Please wait..

شبنم

 
گفتند فرود آے ز اوج مہ و پرویز
بر خود زن و با بحر پرآشوب بیامیز
باموج در آویز نقش دگر انگیز، تابندہ گہر خیز

مطلب: انھوں (کارکنان قضا و قدر) نے کہا ماہ و پروین کی بلندی سے اتر آ ۔ مشکلات کو پار کر (اپنی خودی کو مستحکم کر) اور ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مل جا موجود سے الجھ ایک اور نقش ابھار (نئی صورت اختیار کر) چمکتا ہوا موتی بن کے نکل ۔

 
من عیش ہم آغوشی دریا نخریدم
آن بادہ کہ از خویش رباید نچشیدم
از خود نرمیدم، ز آفاق بریدم، بر لالہ چکیدم

مطلب: میں نے دریا سے ہم آغوشی کا لطف قبول نہ کیا اور شراب جو اپنی سدھ بدھ بھلا دے نہیں چکھی (جو مجھے اپنی خودی سے غافل نہ کر دے) ۔ میں اپنے آپ سے دور نہیں ہوئی آفاق سے کٹ گئی اور گل لالہ پر ٹپک پڑی ۔

 
گل گفت کہ ہنگامہ ی مرغان سحر چیست
این انجمن آراستہ بالای شجر چیست
این زیر و زبر چیست، پایان نظر چیست، خار گل تر چیست

مطلب: پھول کہنے لگا کہ صبح کے پرندوں کا یہ ہنگامہ (شور) کیا ہے درختوں کے اوپر سجی ہوئی یہ انجمن کیسی ہے ۔ یہ اونچ نیچ کیا ہے نظر کی انتہا کیا ہے شاداب پھول کے پہلو میں یہ کانٹا کیا ہے ۔

 
تو کیستی و من کیم این صحبت ما چیست
بر شاخ من این طایرک نغمہ سرا چیست
مقصود نوا چیست، مطلوب صبا چیست، این کہنہ سرا چیست

مطلب: تو کون ہے اور میں کون ہوں یہ ہمارا مل بیٹھنا کیا ہےمیری ٹہنی پر یہ چہچہاتا ہوا پرندہ کیا ہے اس کی صدا کا مقصود کیا ہے ۔ صبا کا مطلوب کیا ہے ۔ یہ پرانی سرا یعنی دنیا کیا ہے ۔

 
گفتم کہ چمن رزم حیات ہمہ جائی است
بزمی است کہ شیرازہ ی او ذوق جدائی است
دم گرم نوائی است، جان چہرہ گشائی است، این راز خدائی است

مطلب: میں (شبنم) نے کہا یہ چمن ہر جگہ موجود حیات کی کشمکش کا میدان ہے ۔ یہ ایسی محفل ہے جسے ٹوٹنے کی لذت نے جوڑ رکھا ہے ۔ دم (زندگی) کیا ہے آہ و فریاد کا نام ہے ۔ جان کیا ہے منہ دکھائی (خالق کائنات کی جلوہ گری یا ظہور کا نام ہے) ۔ یہ خدائی بھید ہے (اللہ تعالیٰ نے خود کہا کہ روح میرا امر ہے جسے میں نے جسم آدم میں پھونکا ہے) اقبال نے اس کو بجا طور پر راز خدائی سے تعبیر کیا ہے ۔

 
من از فلک افتادہ تو از خاک دمیدی
از ذوق نمود است دمیدی کہ چکیدی
در شاخ تپیدی، صد پردہ دریدی، بر خویش رسیدی

مطلب: میں آسمان سے گری تو مٹی سے پھوٹا اگنا ہو کہ ٹپکنا دکھلاوے کی دھن ہی سے ہے ۔ تو شاخ میں تڑپا تو نے سو پردے چاک کئے اور خود تک پہنچ گیا ۔

 
نم در رگ ایام ز اشگ سحر ماست
این زیر و زبر چیست فریب نظر ماست
انجم بہ بر ماست، لخت جگر ماست، نور بصر ماست

مطلب: ہمارے صبحدم کے آنسووَں سے زمانے کی رگوں میں طراوت ہے یہ اونچ نیچ کیا ہے ہماری نظر کا دھوکا ہے ستارہ بھی ہم میں سے ہے اور ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں ۔ ہماری آنکھوں کی روشنی ہے ۔

 
در پیرہن شاہد گل سوزن خار است
خار است ولیکن زندیمان نگار است
از عشق نزار است، در پہلوی یار است، این ہم ز بہار است

مطلب: محبوب گل کے لباس میں کانٹے کی سوئی ہے کانٹا ہے مگر محبوب کے مصاحبوں میں سے ہے عشق سے نزار ہے ۔ یار کے پہلو میں ہے یہ بھی بہار ہی سے ہے ۔

 
برخیز و دل از صحبت دیرینہ بہ پرداز
با لالہ ی خورشید جہان تاب نظر باز
با اہل نظر ساز، چون من بفلک تاز، داری سر پرواز

مطلب: اٹھ اور دل کو پرانی صحبت سے خالی کر لے دنیا کو چمکانے والے لالہ خورشید سے آنکھیں لڑا نظر والوں کا ساتھ پکڑ میری طرح آسمان پر اڑ جا ہاں تو پھر سے اڑان کا خیال ۔ (اب تو اپنے دل سے پوچھ کہ مجھے بتا کہ تیرے اندر پرواز (روحانی ترقی) کی آرزو پیدا ہوئی یا نہیں ۔ اگر نہیں تو یہ تیری بد بختی ہے ۔