غزل نمبر۴۵
بتان تازہ تراشیدہ ئی دریغ از تو درون خویش نہ کاویدہ ئی دریغ از تو
مطلب: تو نے نئے نئے بت تراش لیے تجھ پر افسوس ہے ۔ اپنا اندر نہ کریدا حیف ہے تجھ پر ۔
چنان گداختہ ئی از حرارت افرنگ ز چشم خویش تراویدہ ئی دریغ از تو
مطلب: تو فرنگ کی حرارت سے ایسا پگھلا اپنی آنکھ سے آنسو بن کر ٹپک پڑا ۔ وائے ہو تجھ پر (خود اپنی نظر میں گرگیا) احساس کمتری کا شکار ہو چکا ہے ۔
بکوچہ ئی کہ دہد خاک را بہاے بلند بہ نیم غمزہ نیز زیدہ ئی دریغ از تو
مطلب: اس کوچے (فرنگ) میں جہاں مٹی بھی او نچا مول پاتی ہے تو آدھی جھلک کے بھی لائق نہ ٹھہرا ۔
گرفتم این کہ کتاب خرد فرد خواندی حدیث شوق نہ فہمیدہ دریغ از تو
مطلب: میں نے یہ مانا کہ تو عقل کی ساری کتاب پڑھ چکا ہے (تو نے انگریزوں کے قائم کردہ کالجوں میں فلسفہ اور سائنس کا بہت مطالعہ کیا ہے) ۔ لیکن عشق کی بات تو نے نہ سمجھی (تو نے عشق رسول کا فلسفہ بالکل نہیں سمجھا ) تجھ پر افسوس ہے ۔
طواف کعبہ زدی گرد دیر گردیدی نگہ بخویش نہ پیچیدہ ئی دریغ از تو
مطلب: تو نے کعبے کا طواف کیا مندر کے پھیرے لگائے مگر اپنی طرف نگاہ نہ کی افسوس تجھ پر (تو نے کبھی اپنی خودی کی تربیت کی طرف توجہ نہ کی ۔ اے مسلمان تو نے کعبہ کا طواف بھی کیا اور واپس آ کر پھر انگریز کی چوکھٹ پر سر جھکا دیا تو ساری عمر اندھا ہی رہا) ۔