در حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ
(شعر کی حقیقت اور اسلامی ادبیات کی اصلاح کے بارے میں )
گرم خون انسان ز داغ آرزو آتش این خاک از چراغ آرزو
مطلب: انسان کا خون آرزو کے داغ سے گرم ہوتا ہے ۔ یہ خاک (انسان) آرزو کے چراغ سے آگ بن جاتی ہے ۔
از تمنا مے بجام آمد حیات گرم خیز و تیز گام آمد حیات
مطلب: آرزو یا تمنا ہی سے زندگی کا پیالہ شراب سے بھرتا ہے اسی آرزو کے طفیل زندگی میں تیز روی، گرمی اور تیزی آ جاتی ہے ۔
زندگی مضمون تسخیر است و بس آرزو افسون تسخیر است و بس
مطلب: زندگی تو فقط فطرت پر غلبہ پا کر اسے اپنے کام میں لانے کا مضمون ہے جب کہ آرزو اس تسخیر کا جادو (منتر ) ہے اور بس ۔
زندگی صید افگن و دام آرزو حسن را از عشق پیغام آرزو
مطلب: زندگی، شکار کھیلتی ہے اور (ا س شکار کے لیے) آرزو جال کا کام دیتی ہے یہ آرزو گویا عشق کی طرف سے حسن کے نام پیغام ہے ۔
از چہ رو خیزد تمنا دمبدم این نوائے زندگی را زیر و بم
مطلب: آرزو تمنا کس لیے ہر لمحہ وجود میں آتی رہتی ہے یہ زندگی کے نغمے کی نیچی لے اور اونچی لے ہے ۔
ہر چہ باشد خوب و زیبا و جمیل در بیابان طلب ما را دلیل
مطلب: جو چیز بھی دل کش، خوبصورت اور حسن و جمال سے آراستہ ہے وہ آرزو اور خواہش کے جنگل میں ہماری رہنمائی کرنے والی ہے ۔
نقش او محکم نشیند در دلت آرزوہا آفریند در دلت
مطلب: اس (دل کش شے) کا نقش تیرے دل میں گہرا اور مستحکم بیٹھتا ہے یہ تیرے دل میں آرزووَں کو جنم دیتی ہے ۔
حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست
مطلب: حسن ہی سے آرزو کی بہار پیدا ہوتی ہے ، اسی کے آغوش سے آرزو پاتی ہے ۔
سینہ ی شاعر تجلی زار حسن خیزد از سیناے او انوار حسن
مطلب: شاعر کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہے اس کے سینا سے حسن کے انوار پھوٹتے ہیں (جلوے ابھرتے ہیں ) ۔
از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از افسون او محبوب تر
مطلب: اس کی نگاہ سے حسن میں مزید نکھار آ جاتا ہے ، فطرت اس کے سحر سے اور بھی محبوب ہو جاتی ہے ۔
از دمش بلبل نوا آموخت است غازہ اش رخسار گل افروخت است
مطلب: اس (شاعر ) کی پھونک (نغمے، شاعری) سے بلبل نغمے سیکھتی ہے (چہچہاتی ہے) ۔ شاعر ہی کے گلوگونہ سے پھول کا چہرہ تابناک ہو جاتا ہے ۔
سوز او اندر دل پروانہ ہا عشق را رنگین ازو افسانہ ہا
مطلب: اس کا سوز پروانوں کے دل میں ہے ۔ عشق کے افسانے اسی ہی کی وجہ سے رنگین ہیں ۔
بحر و بر پوشیدہ در آب و گلش صد جہان تازہ مضمر در دلش
مطلب: اس کے خمیر میں بحر و بر (آب و گل) پوشیدہ ہیں ۔ بے شمار نئے جہان اس کے دل میں پوشیدہ ہیں ۔
در دماغش نادمیدہ لالہ ہا ناشنیدہ نغمہ ہا ہم نالہ ہا
مطلب: اس کے دماغ میں ایسے لالہ کے پھول موجود ہیں جو ابھی کھلے نہیں اور ایسے نغمے اور نالے بھی اس کے دماغ میں پوشیدہ ہیں جو ابھی تک سنے نہیں گئے ۔
فکر او با ماہ و انجم ہمنشین زشت را نا آشنا خوب آفرین
