری ہے ہماری ہستی مظہر ذات حق ہے ۔ ہم کیا ہیں ۔ اس کی صفات کا پرتو ہیں یوں سمجھیں کہ کائنات کے پردہ میں وہی جلوہ گر ہے ۔ اللہ نور السموات والارض اللہ تعالیٰ نے کائنات کی حقیقت اس کے سوا اور کیا بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ بذات خود اس کائنات کا نور ہے ۔

 
ترا درد یکی در سینہ پیچید
جہان رنگ و بو را آفریدی

مطلب: اے خالق کائنات ایک وقت تھا کہ تو خود تو تھا لیکن اور کچھ نہ تھا ۔ اکیلے پن کا دکھ تیرے سینے میں پیچ و تاب کھا رہا تھا ۔

 
دگر از عشق بیباکم چہ رنجی
کہ خود این ھای و ہو را آفریدی

مطلب: میرے منچلے (نڈر) عشق سے پھر کیوں خفا ہوتا ہے کہ تو نے خود یہ ہنگامہ پیدا کیا ہے ۔ اے خداتو نے خود مجھے اپنی محبت میں گرفتار کیا اب اگر میں تیرے فراق میں آہ و فغاں کرتا ہوں تو تو مجھ سے خفا کیوں ہوتا ہے ۔

 
کرا جوئی، چرا در پیچ و تابی
کہ او پیداست تو زیر نقابی

مطلب: تو کسے ڈھونڈتا ہے، کس لیے پیچ و تاب میں ہے کہ وہ (تو) ظاہر ہے (البتہ) تو خودے پردے میں ہے۔

 
تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جز او نیابی

مطلب: (انسان سے کہہ رہے ہیں ) اس کی تلاش کرے گا (تو) اپنے سوا کچھ اور نہ دیکھے گا ۔ اپنی تلاش کرو گے (تو) اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں لاوَ گے (اس کے مطابق خدا کو پانا خود کو پانا اور خود کو پانا خدا کو پانا ہے ۔ وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا ہے) ۔

 
تو ای کودک منش خود را ادب کن
مسلمان زادہ ئی ترک نسب کن

مطلب: اے طفلانہ مزاج اپنا احترام کر (ادب سیکھ) تو مسلمان زادہ ہے(اولاد ) ہے حسب نسب ( کا چکر) چھوڑ (نسب پر فخر کرنا چھوڑ دے) ۔

 
برنگ احمر و خون و رگ و پوست
عرب نازد اگر ترک عرب کن

مطلب: سرخ رنگت اور ذات پات اور رنگ و بوست پر اگر عرب (بھی) گھمنڈ (ناز) کرے تو عرب چھوڑ دے ۔

 
نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم

مطلب: ہم نہ افغان ہیں نہ ترک اور تاتاری ، ہم تو چمن کی آل ہیں اور ایک ہی شاخ سے ہیں ۔

 
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردہ ی یک نو بہاریم

مطلب: رنگ اور بو کی تفریق ہم پر حرام ہے کیونکہ ہم ایک ہی بہار (اسلام) کے پالے ہوئے ہیں ۔ اسلام نے قومیت (وطنیت) کے عقیدے کو مٹا دیا ۔ ہم مسلمان نہ افغانی ہیں ، نہ ترکی ہیں نہ تاتاری ہیں بلکہ ہم سب دین اسلام کے پیرو ہیں ۔

 
نہان در سینہ ی ما عالمی ہست
بخاک ما دلی در دل غمی ہست

مطلب:ایک دنیا جہان ہمارے سینے میں چھپی ہوئی ہے ۔ ہماری مٹی میں ایک دل ہے اور دل کے اندر غم (غم عشق) ہے ۔

 
از آن صہبا کہ جان ما بر افروخت
ہنوز اندر سبوی ما نمی ہست

مطلب: اس عشق نے ہماری روح میں آگ لگا دی اس شراب کی ایک بوند ابھی ہماری صراحی میں موجود ہے ۔

 
دل من ای دل من ای دل من
یم من، کشتی من، ساحل من

مطلب: اے میرے دل ، اے میرے دل ، اے میرے دل ، اے میرے سمندر ۔ اے میری کشتی ، اے میرے ساحل ۔

