Please wait..

اندر ز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابای صحرائی کہ برای مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است
(باباے صحرائی کے لقب سے مشہور میر نجات نقشبندی کی نصیحت جو انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تحریر فرمائی ہے)

 
ای کہ مثل گل ز گل بالیدہ ئی
تو ہم از بطن خودی زائیدہ ئی

میر نجات بقشبند بظاہر ایک فرضی شخصیت ہے جس کے پردے میں اقبال نے اپنے افکار مسلمانوں کے سامنے پیش کئے ۔ قیاس ہے کہ اس سے خود علامہ کی اپنی ذات مراد ہے
مطلب: اے (مسلمان) تو جو پھول کی صورت خاک سے پھوٹا ہے (تو نے نشوونما پائی ہے) تو بھی خودی ہی کے بطن سے پیدا ہوا ہے ۔

 
از خودی مگذر بقا انجام باش
قطرہ ئی می باش و بحر آشام باش

مطلب: تو خودی کو نہ چھوڑ (خودی پر قائم رہ) اور اس طرح خود کو ایسا بنا لے جس کا انجام بقا پر ہو (دوام حاصل کر لے) تو ایک قطرہ بن جا اور سمندر پی جانے والا بن جا ۔

 
تو کہ از نور خودی تابندہ ئی
گر خودی محکم کنی پایندہ ئی

مطلب: تیری چمک خودی کے نور سے ہے اگر تو اپنی خودی کو مضبوط مستحکم کر لے تو تجھے دوام حاصل ہو جائے(تو خود بھی استوار و پائندہ رہے گا) ۔

 
سود در جیب ہمین سوداستی
خواجگی از حفظ این کالاستی

مطلب: اسی سودے کی جیب میں منافع ہے ۔ امیری اسی سامان تجارت کی حفاظت کی وجہ سے ہے ۔

 
ہستی و از نیستی ترسیدہ ئی
ای سرت گردم غلط فہمیدہ ئی

مطلب: تو تو زندہ ہے (تیرا وجود ہے) اور عدم و نبود (نیست) ہونے سے تو ڈر رہا ہے ۔ میں تیرے صدقے جاؤں ، تو نے غلط سمجھا ہے ۔

 
چون خبر دارم ز ساز زندگی
با تو گویم چیست راز زندگی

مطلب: چونکہ میں زندگی کے ساز سے آگاہ ہوں اس لیے تجھے بتاتا ہوں کہ زندگی کا راز کیا ہے ۔

 
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن

مطلب: زندگی کا بھید یہ ہے کہ پہلے موتی کی طرح اپنی ذات (خودی) میں غوطہ لگانا، اس کے بعد اپنی خلوت گاہ میں سے سر باہر نکالنا ۔

 
زیر خاکستر شرار اندوختن
شعلہ گردیدین نظرہا سوختن

مطلب: راکھ کے نیچے چنگاریاں جمع کرنا، پھر یکایک شعلے کی صورت اختیار کر لینا، دیکھنے والوں کی نظریں جلا ڈالنا (زندگی کا راز ہے) ۔

 
خانہ سوز محنت چل سالہ شو
طوف خود کن شعلہ ی جوالہ شو

مطلب: چالیس سالہ محنت و مشقت کا گھر پھونکنے والا بن جا، اپنے گرد چکر لگا (خودی میں محو ہو جا) اچھلنے اور بھڑکنے والا شعلہ بن جا ۔

 
زندگی از طوف دیگر رستن است
خویش را بیت الحرم دانستن است

مطلب: زندگی نام ہے دوسروں کے گرد چکر لگانے سے نجات پانے کا، اپنی ذات ہی کو بیت الحرم جاننے کا (تاکہ دوسرے تیرے اردگرد چکر لگائیں ) ۔

 
پر زن و از جذب خاک آزاد باش
ہمچو طایر ایمن از افتاد باش

مطلب: تو پَر کھول (اڑ) اور زمین کی کوشش سے آزاد ہو جا، پرندے کی طرح گرنے سے محفوظ ہو جا ۔

 
تو اگر طایر نہ ئی ای ہوشمند
بر سر غار آشیان خود مبند

مطلب: عقل مند! اگر تو پرندہ ہے اور اڑ نہیں سکتا تو پھر غار کے منہ پر اپنا گھونسلہ نہ بنا (کیونکہ اگر اڑ نہ سکے گا تو غار میں گر جائے گا) ۔

 
ای کہ باشی در پی کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم

مطلب: تو علم حاصل کر رہا ہے میں تجھے مرشد روم یعنی مولانا روم کا پیغام سناتا ہوں (وہ فرماتے ہیں کہ) ۔