مطلب: اس کے خیالات بلندی میں چاند ستاروں کی ہم نشین ہے ۔ وہ برائی سے ناواقف اور خوبیاں تخلیق کرنے والا ہے(بری چیز اس کے تصور میں بھی نہیں آ سکتی ۔ وہ ہمیشہ اچھی چیزیں پیدا کرتا ہے) ۔
خضر و در ظلمات او آب حیات زندہ تر از آب چشمش کائنات
مطلب: وہ خضر ہے جس کی تاریکی میں آب حیات موجود ہے ۔ اس کی آنکھوں کے پانی (آنسووَں ) سے کائنات اور بھی زیادہ زندہ ہے ۔ اس کے آنسووَں سے کائنات کی رگوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑنے لگتی ہے ۔
ما گران سیریم و خام و سادہ ایم در رہ منزل ز پا افتادہ ایم
مطلب: ہم چلنے میں بھی سست ہیں ، محنت مشقت سے جی چراتے ہیں ، نفع نقصان کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ۔ منزل مقصود سے دورراستے میں گرے پڑے ہیں ۔
عندلیب او نوا پرداخت است حیلہ ئی از بہر ما انداخت است
مطلب: اس کی بلبل چہچہا اٹھی ہے اس نے ہمارے لیے کوئی تدبیر سوچی ہے ۔
تا کشد ما را بفردوس حیات حلقہ ی کامل شود قوس حیات
مطلب: تا کہ ہمیں وہ زندگی کی بہشت تک پہنچا دے (یوں ) زندگی کی کمان (نیم دائرہ) مکمل حلقے کی صور ت اختیار کر جائے ۔
کاروانہا از درایش گام زن در پے آواز نایش گام زن
مطلب: قافلے شاعر ہی کی آواز جرس پر کوچ کرنے لگتے ہیں وہ (قافلے) اس کی بانسری کی آواز کے پیچھے رواں رہتے ہیں ۔
چون نسیمش در ریاض ما وزد نرمک اندر لالہ و گل می خزد
مطلب: جب اس کی نسیم ہمارے باغ میں چلتی ہے تو وہ نرمی و آہستگی سے گل و لالہ میں داخل ہوتی ہے ۔
از فریب او خود افزا زندگی خود حساب و ناشکیبا زندگی
مطلب: اسکے جادو سے زندگی کے زور و قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے وہ اپنی قدر و قیمت کا جائزہ لیتی ہے اور اس میں تگ و دو کی بیتابی پیدا ہوتی ہے ۔
اہل عالم را صلا بر خوان کند آتش خود را چو باد ارزان کند
مطلب: وہ دنیا والوں کو پکار کر دسترخوان پر دعوت عام دیتا ہے اپنی آگ کو ہوا کی مانند ارزاں (عام ) کر دیتا ہے ۔
وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش وا بوسد از ذوق حیات
مطلب: اس قوم پر افسوس ہے جو موت سے یعنی جذبہ عمل کی موت سے خوش ہوتی ہے ۔ اس کا شاعر زندگی کی لذت سے روگردانی کرتا ہے ۔
خوش نماید زشت را آئینہ اش در جگر صد نشتر از نوشینہ اش
مطلب: اس کا آئینہ بری چیزوں کو بھی اس کے سامنے خوشنما کر کے دکھاتا ہے اسکے شیریں مشروب سے جگر میں سینکڑوں نشتر اتر جاتے ہیں ۔
بوسہ ی او تازگی از گل برد ذوق پرواز از دل بلبل برد
مطلب: اگر وہ پھول کا بوسہ لے لے تو اس کی تازگی ختم ہو کر رہ جائے ۔ وہ بلبل کے دل سے پرواز کا ذوق لے جاتا یعنی ختم کر دیتا ہے ۔
سست اعصاب تو از افیون او زندگانی قیمت مضمون او
مطلب: تیرے اعصاب اس کی افیون سے بے حس اور بیکار ہو کر رہ جاتے ہیں اس کے مضمون کی قیمت زندگی ہے (جو وہ پیغام دیتا ہے اس سے زندگی کی فنا ہو جاتی ہے) ۔
می رباید ذوق رعنائی ز سرو جرہ شاہیں از دم سردش تذرو