 
چو شبنم بر سر خاکم چکیدی
و یا چون غنچہ رستی از گل من

مطلب: کیا تو شبنم کی طرح میری خاک پر ٹپکا تھا یا کلی کی طرح میری مٹی سے اگا

 
چہ گویم نکتہ ی زشت و نکو چیست
زبان لرزد کہ معنی پیچد اراست

مطلب: میں کیا کہوں کہ نیکی اور بدی (خیر و شر) کیا ہے ۔ زبان لرزتی ہے کیونکہ (یہ) مضمون سخت مشکل ہے ۔

 
برون از شاخ بینی خار و گل را
درون او نہ گل پیدا نہ خار است

مطلب: تو کانٹے اور پھول کو شاخ سے باہر دیکھتا ہے مگر اس کے اندر نہ پھول ہے نہ کانٹا (باد بہار میں تو نہ خار تھا نہ پھول، انہیں شاخوں نے خود پیدا کیا ہے ۔ مراد ہے نیکی اور بدی اپنے نقطہ نظر اور طرز عمل کا نتیجہ ہے ۔ )

 
کسی کو درد پنہانی ندارد
تنی دارد ولی جانی ندارد

مطلب: وہ شخص جو چھپا ہوا دکھ (پوشیدہ درد عشق) نہیں رکھتا وہ بدن تو رکھتا ہے لیکن روح نہیں رکھتا ۔ ( اس کا بدن تو ہے مگر اس میں جان نہیں ۔ جان جسم کی جان ہے عشق جان کی جان ہے ۔ )

 
اگر جانی ہوس داری طلب کن
تب و تابی کہ پایانی ندارد

مطلب: اگر تو روح کی تمنا رکھتا ہے (تو خدا سے ) مانگ وہ تپش اور تڑپ جس کا کوئی انت نہیں ۔ حیات دوام کی آرزو ہو تو مسلک عشق اختیارکر لو ۔

 
چہ پرسی از کجایم چیستم من
بخود پیچیدہ ام تا زیستم من

مطلب: تو کیا پوچھتا ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کیا ہوں ۔ ان سوالوں کا جواب عقل کی دسترس سے باہر ہے ۔ خود اقبال کہتے ہیں خرد مندوں سے کیا پوچھوں کی میری ابتدا کیا ہے کہ میں ا س فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے ۔

 
درین دریا چو موج بیقرارم
اگر بر خود نہ پیچم نیستم من

مطلب: میں سمندر میں بے چین موج کی طرح ہوں ۔ اگر خود سے نہ لپٹا رہوں تو فنا ہو جاؤں ۔

 
بچندین جلوہ در زیر نقابی
نگاہ شوق ما را بر تنابی

مطلب: اتنی (بھرپور) رونمائی کے باوجود پردے میں ہے ۔ ہماری ارمان بھری نظر کو قبول نہیں کرتا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ تو اسی لیے چھپا ہوا ہے کہ تو ہماری نگاہ شوق کو برداشت نہیں کر سکتا ۔

 
دوی در خون ما چون مستی می
ولی بیگانہ خوئی دیر یابی

مطلب: شراب کی مستی کی طرح ہمارے لہو میں دوڑتا ہے لیکن پھر بھی تو بے نیاز ہے اور دیریاب ۔ اس رباعی کا مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے نحن اقرب الیہ من حبل الورید (ہم انسان کے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

 
دل از منزل تہی کن پا بردہ دار
نگہ را پاک مثل مہر و مہ دار

مطلب: دل کو منزل سے خالی کر، قدم بڑھائے جا(منزل کا خیال دل سے نکال دے کیونکہ منزل کا نتیجہ سکون ہے اور سکون کا ثمرہ موت ہے ۔ ہر وقت سفر کے لیے آمادہ رہ) ۔ نگاہ کو سورج اور چاند کی طرح پاک رکھ (مسلسل عروج کا جذبہ پاکی نگاہ پر موقوف ہے) ۔ پاکی نگاہ عشق پر منحصر ہے