 
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

مطلب: اگر تو علم سے تن پروری کا کام لے گا تو یہ تیرے لیے ایک سانپ کی مانند ہو گا ( جو تجھے ڈسے گا) ۔ اور اگر تو علم کو دل کی اصلاح کے کام میں لائے گا تو یہ تیرے لیے ایک سچا اور اچھا رفیق ہو گا(یہ شعر مولانا روم کا ہے) ۔

 
آگہی از قصہ ی آخوند روم
آنکہ داد اندر حلب درس علوم

مطلب: کیا تو روم کے ملا یعنی مولانا جلال الدین رومی کے قصے سے تو واقف ہے وہ جو حلب کے شہر میں مختلف علوم کا درس دیا کرتے تھے ۔

 
پای در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانی ظلمات عقل

مطلب: ان کے پاؤں عقل کے استدلال کی بیڑیوں میں بندھے ہوئے تھے اور ان کی کشتی فلسفہ کی تاریکیوں کے طوفان میں تھپیڑے کھاتی رہتی تھی ۔

 
موسی بیگانہ ی سینای عشق
بیخبر از عشق و از سودای عشق

مطلب: وہ ایک ایسے موسیٰ تھے جو عشق کے کوہ طور سے آشنانہ تھے، جو عشق سے اس کے جنون سے بالکل ناواقف تھے ۔

 
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت

مطلب: ان کا وعظ و درس تشکک اور اشراق ایسے نظریات سے متعلق ہوتا اور وہ حکمت و فلسفہ یا حکم کے بارے میں سینکڑوں دانائی کے موتی پروتے ۔

 
عقدہ ہای قول مشائین گشود
نور فکرش ہر خفی را وانمود

مطلب: مولانا نے مشائین کے افکار و نظریات کی گھتیاں سلجھائیں (سلجھاتے رہتے) ۔ ان کے فکر کے نور نے ہر پوشیدہ معنی کو ظاہر کر دیا ۔

 
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب

مطلب: ان کے گرد اور سامنے کتابوں کے ڈھیر (انبار) لگے رہتے اور ان کے ہونٹوں (زبان) پر کتابوں کے معانی کی تشریح ہوتی (وہ کتابوں ہی کے اسرار بیان کرتے رہتے) ۔

 
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب ملا جلال

مطلب: مرشد تبریزی یعنی شمس تبریزی نے اپنے مرشد کمال کے ایما پر ملا جلال یعنی مولانا روم کے مدرسے کا پتہ چلا لیا (جہاں وہ درس دیتے تھے) وہ درس گاہ پہنچ گئے ۔

 
گفت این غوغا و قیل و قال چیست
این قیاس و وہم و استدلال چیست

مطلب: شمس نے مولانا سے کہاکہ یہ سب شورو غوغا اور بحث مباحثہ کیا ہے، یہ منطفبانہ اصلاحات قیاس، وہم اور استدلال جن کے حوالے سے یہ بحثیں ہو رہی ہیں ، سب کیا ہیں

 
مولوی فرمود نادان لب بہ بند
بر مقالات خردمندان مخند

مطلب: مولانا روم نے جواب میں فرمایا او ناواقف منہ بند رکھ (خاموش رہ) تو عقلمندوں کی باتوں کا مذاق مت اڑا ۔

 
پای خویش از مکتبم بیرون گداز
قیل و قال است این ترا با وی چہ کار

مطلب: تو میرے مدرسے سے نکل جا، یہ بحث مباحثہ (قیل و قال) ہے، تجھے اس سے کیا مطلب

 
قال ما از فہم تو بالاتر است
شیشہ ی ادراک را روشنگر است

مطلب: ہماری بحث و گفتگو تیری سمجھ سے بالکل باہر ہے، یہ قیل و قال ادراک کے شیشے کو چمکانے والی ہے ۔

 
سوز شمس از گفتہ ی ملا فزود
آتشی از جان تبریزی گشود

مطلب: شمس نے جو یہ جواب سنا تو ان کی گرمی (غصہ) بڑھ گئی، ان کی جان میں دبی ہوئی آگ باہر شعلہ زن ہو گئی ۔

 
بر زمین برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد

مطلب: زمین پران کی نگاہ کی بجلی گری، ان کی پھونک سے مٹی آگ کی صورت اختیار کر گئی ۔

