در تعمیر فن آزاد مرداں ۔ پہلا بند
یک زماں با رفتگان صحبت گزیں صنعت آزاد مرداں ہم بہ بیں
مطلب: ایک لمحہ عہدِ ماضی کے لوگوں کے درمیان گزار کر اپنے اسلاف کی زندگی اور کارناموں پر غور کر اور ان آزاد مردوں کی کاریگری کو دیکھ ۔
خیز و کار ایبک و سوری نگر وا نما چشمے اگر داری جگر
مطلب: اٹھ اور قطب الدین ایبک اور شیر شاہ سوری (شاہانِ ہند) کے کارناموں پر نظر کر، اگر تو حوصلہ رکھتا ہے ۔
خویش را از خود بروں آوردہ اند ایں چنیں خود را تماشا کردہ اند
مطلب: انھوں نے ان عمارات کی تعمیر میں خود کو اجاگر کیا ہے ۔ اس طرح انھوں نے اپنا آپ تماشا کیا ۔
سنگہا با سنگہا پیوستہ اند روزگارے را بآنے بستہ اند
مطلب: انھوں نے پتھروں کو پتھروں کے ساتھ پیوست کیا ہے ۔ انھوں نے زمانے کو ایک آن میں بند کر دیا ہے ۔ یعنی ایسی عمارتیں تعمیر کی ہیں کہ ان پر زمانے کے گزرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
دیدن او پختہ تر سازد ترا در جہان دیگر اندازد ترا
مطلب: ان عمارتوں کو دیکھنا تجھے زیادہ پائیدار بناتا ہے اور تمہیں ایک اور ہی جہان میں لا پھینکتا ہے ۔
نقش سوے نقشگر می آورد از ضمیر او خبر می آورد
مطلب: نقش تجھ کو نقش گر کی طرف لے جاتا ہے اوراس نقش گر کے ضمیر کی خبر دیتا ہے ۔
ہمت مردانہ و طبع بلند در دل سنگ ایں دو لعل ارجمند
مطلب: مردانہ ہمت اور بلند سرشت یا فطرت پتھر کے دل کے یہ دو مبارک ہیرے ہیں ۔
سجدہ گاہ کیست ایں از من مپرس بے خبر روداد جاں از تن مپرس
مطلب: یہ یعنی آدمی کی روح کس کی سجدہ گاہ ہے مجھ سے مت پوچھ (اس کو تو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا ۔ آدمی تو مسجود ملاءک ہے) اے بے خبر جان کی کہانی بدن سے نہ پوچھ ۔
وائے من از خویشتن اندر حجاب از فرات زندگی ناخوردہ آب
مطلب: مجھ پر افسوس ہے کہ میں خود اپنے آپ سے پردہ میں ہوں ۔ اپنی صلاحیتوں سے بے خبر ہوں ۔ مجھے اپنی معرفت نہیں ۔ میں اپنی خودی سے نا آشنا ہوں ۔ میں نے تو اپنی زندگی کے دریائے فرات سے پانی ہی نہیں پیا ۔ یعنی مجھے حقیقت حیات کا کچھ علم نہیں ۔
واے من از بیخ و بن بر کندہ ئی از مقام خویش دور افگندہ ئی
مطلب: افسوس ہے مجھ پر جس نے خود کو بنیاد اور جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہوا ہے ۔ جو اپنے مقام سے دور گر پڑا ہے ۔ جس کو اپنی اصلیت کا کچھ علم نہیں ۔
محکمی ہا از یقین محکم است واے من شاخ یقینم بے نم است
مطلب: مضبوطیاں تو مضبوط یقین سے پیدا ہوتی ہے ۔ مجھے اپنے آپ پر افسوس ہے کہ میرے یقین کی شاخ بے نم ہے ۔
در من آں نیروے الا اللہ نیست سجدہ ام شایان ایں درگاہ نیست
