در بیان اینکہ خودی از سوال ضعیف می گردد
( اس بیان میں کہ سوال کرنے سے خودی کمزور ہو جاتی ہے)
اے فراہم کردہ از شیران خراج گشتہ ئی روبہ مزاج از احتیاج
مطلب: اے (مسلمان ) تو نے کبھی شیروں سے خراج حاصل کیا تھا ۔ (اب تو) ضرورت کے ہاتھوں تیری طبیعت لومڑی جیسی ہو گئی ہے ۔
خستگی ہائے تو از ناداری است اصل درد تو ہمین بیماری است
مطلب: تیری یہ بدحالی تیری مفلسی کی وجہ سے ہے ۔ تیرے دکھ کا بنیادی سبب تیری یہی بیماری ہے ۔
می رباید رفعت از فکر بلند می کشد شمع خیال ارجمند
مطلب: ناداری بلند فکری سے رفعت چھین لیتی ہے اور اعلیٰ درجے کے خیال کی شمع بجھا دیتی ہے ۔
از خم ہستی مے گلفام گیر نقد خود از کیسہ ی ایام گیر
مطلب: تو زندگی کے مٹکے سے سرخ رنگ کی شراب حاصل کر، اپنی پونجی زمانے کی تھیلی (جیب) سے حاصل کر ۔
خود فرود آ از شتر مثل عمر الحذر از منت غیر الحذر
مطلب: تو حضرت عمر فاروق کی طرح خود اونٹ سے اتر کر (اپنا کوڑا اٹھا) بچ، دوسروں کے احسان سے بچ ۔
تا بکے دریوزہ ی منصب کنی صورت طفلاں ز نے مرکب کنی
مطلب: تو کب تک مرتبہ و اقتدار (عہدوں ) کی بھیک مانگتا رہے گا، یعنی بچوں کی طرح بانس کے ڈنڈے کی سواری (فضول کاموں ) میں مصروف رہے گا (ان دنوں مسلمان انگریزوں کے ماتحت منصبوں اور خطابوں کی کشمکش میں گرفتار تھے) ۔
فطرتے کو بر فلک بندد نظر پست می گردد ز احسان دگر
مطلب: وہ فطرت جو آسمان (عظمت و بلندی) پر نظریں جمانے والی ہے وہ دوسرے کے احسان سے پست ہو کر رہ جاتی ہے ۔
از سوال افلاس گردد خوار تر از گدائی گدیہ گر نادار تر
مطلب: نادار آدمی سوال کرتا ہے اس کی ناداری اور بھی ذلیل ہو جاتی ہے ۔ بھیک مانگنے والا بھیک مانگ کر اور بھی نادار بن جاتا ہے ۔
از سوال آشفتہ اجزائے خودی بے تجلی نخل سینائے خودی
مطلب: سوال کی وجہ سے خودی کے اجزا برہم ہو جاتے ہیں ، یوں خودی کے کوہ و طور کا درخت (جس پر خدا کا جلوہ ظاہر ہوا تھا) تجلی سے محروم رہ جاتا ہے(بے نور رہ جاتا ہے) ۔
مشت خاک خویش را از ہم مپاش مثل مہ رزق خود از پہلو تراش
مطلب: تو اپنی مٹھی بھر خاک کو زیادہ پریشان نہ کر ، چاند کی طرح اپنی روزی اپنے پہلو سے پیدا کر ۔ چاند بدر بننے کے بعد وہ برابر گھٹتا ہے ۔ گویا پہلو کاٹ کر اپنا رزق مہیا کرتا ہے ۔
گرچہ باشی تنگ روز و تنگ بخت در رہ سیل بلا افگندہ رخت
مطلب: اگرچہ تیرے دن کتنی ہی تنگی ترشی میں گزریں تو بدحالی کا شکار ہو، اس طرح کی مصیبتوں کے سیلاب کے راستے میں تو نے اپنا سامان اسباب ڈال رکھا ہو ۔
رزق خویش از نعمت دیگر مجو موج آب از چشمہ ی خاور مجو
مطلب: (پھر بھی) تو اپنی روزی کسی دوسرے کے مال و دولت میں مت تلاش کر اور مشرق کے چشمے سے پانی کی موج کا طلب گار نہ ہو ۔
تا نباشی پیش پیغمبر خجل روز فرداے کہ باشد جان گسل
مطلب: تا کہ کل قیامت کے دن، جو بڑا ہی جان توڑ اور عذاب کا دن ہو گا ، تجھے رسول اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔
ماہ را روزی رسد از خوان مہر داغ بر دل دارد از احسان مہر
مطلب: چاند کو سورج کے دسترخوان سے رزق پہنچتا ہے(روشنی ملتی ہے) ۔ سورج کے اس احسان کے سبب اس کے دل پر داغ ہے(اشارہ ان دھبوں کی طرف ہے جو چاند میں نظر آتے ہیں ) ۔ ۔
ہمت از حق خواہ و با گردون ستیز آبروے ملت بیضا مریز
مطلب: ہمت خدا سے مانگ اور آسمان سے الجھ جا (تقدیر کو خود سنوار) ملت روشن یعنی ملت اسلامی کی عزت و آبرو خاک میں نہ ملا ۔
آنکہ خاشاک بتان از کعبہ رفت مرد کاسب را حبیب اللہ گفت
مطلب: جس ذات گرامی نے کعبے کو بتوں کے خس و خاشاک سے پاک کیا ۔ اس ہستی نے محنت مزدوری کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا ہے(الکاسب حبیب اللہ ، یعنی جو شخص اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے وہ اللہ کا دوست (پیارا) ہے ۔ ) ۔
اپنی تقدیر انسان خود بناتا ہے اپنی جدوجہد سے، اپنے عمل پیہم سے، اسی لیے علامہ کو یہ کہنا پڑا:
عبث ہے شیوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
وائے بر منت پذیر خوان غیر گردنش خم گشتہ ی احسان غیر
مطلب: اس آدمی پر افسوس ہے جو غیروں کے دسترخوان کا احسان مند ہے ۔ دوسروں کا احسان اٹھانے کے سبب اس کی گردن جھکی رہتی ہے ۔
خویش را از برق لطف غیر سوخت با پشیزے مایہ ی غیرت فروخت
مطلب:اس نے دوسرے کی مہربانی کی بجلی سے اپنے آپ کو جلا لیا ۔ اس نے معمولی شے کے عوض اپنی غیرت کا سرمایہ بیچ ڈالا ۔
اے خنک آن تشنہ کاندر آفتاب می نخواہد از خضر یک جام آب
مطلب: (اس کے برعکس) و ہ پیاسا بڑا ہی مبارک انسان ہے جو کڑکتی دھوپ میں بھی خضر سے پانی کا ایک پیالہ بھی لینے کو تیار نہیں ہے ۔
تر جبیں از خجلت سائل نشد شکل آدم ماند و مشت گل نشد
مطلب: وہ (مبارک انسان) سوال کرنے کی ذلت سے بچا اور شرمندگی کے پسینے سے اس کی پیشانی نہ بھیگی ۔ وہ ایک انسان کی صورت جیا اور مٹھی بھر مٹی نہ بنا (آدمیت کو برقرار رکھا ۔ )
زیر گردون آن جوان ارجمند می رود مثل صنوبر سر بلند
مطلب: اس دنیا میں ایسا باوقار جوان اپنی گردن صنوبر کے درخت کی طرح اٹھا کر چلتا ہے ۔
در تہی دستی شود خوددار تر بخت او خوابیدہ او بیدار تر
مطلب: اگر وہ خالی ہاتھ ہو تو اور زیادہ خوددار بن جاتا ہے ۔ ہر چند اس کے مقدر سوئے ہوتے ہیں وہ خود کہیں زیادہ بیدار ہو جاتا ہے ۔
قلزم زنبیل سیل آتش است گر ز دست خود رسد شبنم خوش است
مطلب: گدائی کے تھیلے کا سمندر گویا آگ کا طوفان ہے، ہاں اگر اپنے ہاتھوں سے شبنم بھی حاصل کر لی جائے تو وہ خوب ہے(گدائی کے سمندر سے بہتر ہیں ) ۔
چوں حباب از غیرت مردانہ باش ہم بہ بحر اندر نگوں پیمانہ باش
مطلب: تو مردانہ غیرت (خود میں پیدا کر کے) بلبلے کی طرح ہو جا، یعنی اس (بلبلے) کی طرح تو سمندر میں بھی رہتے ہوئے اپنا پیالہ اوندھا رکھا ۔
یہ خیال اقبال نے شمع اور شاعر میں پیش کیا ہے:
تو اگر خوددار ہے، منت کش ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسانگوں پیمانہ کر