 
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آن فلسفی را پاک سوخت

مطلب: دل کی آگ نے ادراک کا کھلیان جلا ڈالا، اس آگ نے اس فلسفی (مولانا روم) کی کتابوں کا پلندہ جلا کر راکھ کر ڈالا ۔

 
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہای ساز عشق

مطلب: مولانا روم عشق کی کرامات سے بے خبر اور ناواقف تھے وہ عشق کے ساز کے نغموں سے ناواقف تھے ۔

 
گفت این آتش چسان افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی

مطلب: بولے یہ آگ تو نے کیوں کر روشن کی، تو نے تو حکمت و فلسفہ کی کتابیں ہی جلا ڈالی ہیں ۔

 
گفت شیخ ای مسلم زنار دار
ذوق و حال است این ترا با وی چہ کار

مطلب: شمس بولے، اے شرک میں گرفتار مومن، یہ سب ذوق اور وجد حال کا اثر ہے، تجھے ان سے کیا سروکار ۔

 
حال ما از فکر تو بالاتر است
شعلہ ی ما کیمیای احمر است

مطلب: ہمارا وجد و حال تیری قوت فکر سے کہیں بڑھ کر ہے، ہمارا شعلہ سرخ کیمیا (پارس پتھر) ہے (جو تانبے کو سونا بنا دیتا ہے) ۔

 
ساختی از برف حکمت ساز و برگ
از سحاب فکر تو بارد تگرگ

مطلب: تو نے تو حکمت و فلسفہ کی برف سے اپنا ساز و سامان تیار کیا ہے ۔ تیرے فکر کے بادلوں سے تو اولے برستے ہیں ۔

 
آتشی افروز از خاشاک خویش
شعلہ ئی تعمیر کن از خاک خویش

مطلب: تو (رومی) اپنے خاشاک سے (عشق و جذبہ کی)کوئی آگ پیدا کر، اپنی خاک سے کوئی شعلہ بنا ۔

 
علم مسلم کامل از سوز دل است
معنی اسلام ترک آفل است

مطلب: مومن کا علم تو دل کے سوز سے درجہ کمال پر ہوتا ہے، اسلام کے معنی غروب کر جانے والوں سے دور رہنے یا انہیں ترک کر دینے کے ہیں ۔

 
چون ز بند آفل ابراہیم رست
درمیان شعلہ ہا نیکو نشست

مطلب: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی آفل (غروب کر جانے والوں ) سے نجات پا لی تو وہ آتش نمرود میں بڑے اطمینان سے بیٹھ گئے (اور شعلے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے) ۔

 
علم حق را در قفا انداختی
بہر نانی نقد دین درباختی

مطلب: تو نے وہ علم پس پشت ڈال دیا جو حق تک پہنچانے والا تھا، محض روٹی کی خاطر تو نے دین کی پونجی ہار دی ۔

 
گرم رو در جستجوی سرمہ ئی
واقف از چشم سیاہ خود نہ ئی

مطلب: تو سرمے کی تلاش میں تیز تیز ادھر اُدھر دوڑتا پھرا ۔ اپنی سیاہ آنکھوں کی تجھے خبر ہی نہیں (جو سرمے کی محتاج نہیں ) ۔

 
آب حیوان از دم خنجر طلب
از دہان اژدہا کوثر طلب

مطلب: خنجر کی آب (دھار) سے آب حیات طلب کر،اژدہا کے منہ سے کوثر کا خواہاں ہو ۔

 
سنگ اسود از در بتخانہ خواہ
نافہ ی مشک از سگ دیوانہ خواہ

مطلب: سنگ اسود، بت خانے کے دروازے سے لے اور مشک کا نافہ پاگل کتے سے حاصل کر ۔ (ایسی بدیہی ناممکن باتیں ممکن ہو سکتی ہیں ۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ دور حاضر کے علوم و فنون سے تجھے عشق کا سوز اور محبت کی تپش مل جائے) ۔

 
سوز عشق از دانش حاضر مجوی
کیف حق از جام این کافر مجوی

مطلب: دور حاضر کے علوم و فنون میں سوز حق کی جستجو نہ کر، حق کے سرور کی اس کافر کے جام سے توقع مت رکھ ۔

 
مدتی محو تگ و دو بودہ ام
راز دان دانش نو بودہ ام

مطلب: میں ایک عرصے تک دوڑ دھوپ اور تگ و دو میں رہا ہوں ، میں نے دور حاضر کے علوم و فنون کو بڑے قریب سے دیکھا ، جانا ہے( اس کے تمام بھید جانتا ہوں ) ۔