مطلب: میرے اندر وہ طاقت اور بہادری نہیں جو میرے اسلاف میں کلمہ طیبہ کی وجہ سے تھی جو یقین رکھتے تھے اس بات کا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں نے تو اللہ کے سوا زر، زمین، زن اور اس سے متعلقہ کئی بت بنا رکھے ہیں جن کو شب و روز سجدہ کرتا ہوں ۔ اس لیے میرا سجدہ اس درگاہ یعنی بار گاہ خدا کی شان کے قابل نہیں ہے ۔
دوسرا بند
یک نظر آں گوہر نابے نگر تاج را در زیرِ مہتابے نگر
مطلب: ایک نظر اس خالص موتی کو دیکھ، تاج محل کو چاند کی چاندنی میں دیکھ ۔ (اسے شہنشاہ ہند شہجہان نے بنوایا ہے) ۔
مرمرش ز آب رواں گردندہ تر یک دم آنجا از ابد پائندہ تر
مطلب: اس کے سفید پتھر بہتے ہوئے پانی سے زیادہ رواں ہیں یعنی شفاف ہیں ۔ وہاں کا ایک دم ابد سے بھی زیادہ پائندہ ہے ۔ یعنی اس کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک وقت میں بنائی جانے والی عمارت کو کس طرح ہمہ وقت کے لیے مضبوط اور پائندہ بنایا جا سکتا ہے ۔
عشقِ مرداں سرِ خود را گفتہ است سنگ را با نوکِ مژگاں سفتہ است
مطلب: مردوں کے عشق نے اپنے رازوں کو خود فاش کیا ہے اور پتھروں کو اپنی پلکوں کی نوک سے پرویا ہے یعنی انہیں جب عشق کی طاقت کا علم ہوا تو انھوں نے اس عشق کی بدولت فن تعمیر کے زندہ و پائندہ شاہکار پیدا کئے ۔
عشق مرداں پاک و رنگیں چوں بہشت می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت
مطلب: مردوں کا عشق بہشت کی طرح پاک اور رنگین ہے ۔ وہ پتھروں اور اینٹوں سے نغمے پیدا کرتا ہے ۔ (ان کی عمارتوں میں ان کے عشق کی داستان چھپی ہوئی ہے ۔ کیونکہ خون جگر دیے بغیر تاج محل یا مسجد قرطبہ یا الحمرا کی عمارتیں تعمیر نہیں کی جاسکتیں ۔ یہ عمارتیں بہ زبان جو اپنے تعمیر کنندوں کے عشق کی اور ان کے خون جگر کی داستانیں بیان کر رہی ہیں ۔
عشقِ مرداں نقدِ خوباں را عیار حُسن را ھم پردہ در ھم پردہ دار
مطلب: مردوں کا عشق حسینوں کی نقدی کی کسوٹی ہے ۔ وہ حسن کا پردہ پھاڑنے والا اور حسن کا پردہ رکھنے والا ہے ۔
ہمتِ او آنسوے گردوں گذشت از جہانِ چند و چوں بیروں گذشت
مطلب: ایسے عشق کی ہمت آسمانوں سے اس طرف گزر گئی ۔ وہ اسباب کے جہان سے باہر نکل گئی، مردوں کا عشق اتنا باہمت ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کو عبور کر کے محیر العقول کارنامے دکھاتا ہے اور یہ کارنامے زمانے کے ہاتھوں سے مٹ نہیں سکتے ۔
زانکہ در گفتن نیاید آنچہ دید از ضمیر خود نقابے برکشید
مطلب: جو کچھ عشق نے دیکھا ہے چونکہ وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا اس لیے عشق نے اپنے ضمیر سے خود نقاب اٹھا دی یعنی اس نے ایسا عمل کیا جس سے پتہ چل گیا کہ ا س کی صلاحیت اور قوت کیا ہے ۔
تیسرا بند
