حکایت طایری کہ از تشنگی بیتاب بود
(اس پرندے کی کہانی جسے پیاس نے بے قرار کر رکھا تھا)
طایری از تشنگی بیتاب بود در تن او دم مثال موج دود
مطلب : ایک پرندہ پیاس سے نڈھال اور بے قرار تھا، سانس اس کے جسم میں لہر کی مانند چل رہا تھا(وہ ہانپ رہا تھا) ۔
ریزہ ی الماس در گلزار دید تشنگی نظارہ ی آب آفرید
مطلب: اس نے باغ میں ہیرے کی ایک کنی دیکھی، پیاس کے سبب اسے وہ پانی دکھائی دی ۔
از فریب ریزہ ی خورشید تاب مرغ نادان سنگ را پنداشت آب
مطلب: سورج کی مانند چمکنے والے اس ٹکڑے کے دھوکے میں اس کم عقل پرندے نے پتھر کے ریزے کو پانی سمجھ لیا ۔
مایہ اندوز نم از گوہر نشد زد برو منقار و کامش تر نشد
مطلب: اسے اس ٹکڑے سے ذرا سی بھی نمی حاصل نہ ہو سکی، اس نے اس پر چونچ ماری لیکن اس کا حلق تر نہ ہوا ۔
گفت الماس ای گرفتار ہوس تیز بر من کردہ منقار ہوس
مطلب: ہیرے کی اس کنی نے اس پرندے سے کہا اے حرص اور لالچ میں گرفتار پرندے تو نے مجھ پر حرص کی چونچ تیز کی ہے ۔
قطرہ ی آبی نیم ساقی نیم من برای دیگران باقی نیم
مطلب: میں نہ تو پانی کا کوئی قطرہ ہوں اور نہ ساقی ہی ہوں ، میں دوسروں کے لیے زندہ نہیں ہوں ( میں اس لیے زندہ نہیں کہ دوسرے مجھے ہضم کر جائیں ۔ ) ۔
قصد آزارم کنی دیوانہ ئی از حیات خودنما بیگانہ ئی
مطلب: مجھے دکھ دینے کا ارادہ کر رہا ہے کیا تو پاگل ہو گیا ہے ۔ تو اپنی خودی کو ظاہر کرنے والی زندگی سے نا آشنا ہے ۔
آب من منقار مرغان بشکند آدمی را گوہر جان بشکند
مطلب: میرا پانی (چمک) پرندوں کی چونچ توڑ ڈالتا ہے ۔ انسان کی جان کا موتی توڑ ڈالتا ہے(اگر آدمی کھا لے تو مرجاتا ہے) ۔
طایر از الماس کام دل نیافت روی خویش از ریزہ ی تابندہ تافت
مطلب: ہیرے سے پرندے کا دلی مقصد پورا نہ ہوا ۔ چنانچہ وہ اس چمکتے ہوئے ریزے سے اپنا منہ پھیر لینے پر مجبور ہوا (توجہ ہٹا لی) ۔
حسرت اندر سینہ اش آباد گشت در گلوی او نوا فریاد گشت
مطلب: اس کے سینے میں حسرت نے ڈیرا جمال لیا، اس کے گلے میں آواز، فریاد کی صورت اختیار کر گئی ۔
قطرہ ی شبنم سر شاخ گلی تافت مثل اشک چشم بلبلی
مطلب: کسی پھول کی ٹہنی پر شبنم کا ایک قطرہ کسی بلبل کے آنسو کی طرح چمک رہا تھا ۔
تاب او محو سپاس آفتاب لرزہ بر تن از ہراس آفتاب
مطلب: اس کی چمک سورج کا شکریہ ادا کرنے میں کھوئی ہوئی تھی(اس کی چمک اس پر دھوپ پڑنے کے سبب تھی) ۔ سورج کے خوف سے اس کا بدن کانپ رہا تھا ۔
کوکب رم خوی گردون زادہ ئی یکدم از ذوق نمود استادہ ئی
مطلب: سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک ستارہ تھا جس کی فطرت ہی نقل و حرکت تھی آسمان پر پیدا ہوا ۔ اور اپنی نمود کی لذت میں دم بھرنے کے لیے ٹھہر گئی۔
صد فریب از غنچہ و گل خوردہ ئی بہرہ ئی از زندگی نابردہ ئی
مطلب: ایک ایسا قطرہ جس نے غنچہ و گل سے سینکڑوں فریب اور دھوکے کھائے ۔ جس نے زندگی سے کچھ حاصل نہ کیا ہو ۔
مثل اشک عاشق دلدادہ ئی زیب مژگانی چکید آمادہ ئی
مطلب: (وہ قطرہ ایسا تھا جیسے) کسی دل دینے والے عاشق کا آنسو جو کسی پلک پر سجا ہو اور ٹپکنے ہی والا ہو ۔
مرغ مضطر زیر شاخ گل رسید در دہانش قطرہ ی شبنم چکید
مطلب: وہ پیاس سے بے تاب اور بے قرار پرندہ پھول کی ٹہنی کے نیچے پہنچ گیا ۔ شبنم کا وہ قطرہ اس کے منہ میں ٹپک پڑا ۔
ای کہ می خواہی ز دشمن جان بری از تو پرسم قطرہ ئی یا گوہری
مطلب: اے مخاطب! تو جو اس بات کا خواہاں ہے کہ دشمن سے اپنی جان بچا لے میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ تو قطرہ ہے یا موتی
چون ز سوز تشنگی طایر گداخت از حیات دیگری سرمایہ ساخت
مطلب: جب پرندہ پیاس کی شدت سے گھلا جا رہا تھ (ہانپ رہا تھا) تو اس نے کسی دوسرے کی زندگی سے اپنی زندگی بچانے کا ذریعہ بنا لیا ۔
قطرہ سخت اندام و گوہر خو نبود ریزہ ی الماس بود و او نبود
مطلب: شبنم کا قطرہ ٹھوس جسم اور موتی کی سی فطرت والا نہ تھا ۔ وہ تو ہیرے کی کنی ایسی (ٹھوس) تھی، وہ قطرہ ایسا نہ تھا ۔
غافل از حفظ خودی یک دم مشو ریزہ ی الماس شو شبنم مشو
مطلب: شاعر کہتا ہے تواپنی خودی کی حفاظت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہو ۔ ہیرے کی کنی بن جا، شبنم کا قطرہ نہ بن ۔
پختہ فطرت صورت کہسار باش حامل صد ابر دریا بار باش
مطلب: پہاڑ کی مانند مضبوط بنیاد والا بن جا، ایسا بن جا کہ سینکڑوں بادل آغوش میں لے لے جن سے دریا برستے ہیں ۔
خویش را دریاب ایجاب خویش سیم شو از بستن سیماب خویش
مطلب: اپنی ذات کو تسلیم کر کے (یعنی اس کا اقرار کر کے) اپنے آپ کو پا لے ۔ اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جا، اپنے پارے کو منجمد کر کے چاندی بن جا ۔
نغمہ ئی پیدا کن از تار خودی آشکارا ساز اسرار خودی
مطلب: خودی کے ساز پر کوئی نغمہ چھیڑ(اس طرح) خودی کے بھید سب پر آشکار کر دے ۔