مطلب: وہ سرو سے زیبائی و خوش قامتی کا ذوق چھین لے جاتا ہے ۔ اس کی حرارت سے عاری سانس سے نر باز بھی ایک عام صحرائی پرندہ یعنی بزدل بن جاتا ہے ۔
ماہی و از سینہ تا سر آدم است چون بنات آشیان اندر یم است
مطلب: وہ (شاعر) نچلے دھڑ سے مچھلی اور سینے سے سر تک آدمی ہے ( نصف جسم انسان کا اور نصف مچھلی کا ہوتا ہے ) وہ سمندر کی پریوں کی مانند ہے ۔
از نوا بر ناخدا افسون زند کشتیش در قعر دریا افگند
مطلب: جو اپنے نغموں سے ملاح جہاز ران پر جادو کر دیتی ہیں اور جہاز کو سمندر کی گہرائی میں ڈبو دیتی ہیں ۔
نغمہ ہایش از دلت دزدد ثبات مرگ را از سحر او دانی حیات
مطلب : اس شاعر کے نغمے تیرے دل سے استقلال و ثابت قدمی چرا لے جاتے ہیں ۔ اس کے جادو کے سبب تو موت کو زندگی سمجھنے لگتا ہے ۔
دایہ ی ہستی ز جان تو برد لعل عنابی ز کان تو برد
مطلب: وہ تیری روح سے زندہ رہنے کی خواہش نکال دیتا ہے، تیری کان سے عناب ایسا سرخ لعل لے جاتا ہے ۔
چوں زیان پیرایہ بندد سود را می کند مذموم ہر محمود را
مطلب: جب نقصان فائدے کا لباس پہن لیتا ہے تو وہ ہر اچھائی برائی بن جاتی ہے ۔
در یم اندیشہ اندازد ترا از عمل بیگانہ می سازد ترا
مطلب: وہ تجھے خوف اور ڈر کے سمندر میں ڈال دیتا ہے، عمل سے تجھے بیگانہ بنا دیتا ہے ۔
خستہ ی ما از کلامش خستہ تر انجمن از دور جامش خستہ تر
مطلب: وہ مضمحل ہے اور ہم اس کے کلام کے سبب اور بھی زیادہ مضمحل ہیں ۔ محفل اس کے جام کی گردش سے بہت ہی مضمحل اور تھکی ماندی ہے(انجمن کی رونق چلی جاتی ہے) ۔
جوے برقے نیست در نیسان او یک سراب رنگ و بو بستان او
مطلب: اس کے بادل میں کسی بجلی کی ندی ہو ہی نہیں سکتی ۔ اس کا باغ تو رنگ و بو کے معاملے میں سراسر فریب نظر ہے، دھوکا ہے ۔
حسن او را با صداقت کار نیست در یمش جز گوہر تف دار نیست
مطلب: اس کے حسن و خوبی کو راستی اور حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ، اس کے سمندر میں ناقص موتیوں کے سوا کچھ نہیں ہے(جو بھی موتی نکلے گا وہ عیب سے خالی نہ ہو گا ۔ ) ۔
خواب را خوشتر ز بیداری شمرد آتش ما از نفسہایش فسرد
مطلب: وہ سونے کو بیداری پر ترجیح دیتا ہے ہماری آگ اس کی سانسوں سے بجھ گئی، ٹھنڈی ہو گئی(ہمیں ہمت کی حرارت سے بے بہرہ کر دیا) ۔
قلب مسموم از سرود بلبلش خفتہ مارے زیر انبار گلش
مطلب: دل اس کی بلبل کے نغمے سے زہر آلود ہو گیا اس کے پھولوں کے ڈھیر کے نیچے ایک سانپ سویا ہوا ہے ۔
از خم و مینا و جامش الحذر از مے آئینہ فامش الحذر
مطلب: اس کی صراحی، اس کے شراب کے مٹکے اور اسکے جام سے دور رہو ۔ اس کی آئینے ایسی شفاف شراب سے بچو ہرگز نہ چھووَ ۔
اے ز پا افتادہ ی صہباے او صبح تو از مشرق میناے او
مطلب: اے (قوم) کہ تو اسکی شراب کے نشے سے ٹھوکر کھا کر گرا پڑا ہے ۔ تیرے دن کا طلوع اس کی صراحی شراب کے مشرق سے ہوتا ہے ۔
اے دلت از نغمہ ہایش سرد جوش زہر قاتل خوردہ ئی از راہ گوش
مطلب: اے کہ تیرے دل کا اس کے نغموں سے جوش و خروش ختم ہو گیا ۔ کان کے راستے سے زہر قاتل اندر پہنچ گیا ۔