 
باغبانان امتحانم کردہ اند
محرم این گلستانم کردہ اند

مطلب: باغبانوں نے مجھے جانچا پرکھا ہے اور مجھے اس گلستان کا رازدان بنایا ہے ۔

 
گلستانی لالہ زار عبرتی
چون گل کاغذ سراب نکہتی

مطلب: (عہد حاضر کے علوم و فنون کا) گلستان ایک ایسا گلستان ہے جو عبرت کا ایک لالہ زار ہے، مراد سراپا عبرت و نصیحت ہے اس کی کیفیت کاغذ کے پھو ل کی مانند ہے یعنی خوشبو سے عاری اور خوشبو کا محض ایک فریب ۔

 
تا ز بند این گلستان رستہ ام
آشیان بر شاخ طوبی بستہ ام

مطلب: جب میں اس گلستان کی قید سے آزاد ہو چکا ہوں میں نے طوبیٰ کی شاخ پر اپنا گھونسلا بنا لیا ہے ۔

 
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بتگر است

مطلب:موجودہ زمانے کے علوم و فنون (ذہن و دماغ اور قلب روح کے لیے) بہت بڑا پردہ ہیں (یہ پردہ روشنی کو روک لیتا ہے) ۔ یہ علوم و فنون بت پرست ہیں ، بت فروش ہیں اور بت تراش ہیں ۔

 
پا بزندان مظاہر بستہ ئی
از حدود حس برون ناجستہ ئی

مطلب: دانش حاضر کی حالت ایسی ہے کہ یہ مظاہر کے قید خانے میں بیٹھ گئے ہیں اور محسوسات کی حدود سے باہر جا ہی نہیں سکتے ۔

 
در صراط زندگی از پا فتاد
بر گلوی خویشتن خنجر نہاد

مطلب: یہ زندگی کے راستے پر چلنے سے عاجز ہے، اس نے اپنے ہی گلے پر خنجر رکھ لیا ہے ۔

 
آتشی دارد مثال لالہ سرد
شعلہ ئی دارد مثال ژالہ سرد

مطلب: اس میں جو آگ ہے وہ لالہ کے پھول کے رنگ کی طرح سرخ تو ہے لیکن گرمی سے خالی ہے ۔ اس کا شعلہ اولے کی طرح سرد اور ٹھنڈا ہے ۔

 
فطرش از سوز عشق آزاد ماند
در جہان جستجو ناشاد ماند

مطلب: اس کی فطرت عشق کی تپش سے محروم رہی (عشق کا سوز نہ ملا) وہ جستجو کی دنیا میں ناخوش رہی ۔

 
عشق افلاطون علت ہای عقل
بہ شود از نشترش سودای عقل

مطلب: عشق عقل کی بیماریوں کا علاج کرنے والا طبیب (افلاطون) ہے ۔ اس کے نشتر سے عقل کا سودا ٹھیک ہو جاتا ہے ۔

 
جملہ عالم ساجد و مسجود عشق
سومنات عقل را محمود عشق

مطلب: تمام کائنات سجدہ کرنے والی اور عشق مسجود (سب کی سجدہ گاہ ) ہے ، عقل کے سومنات (یعنی قلعے) کا محمود (فاتح) عشق ہے ۔

 
این می دیرینہ در میناش نیست
شور یارب قسمت شبہاش نیست

مطلب: دور حاضر کے علوم و فنون کی صراحی میں پرانی شراب موجود نہیں ، یارب کا شور اس کی راتوں کے مقدر میں نہیں ہے ۔

 
قیمت شمشاد خود ناشناختی
سرو دیگر را بلند انداختی

مطلب: (اے مسلمان) تو نے اپنے شمشاد یعنی اپنے علوم و فنون کی قدر و قیمت نہ پہچانی اور دوسروں کے سرو کو تو اونچا ماننے لگا ۔

 
مثل نے خود را ز خود کردی تہی
بر نوای دیگران دل می نہی

مطلب: بانسری کی طرح تو نے اپنی ذات کو اپنے آپ سے خالی کر لیا اور اب دوسروں کے نغمے سے دل لگائے ہوئے ہے ۔

 
ای گدای ریزہ ئی از خوان غیر
جنس خود می جوئی از دکان غیر

مطلب: اے دوسروں کے دستر خوان سے ایک ٹکڑے کی بھیک مانگنے والے تو اپنی جنس غیروں کی دکان سے خریدنے کا آرزومند ہے ۔

 
بزم مسلم از چراغ غیر سوخت
مسجد او از شرار دیر سوخت 

مطلب: افسوس کہ مسلمان کی محفل بیگانوں کے چراغ سے جل بجھی ۔ اس کی مسجد کو بت خانے کی چنگاری نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا ۔

