Please wait..

در بیان اینکہ چوں خودی از عشق و محبت محکم میگردد قواے ظاہرہ و مخفیہ نظام عالم را مسخر می سازد
(اس بیان میں کہ جب خودی عشق اور محبت سے مضبوط ہو جاتی ہے تو وہ نظام کائنات کی ظاہری اور خفیہ قوتوں کو اپنے تصرف میں لے کر مطیع کر لیتی ہے)

 
از محبت چون خودی محکم شود
قوتش فرماندہ عالم شود

مطلب: جب عشق و محبت کی بدولت خودی مضبوط پختہ ہو جاتی ہے تو اسکی قوت و طاقت کائنات پر حکمرانی کرنے لگتی ہے ۔

 
پیر گردون کز کواکب نقش بست
غنچہ ہا از شاخسار او شکست

مطلب: آسمان کے بزرگ نے ستاروں سے تصویریں بنائی، دراصل یہ تصویریں (ستارے) نہیں بلکہ خودی کی شاخ سے کلیاں پھوٹ نکلی ہیں ۔

 
پنجہ ی او پنجہ ی حق می شود
ماہ از انگشت او شق می شود

مطلب: اس (خودی) کا ہاتھ، خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے ۔ اس کی انگلی سے چاند ٹکڑے ہو جاتا ہے ۔ اردو میں بھی علامہ نے ایک جگہ کہا ہے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز

 
در خصومات جہاں گردد حکم
تابع فرمان او دارا و جم

مطلب: ایسا شخص دنیا کے معاملات کے فیصلے کرتا ہے؛ دارا و جم جیسے پادشاہ بھی اس کے حکم سے تابع فرمان ہوتے ہیں ۔

 
با تو می گویم حدیث بو علی
در سواد ہند نام او جلی

مطلب: میں تجھ سے بو علی (قلندر پانی پت) کی بات کرتا ہوں جن کا نام ہندوستان کی سرزمین میں بہت روشن ہے ۔

 
آن نوا پیراے گلزار کہن
گفت با ما از گل رعنا سخن

مطلب: قدیم باغ کے اس نغمہ الاپنے والے (قلندر) نے ہمیں شگفتہ و حسین پھول کی بات سنائی ۔

 
خطہ ی این جنت آتش نژاد
از ہواے دامنش مینو سواد

مطلب: بہشت کا یہ خطہ جو کبھی اپنی اصل کے لحاظ سے آگ (کفرستان) تھا ۔ حضرت بو علی کے دامن کی ہوا سے واقعی بہشت کا ٹکڑا بن گیا ۔

 
کوچک ابدالش سوے بازار رفت
از شراب بو علی سرشار رفت

مطلب: (ان کا) ایک چھوٹا سا مرید بازار کی طرف گیا ( اس حالت میں کہ ) وہ حضرت بو علی کی شراب (محبت) سے سرشار تھا (اسے گردوپیش کی کچھ خبر نہ تھی) ۔

 
عامل آن شہر می آمد سوار
ہمرکاب او غلام و چوبدار

مطلب: (اتفاق سے) اس شہر کے حاکم کی سواری ادھر سے گزر رہی تھی جس کے ساتھ اس کے غلام اور چوبدار بھی تھے

 
پیشرو زد بانک ای ناهوشمند
بر جلوداران عامل ره مبند

مطلب: ان میں سے ایک نے آواز دی کہ اے بے سمجھ! حاکم کے ہمراہیوں کا راستہ نہ روک۔

 
رفت آن درویش سرافگندہ پیش
غوطہ زن اندریم افکار خویش

مطلب: وہ درویش اسی طرح سر جھکائے اپنے خیالات کے سمندر میں غوطہ لگائے ہوئے چلتا رہا (اسے پتا بھی نہ چلا کہ کون آ رہا ہے اور اسے کیا کہا گیا ہے) ۔

 
چوبدار از جام استکبار مست
بر سر درویش چوب خوب شکست

مطلب: اس عصا بردار نقیب نے غرور کے نشے میں درویش کے سر پر اپنا عصا پورے زور سے مارا ۔