اے دلیل انحطاط انداز تو از نوا افتاد تار ساز تو
مطلب: اے کہ تیرا طریق تیرے زوال و پستی کی دلیل ہے ۔ تیرے ساز کا تار آواز سے عاری ہو چکا ہے ۔
آن چنان زار از تن آسانی شدی در جہان ننگ مسلمانی شدی
مطلب: تو اپنی تن آسانی یعنی سستی و کاہلی کے سبب اس حد تک تباہ و برباد ہو گیا ہے کہ دنیا میں تجھے مسلمانی کیلیے باعث ننگ سمجھا جاتا ہے ۔
از رگ گل می توان بستن ترا از نسیمے می توان خستن ترا
مطلب: (تیری کمزوری کا یہ حال ہے کہ) تجھے رگ گل سے باندھا جا سکتا ہے اور ہلکی سی ہوا سے تجھے زخمی کیا جا سکتا ہے ۔
عشق رسوا گشتہ از فریاد تو زشت رو تمثالش از بہزاد تو
مطلب: تیری فریاد کے نتیجے میں عشق ذلیل و رسوا ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس (عشق) کی تصویر تیرے بہزاد نے بدصورت بنائی ہے ۔
زرد از آزار تو رخسار او سردی تو بردہ سوز از نار او
مطلب: تیرے دکھ اور رنج کو دیکھ کر تیرے شاعر کا چہرہ زرد ہو گیا ہے ۔ تیری سرد مہری نے اس کی آگ کی حرارت ہی اڑا لی ہے(تجھے بے عمل اور بے حوصلہ بنا دیا ہے ۔ )
خستہ جان از خستہ جانیہاے تو ناتوان از ناتوانیہاے تو
مطلب: وہ تیری ذہنی تھکن اور زخمی جان کے سبب خستہ جاں ہو گیا ہے اور تیری کمزوریوں نے اسے بھی کمزور کر دیا ہے ۔
گریہ ی طفلانہ در پیمانہ اش کلفت آہے متاع خانہ اش
مطلب: وہ بچوں کی طرح روتا ہے اس کے پیالے میں آنسووَں کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کے گھر کا سروسامان کیا ہے ۔ صرف ایک آہ کی تکلیف و اذیت ۔
سرخوش از دریوزہ ی میخانہ ہا جلوہ دزد روزن کاشانہ ہا
مطلب: میخانوں سے مانگی ہوئی بھیک ہی سے وہ سرمست ہے وہ گھروں کے سوراخوں میں سے نظارہ چرانے والا ہے ۔
ناخوشے افسردہ ئی آزردہ ئی از لکد کوب نگہباں مردہ ئی
مطلب: وہ ایک غمگین و ملول، ایک افسردہ اور ایک آرزدہ (انسان ) ہے جو (محبوب کے دروازے کے) چوکیدار کی لاتوں کی ٹھوکروں ہی سے مر جانے والا ہے ۔
از غمان مانند نے کاہیدہ ئی وز فلک صد شکوہ بر لب چیدہ ئی
مطلب: غموں کے سبب وہ بانس کی باریک شاخ کی طرح سوکھا ہوا ہے اور اس کے لبوں پر آسمان کی (ستم رانیوں ) کے سینکڑوں گلے شکوے ہیں ۔
لابہ و کین جوہر آئینہ اش ناتوانی ہمدم دیرینہ اش
مطلب: چاپلوسی، خوشامد اور کینہ و دشمنی اس کی فطرت کا خاصہ ہے ۔ ضعف اور کمزوری اس کی پرانی ساتھی ہے ۔
پست بخت و زیر دست و دون نہاد ناسزا و ناامید و نامراد
مطلب: وہ بد نصیب ہے، محکوم و محتاج ہے اور پست فطرت ہے ۔ وہ ناپسندیدہ و ناشائستہ ہے ، وہ نالائق ہے ، نا امید و نامراد ہے ۔
شیونش از جان تو سرمایہ برد لطف خواب از دیدہ ی ہمسایہ برد
مطلب: اسکے رونے دھونے اور فریاد نے تیری روح کا سرمایہ کھا لیا ہے ۔ اس نے ہمسایہ کی آنکھوں سے نیند کا مزہ ہی اڑا دیا ہے ۔
وائے بر عشقے کہ نار او فسرد در حرم زائید و در بتخانہ مرد
مطلب:افسوس ہے ایسے عشق پر جس کی حرارت و گرمی سرد پڑ گئی ہو ، جو پیدا تو حرم (کعبے) میں ہوا ہو لیکن مرا بت خانے میں جا کر ۔
