Please wait..

(۶)

 
عطا کن شور رومی سوز خسرو
عطا کن صدق و اخلاص سنائی

مطلب: مجھے مولانا رومی کا جنون اور امیر خسرو کا سوز عشق عطا کر ۔ مجھے حکیم سنائی کا صدق اور اخلاص عطا کر ۔

 
چنان با بندگی در ساختم من
نہ گیرم گر مرا بخشی خدائی

مطلب: میں نے اس طرح تیری بندگی سے تعلق پیدا کیا ہے کہ اگر تو مجھے خدائی عطا کرے تو میں ہرگز قبول نہ کروں گا ۔
متاع بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقام بندگی دیکر نہ لوں شانِ خداوندی

(۷)

 
مسلمان فاقہ مست و ژندہ پوش است
ز کارش جبرئیل اندر خروش است

مطلب: عہد حاضر کا مسلمان بھوکا اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے والا ہے ۔ اس کے اعمال دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام کے دل میں شور و غل برپا ہے ۔

 
بیا نقش دگر ملت بہ ریزم
کہ ایں ملت جہان را بار دوش است

مطلب: آوَ ، ہم ایک نئی قوم کا نقش بنائیں کیونکہ یہ قوم دنیا کے کندھوں کا بوجھ ہے ۔

 
دگر ملت کہ کارے پیش گیرد
دگر ملت کہ نوش از نیش گیرد

مطلب: دوسری قوم جس کے سامنے کوئی مقصد ہو ، وہ دوسری قوم جو مقصد کی خاطر تکلیفوں سے خوشی حاصل کرے ۔

 
نگردد با یکے عالم رضامند
دو عالم را بہ دوش خویش گیرد

مطلب: وہ قوم جو ایک جہان سے خوش نہ ہو بلکہ دونوں جہانوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ۔

 
دگر قومے کہ ذکر لا الہش
بر آرد از دل شب صبح گاہش

مطلب:دوسری مسلمان قوم جو اپنے لا الہ کے ذکر سے رات کے دل سے اس کے صبح کے وقت پر روشنی لے آئے ۔ یعنی رات اور دنیا کی تاریکی دور کرے ۔

 
شناسد منزلش را آفتابے
کہ ریگ کہکشان روبد ز راہش

مطلب: وہ قوم جس کی منزل کو سورج پہچانتا ہے کیونکہ کہکشاں کی ریت اس کے راستے سے صاف ہو جاتی ہے ۔ یعنی راستے کی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں ۔

(۸)

 
جہان تست در دست خسے چند
کسان او بہ بند ناکسے چند

مطلب: تیرا جہان چند کمینوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے کسان (دولت و زمین) چند نا اہل لوگوں کی قید میں ہیں ۔

 
ہنر ور درمیان کارگاہان
کشد خود را بہ عیش کرگسے چند

مطلب: کاریگر لوگ کارخانوں میں ہیں اور کچھ گدھوں (سرمایہ داروں ) کے لیے خود کو مار رہے ہیں ۔

 
مریدے فاقہ مستے گفت با شیخ
کہ یزدان را ز حال ما خبر نیست

مطلب: ایک بھوکے مرید نے پیر و مرشد کو کہا کہ خدا ہمارے حال سے واقفیت نہیں رکھتا ۔ یعنی ہمارے حال کی خبر نہیں (پیر و مرشد سے مراد وہ جعلساز پیر ہیں جو خود تو عیش میں ہیں لیکن رعایا غربت کا شکار ہے) ۔

 
بہ ما نزدیک تر از شہ رگ ماست
ولیکن از شکم نزدیک تر نیست

مطلب: خدا تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن کیا وہ پیٹ سے زیادہ نزدیک نہیں ہے ۔

(۹)

 
دگرگون کشور ہندوستان است
دگرگون آن زمین و آسمان است

مطلب: ہندوستان کی سلطنت رنگ بدل چکی ہے ۔ اسکی زمین اور آسمان تبدیل ہو چکا ہے ۔

 
مجو از ما نمازِ پنجگانہ
غلامان را صف آرائی گران است

مطلب: ہم سے پانچ وقت کی نماز نہ مانگ کیونکہ غلاموں کو صف آراء ہونا بھاری ہوتا ہے ۔

 
ز محکومی مسلماں خود فروش است
گرفتار طلسم چشم و گوش است

مطلب: مسلمان غلامی کی وجہ سے خود کو اپنے ضمیر کو بیچتا ہے ۔ وہ آنکھ اور کان کے جادو (عیش کوشی) میں مصروف ہے ۔

 
ز محکومی رگان در تن چنان سست
کہ ما را شرع و آئیں باردوش است

مطلب: محکومی کی وجہ سے رگیں جسم میں اس طرح سست ہو چکی ہیں کہ ہمیں شریعت اور اللہ کا قانون کندھوں کا بوجھ معلوم ہوتے ہیں (اسلامی آئین سے بیزار ہو چکے ہیں ۔

(۱۰)

 
یکے اندازہ کن سود و زیان را
چو جنت جاودانی کن جہان را

مطلب: ایک مرتبہ نفع اور نقصان کا اندازہ کر، اس جہان کو جنت کی طرح ہمیشہ کی زندگی عطا کر ۔

 
نمی بینی کہ ما خاکی نہادان
چو خوش آراستیم ایں خاکدان را

مطلب: تو نے نہیں دیکھا کہ ہم مٹی کی آفرینش والوں نے اس دنیا کو کس خوبصورتی سے سجایا سنوارا ہے ۔

 
تو می دانی حیات جاودان چیست
نمی دانی کہ مرگ ناگہان چیست

مطلب: تو یہ جانتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی کیا ہے تو یہ نہیں جانتا کہ اچانک موت کیا ہوتی ہے

 
ز اوقات تو یک دم کم نہ گردد
اگر من جاودان باشم، زیان چیست

مطلب: تیرے لمحوں سے ایک لمحہ کم نہیں ہو گا اگر مجھے ہمیشہ کی زندگی مل جائے تو تیرا کیا نقصان ہے