از محبت جذبہ ہا گردد بلند ارج می گیرد ازو ناارجمند
مطلب: محبت سے جذبے بلند ہوتے ہیں ۔ بے قیمت چیزیں اس سے قیمت اور بے قدر و منزلت اشیاء اس سے قدرومنزلت والی بنتی ہیں ۔
بے محبت زندگی ماتم ہمہ کاروبارش زشت و نامحکم ہمہ
مطلب: محبت کے بغیر زندگی ساری ماتم ہے ۔ اس کا کاروبار بدنما اور ناپائیدار ہے ۔
عشق صیقل می زند فرہنگ را جوہر آئینہ بخشد سنگ را
مطلب: عشق آدمی کے ارادے اور عقل کو سان پر لگاتا ہے یعنی ان میں آب و تاب پیدا کرتا ہے ۔ عشق پتھر کو آئینہ میں تبدیل کر دیتا ہے ۔
اہلِ دل را سینہَ سینا دہد با ہنرمنداں یدِ بیضا دہد
مطلب: عشق اہل دل کو وادی سینا کا سا سینہ عطا کرتا ہے یعنی ایسا سینہ عطا کرتا ہے جس میں تجلیات خدا کا ظہور ہوتا ہے ۔ عشق ہنرمندوں کو ید بیضا بخشتا ہے ۔ عشق کی وجہ سے اہل ہنر ایسے کارنامے دکھاتے ہیں جو معجزاتی جوہر رکھتے ہیں ۔
پیشِ او ہر ممکن و موجود مات جملہ عالم تلخ و او شاخ نبات
مطلب: عشق کے سامنے ہر ممکن اور ہر موجود یعنی کائنات اور اس کی ہر شے مات ہے ۔ سارا جہان اگر تلخ ہے تو عشق مصری کی ڈلی ہے یعنی اگر عشق نہ ہوتا تو ساری کائنات بے مزہ ہوتی ، جہان میں جتنی بھی دلکشی، دلفریبی اور دل لگی ہے یہ ساری عشق ہی کی وجہ سے ہے ۔
گرمی افکار ما از نارِ اوست آفریدن جاں دمیدن کارِ اوست
مطلب: ہمارے افکار میں گرمی اس کی آگ کی وجہ سے ہے ۔ پیدا کرنا یا جان کو ظاہر کرنا اس کا کام ہے ۔ (پیدا کر کے جان میں تخلیقی قوت پیدا کرنا یہ عشق ہی کا کام ہے) ۔
عشق مور و مرغ و آدم را بس است عشق تنہا ہر دو عالم را بس است
مطلب: عشق ہر مخلوق کے لیے کافی ہے ۔ چیونٹی ، پرندہ ، آدم کوئی ہو عشق اسکے وجود کے لیے ضروری ہے ۔ عشق اکیلا ہر دو جہان کے لیے کافی ہے ۔ یعنی دونوں جہانوں کے مقاصد صرف عشق کی بدولت بروئے کار آتے ہیں ۔ عشق نہ ہو تو ہر شے تصوراتی ہو کر رہ جائے ۔
دلبری بے قاہری جادوگری است دلبری با قاہری پیغمبری است
مطلب: دلبری قاہری کے بغیر جادوگری ہے ۔ دلبری، قاہری کے ساتھ پیغمبری ہے ۔ یعنی صرف حسن ہو لیکن اس میں اپنی حفاظت کے لیے قوت نہ ہو تو وہ حسن دلفریبی کے لیے تو کافی ہو سکتا ہے لیکن صحیح معنوں میں حسن نہیں ہو سکتا ۔
ہر دو را در کارہا آمیخت عشق عالمے در عالمے انگیخت عشق
مطلب: عشق نے دونوں کو یعنی دلبری اور قاہری کو کاموں میں ملا رکھا ہے ۔ عشق نے ایک عالم کے اندر ایک اور عالم برپا کر رکھا ہے ۔ یعنی جمال میں جلال اور جلال میں جمال کی کیفیات پیدا کر رکھی ہیں ۔ ان دونوں کے امتزاج سے ہی صحیح دنیا وجود میں رہ سکتی ہے ۔ ان دونوں کے ہونے سے ہی نئے نئے جہانوں کی چاہے وہ علوم و فنون کے جہان کیوں نہ ہوں صحیح تعمیر ہو سکتی ہے ۔