اے میان کیسہ ات نقد سخن بر عیار زندگی او را بزن
مطلب: اے مخاطب (شاعر) تیری تھیلی میں شعر و سخن کی جو متاع موجود ہے تو انہیں زندگی کی کسوٹی پر پرکھ (اس کی شان یہی ہے کہ قوم میں زندگی کی روح پیدا کرے) ۔
فکر روشن بین عمل را رہبر است چون درخش برق پیش از تندر است
مطلب: (شاعر کی) روشن پہلو دیکھنے والی فکر، عمل کی رہنما بن جاتی ہے، بالکل اس چمک کی طرح جو بجلی کی کڑک اور گرج سے پہلے نمودار ہوتی ہے ۔
فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوے عرب می بایدت
مطلب: ادب و شعر میں تجھے چاہیے کہ درستی اور صلاح والی فکر سے کام لے ۔ اس سلسلے میں تجھے عرب کی طرف رجوع کرنا چاہیے(عربوں کی شاعری کو نمونہ بنانا چاہیے) ۔
دل بہ سلمائے عرب باید سپرد تا دمد صبح حجاز از شام کرد
مطلب: تجھے اپنا دل عرب کی سلمیٰ (محبوبہ) سے لگانا چاہے تا کہ حجاز کی صبح کرد کی شام سے پھوٹے(یعنی تمام غیر اسلامی خصوصیات مٹ جائیں اور اسلامی اوصاف جلا پائیں ) ۔
از چمن زار عجم گل چیدہ ئی نوبہار ہند و ایران دیدہ ئی
مطلب:(اے شاعر) تو نے عجم (ایران، پاک و ہند) کے باغ سے پھول چنے ہیں ، تو نے ہندو اور ایران کی تازہ بہار دیکھی ہے ۔
اندکے از گرمی صحرا بخور بادہ ی دیرینہ از خرما بخور
مطلب: اب تھوڑی دیر کے لیے یا تھوڑی سی صحرا کی تپش کا بھی لطف اٹھا، پرانی شراب کھجور سے بھی چکھ لے ۔
سر یکے اندر بر گرمش بدہ تن دمے با صرصر گرمش بدہ
مطلب: کچھ دیر کے لیے اپنا سر اس (صحرا) کی گرم آغوش میں رکھ دے، کچھ دیر کے لیے اپنا جسم اس کی گرم تیز ہوا کے حوالے کر دے ۔
مدتے غلطیدہ ئی اندر حریر خوبہ کرپاس درشتے ہم بگیر
مطلب: مدت تک ریشمی لباس کی لذت میں مست رہا ہے، ذرا موٹے کھردرے کپڑے کی بھی عادت ڈال لے ۔
قرنہا بر لالہ پا کوبیدہ ای عارض از شبنم چو گل شوئیدہ ای
مطلب: تو صدیوں تک گل لالہ کے فرش پر رقص کرتا رہا ۔ پھول کی طرح تو شبنم سے اپنے گال (منہ) دھوتا رہا ہے ۔
خویش را بر ریگ سوزان ہم بزن غوطہ اندر چشمہ ی زمزم بزن
مطلب: (اب) جھلسا دینے والی ریت پر بھی ذرا خود کو ڈال دے، زمزم کے چشمے میں بھی غوطہ لگا لے ۔
مثل بلبل ذوق شیون تا کجا در چمن زاران نشیمن تا کجا
مطلب: تو بلبل کی طرح کب تک آہ و فریاد کرتا رہے گا اور باغوں میں کب تک گھونسلا بنائے رہے گا ۔
اے ہما از یمن دامت ارجمند آشیانے ساز بر کوہ بلند
مطلب: اے (شاعر) ہما کو تیرے دام (جال) ہی کی بدولت قدرومنزلت میسر ہے تو کسی بلند پہاڑ پر اپنا گھونسلا یعنی آشیانہ بنا ۔
آشیانے برق و تندر در برے از کنام جرہ بازان برترے
مطلب: ایسا آشیانہ جس کے آغوش میں بجلی اور گرج ہو ، جو نر بازوں کے آشیانے سے بھی کہیں اونچا اور برتر ہو ۔
تا شوی در خورد پیکار حیات جسم و جانت سوزد از نار حیات
مطلب: تاکہ تو زندگی کی جدوجہد کے قابل ہو، تیری جان اور تیرا جسم زندگی کی آگ سے تپش پذیر ہو (آتش حیات کی حرارت پیدا ہو ) ۔