 
از سودا کعبہ چون آہو رمید
ناوک صیاد پہلویش درید

مطلب: حرم کی حدود سے جب ہرن بھاگ اٹھاتو شکاری کے تیر نے اس کا پہلو چیر کر رکھ دیا ۔

 
شد پریشان برگ گل چون بوی خویش
ای ز خود رم کردہ باز آسوی خویش

مطلب: پھول کی پتیاں اپنی خوشبو کی طرح منتشر ہو گئیں ، اے اپنی ذات سے بھاگے ہوئے پھر اپنی طرف لو ٹ آ ۔

 
ای امین حکمت ام الکتاب
وحدت گمگشتہ ی خود بازیات

مطلب: اے مسلمان! تو قرآن کریم کی حکمت کا امانت دار ہے تو اپنی گم گشتہ وحدت کو پھر سے پا لے، حاصل کر لے ۔

 
ما کہ دربان حصار ملتیم
کافر از ترک شعار ملتیم

مطلب: ہم کہ ملت کے قلعے کے محافظ و پاسبان ہیں ، ملت کے آداب و شعائر ترک کر کے ہم کافر ٹھہرے ہیں ۔

 
ساقی دیرینہ را ساغر شکست
بزم رندان حجازی بر شکست

مطلب: قدیم ساقی کا جام (پیالہ) ٹوٹ گیا، حجازی رندوں کی محفل درہم برہم ہو گئی ۔

 
کعبہ آباد است از اصنام ما
خندہ زن کفر است بر اسلام ما

مطلب: کعبہ ہمارے بتوں سے آباد ہے، کفر ہمارے اسلام کا تمسخر اڑا رہا ہے، ہنسی اڑا رہا ہے ۔

 
شیخ در عشق بتان اسلام باخت
رشتہ ی تسبیح از زنار ساخت

مطلب: شیخ بتوں کے عشق میں اسلام ہی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اس نے زنار کی تسبیح کے دھاگے کا کام لیا (اسلامیات غیروں کے شعائر و عقائد سے داغدار ہے) ۔

 
پیر ہا پیر از بیاض مو شدند
سخرہ بہر کودکان کو شدند

مطلب: بوڑھے محض بالوں کی سفیدی کے سبب بزرگ ٹھہرے، ان کی عملی و عملی حالت یہ ہے کہ گلی کوچوں کے لونڈے ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

 
دل ز نقش لا الہ بیگانہ ئی
از صنم ہای ہوس بتخانہ ئی

مطلب: ان کادل لا الہ کی تحریر سے عاری اور ہوس کے بتوں کا ٹھکانا بنا ہوا ہے ۔

 
می شود ہر مو درازی خرقہ پوش
آہ ازین سوداگران دین فروش

مطلب: ہر لمبے بالوں والا گدڑی پوش بن جاتا ہے ان دین فروش سوداگروں کی حالت قابل افسوس ہے ۔

 
با مریدان روز و شب اندر سفر
از ضرورت ہای ملت بی خبر

مطلب: (یہ نام نہاد صوفیا) شب و روز مریدوں کے ساتھ سفر میں رہتے ہیں ، ملت کے مسائل کیا ہے اس کی انہیں کچھ خبر نہیں (ہرگز واقفیت نہیں ۔

 
دیدہ ہا بی نور مثل نرگس اند
سینہ ہا از دولت دل مفلس اند

مطلب: ان کی آنکھیں نرگس کی آنکھوں کی طرح بے نور ہیں ، ان کے سینے دل کی دولت (عشق ) سے خالی ہیں ۔

 
واعظان ہم صوفیان منصب پرست
اعتبار ملت بیضا شکست

مطلب: کیا واعظ اور کیا صوفی سبھی عہدوں کے بھوکے ہیں (ان لوگوں کی ان حرکات سے) ملت بیضا کی عزت و حرمت جاتی رہی ۔

 
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی دین مبین فتوی فروخت

مطلب: ہمارے واعظوں کی آنکھیں بت خانوں پر جمی ہوئی ہیں ۔ ہمارے دین روشن کے مفتی فتوے بیچ رہے ہیں ۔

 
چیست یاران بعد ازین تدبیر ما
رخ سوی میخانہ دارد پیر ما

مطلب: دوستو! اب اس کے بعد ہمارے لیے کیا چارہ کار ہے ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ہمارے پیر ومرشد نے شراب خانے کا رخ کر لیا ہے (وہ راہ راست سے پھر گیا ہے) ۔