 
متاع عقل و دین با دیگران بخش
غم عشق ار بدست افتد نگہ دار

مطلب: عقل اور دین کا سرمایہ دوسروں کو بخش دے ۔ عشق کا غم ہاتھ آئے تو اسے سنبھال کر رکھ ۔ غم عشق ہی مقصد حیات ہے ۔ عقل و دین کے بجائے غم عشق حاصل کرو ۔

 
بیا ای عشق ای رمز دل ما
بیا ای کشت ما ای حاصل ما

مطلب: آ اے عشق! اے ہمارے دل کے بھید ، کہتے ہیں عشق انسانی دل یا انسان کی حقیقت ہے ۔ عشق کو دل سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔اے ہماری کھیتی اے ہماری فصل آ جا عشق ہی مقصد حیات ہے)
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم

 
کہن گشتند این خاکی نہادان
دگر آدم بنا کن از گل ما

مطلب: مٹی کے پتلے پرانے ہو گئے ۔ ہماری مٹی سے دوسرا آدم بنا ( جو آداب آدمیت اور رموز انسانیت کو جانتا ہو جس کے اندر نور ہو ظلمت نہ ہو) ۔ عشق میں فوق الفطرت طاقتیں پوشیدہ ہیں ۔ اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ انسان کو دوسری یعنی نئی زندگی عطا کر سکتا ہے اور یہ نعمت عظمیٰ انسان کو عشق کے سوا اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔

 
سخن درد و غم آرد درد و غم بہ
مرا این نالہ ہای دمبدم بہ

مطلب: شعر (اگر) درد و غم پیدا کرتا ہے تو درد و غم اچھا ہے میرے لیے یہ ہر وقت کے بین اچھے لگتے ہیں ۔

 
سکندر را ز عیش من خبر نیست
نوای دلکشی از ملک جم بہ

مطلب: سکندر کو میرے عیش سے آگاہی نہیں ہے ۔ دل کو کھینچنے والا ایک نغمہ جمشید کی سلطنت سے بہتر ہے ۔ اس میں حقیقی اور روح کو بالیدہ کرنے والی زندگی بخش شاعری کی اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ عاشقانہ زندگی سلطنت سے افضل ہے ۔

 
نہ من بر مرکب ختلی سوارم
نہ از وابستگان شہریارم

مطلب: نہ میں اختلافی گھوڑے پر سوار ہوں نہ کسی بادشاہ کے درباریوں میں سے ہوں ۔ (عاشق بادشاہوں سے بے نیاز ہوتا ہے) ۔

 
مرا ای ہمنشین دولت ہمین بس
چو کاوم سینہ را لعلی برآرم

مطلب: اے دوست میرے لیے یہی دولت کافی ہے جب سینے کو کریدوں ، یاقوت نکالوں ۔ (میرے لیے یہی دولت کافی ہے کہ جب تنہائی میں فکر سخن کرتا ہوں تو نہایت بلند پایہ اور بیش قیمت اشعار موزوں کر لیتا ہوں ۔ یعنی جب میں فکر میں ڈوبتا ہوں معانی و مضامین کے موتی نکال لیتا ہوں ) ۔

 
کمال زندگی خواہی بیاموز
گشادن چشم و جز بر خود نبستن

مطلب: تو زندگی کی تکمیل چاہتا ہے تو سیکھ آنکھ کھولنا اور اپنے علاوہ (کسی اور) پر نہ جمانا (اپنی خودی اور معرفت کے جوہر پر نگاہ رکھنا) ۔

 
فرو بردن جہان را چون دم آب
طلسم زیر و بالا در شکستن

مطلب: دنیا کو پانی کے گھونٹ کی طرح اتار لینا (پی جانا) اور اس کی پستی اور بلندی کا طلسم توڑنا ۔ جب خودی مستحکم ہو جاتی ہے تو ساری خارجی کائنات اس کے دل میں سما جاتی ہے ۔ وہ کائنات سے بے نیاز ہو کر زمان و مکان پر حکمران ہو جاتا ہے ۔ مرد مومن ساری کائنات کو اپنے دل میں اس طرح جذب کر لیتا ہے جس طرح ہم پانی کا گھونٹ حلق سے نیچے اتار لیتے ہیں ۔