 
از رہ عامل فقیر آرزدہ رفت
دلگران و ناخوش و افسردہ رفت

مطلب: فقیر، حاکم کے اس رویے سے آرزدہ ہو گیا، اس کا دل بھاری تھا، وہ ناخوش تھا اور افسردہ ہو گیا

 
در حضور بو علی فریاد کرد
اشک از زندان چشم آزاد کرد

مطلب: اس نے بو علی کی خدمت میں فریاد کی ۔ آنکھوں کے قید خانے سے آنسووَں کو بہایا (رو دیا) ۔

 
صورت برقے کہ بر کہسار ریخت
شیخ سیل آتش از گفتار ریخت

مطلب: شیخ ( بو علی) نے اس بجلی کی طرح جو پہاڑوں پر گرتی ہے ، اپنی گفتگو سے آگ کا طوفان رواں کیا ( غصے میں آ گئے) ۔

 
از رگ جان آتش دیگر کشود
با دبیر خویش ارشادے نمود

مطلب: انھوں (شیخ) نے شدت کے ساتھ منہ سے ایک اور آگ برسائی ( جلال آ گیا) اور اپنے منشی کو فرمایا

 
خامہ را بر گیر و فرمانے نویس
از فقیرے سوے سلطانے نویس

مطلب: کہ قلم اٹھا اور فرمان لکھ، یہ فرمان ایک فقیر کی طرف سے سلطان کے نام جائے گا ۔

 
بندہ ام را عاملت بر سر زدہ است
بر متاع جان خود اخگر زدہ است

مطلب: لکھ کہ تیرے حاکم نے میرے ایک خادم کے سر پر لاٹھی ماری ہے ۔ گویا اس نے اپنی متاع کو آگ دکھائی ہے (سروسامان کو آگ کی نذر کر دیا ہے) ۔

 
باز گیر این عامل بد گوہرے
ورنہ بخشم ملک تو با دیگرے

مطلب: (اے بادشاہ) اس بدفطرت حاکم کو واپس بلا لے، ورنہ میں تیرا ملک کسی اور کو بخش دوں گا ۔

 
نامہ ی آن بندہ ی حق دستگاہ
لرزہ ہا انداخت در اندام شاہ

مطلب: اس خدا رسیدہ( حق پرست) بندے کے خط نے بادشاہ کے جسم پر لرزہ طاری کر دیا ۔

 
پیکرش سرمایہ ی آلام گشت
زرد مثل آفتاب شام گشت

مطلب: اس کا جسم رنج و الم کا مجموعہ بن گیا ۔ شام کے (ڈوبتے) سورج کی طرح اس کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔

 
بہر عامل حلقہ ی زنجیر جست
از قلندر عفو این تقصیر جست

مطلب: اس (بادشاہ ) نے حاکم کو قید میں ڈال دیا اور قلندر سے اس قصور کی معافی طلب کی ۔

 
خسرو شیرین زبان رنگیں بیان
نغمہ ہایش از ضمیر کن فکان

مطلب: شیریں زباں اور رنگیں بیاں شاعر خسرو کو جس کے نغمے کن فکاں کے اسرار کے آئینہ دار ہیں ۔

 
فطرتش روشن مثال ماہتاب
گشت از بہر سفارت انتخاب

مطلب: جس کا باطن چاندنی کی طرح روشن اور نورانی ہے، سفارت کے لیے چنا گیا ہے ۔

 
چنگ را پیش قلندر چون نواخت
از نوائے شیشہ ی جانش گداخت

مطلب: جب اس (خسرو) نے قلندر کے سامنے ستار پر نغمہ چھیڑا تو اس نغمے سے (قلندر ) کی جان کا شیشہ پگھل گیا ۔

 
شوکتے کو پختہ چون کہسار بود
قیمت یک نغمہ ی گفتار بود

مطلب: شان وشوکت جو پہاڑوں کی طرح مضبوط تھی اس کی قیمت، گفتار کا ایک نغمہ ٹھہری(یعنی اس میں نرمی پیدا ہو گئی) ۔

 
نیشتر بر قلب درویشان مزن
خویش را در آتش سوزان مزن

مطلب: (دیکھو) درویشوں کے دل پر نشتر نہ لگائیے، اپنے آپ کو راکھ کر دینے والی آگ میں نہ پھینکیے ۔