قطرہ آب
پانی کی بوند
مرا معنی تازہ ئی مدعاست اگر گفتہ را باز گویم رواست
مطلب: مجھے ایک نئے معنی سے مطلب ہے (میرا مدعا نئے معنی پیدا کرتا ہے) ۔ اگر کہے ہوئے کو دہراؤں تو بھی جائز ہے ۔
یکی قطرہ باران ز ابری چکید خجل شد چو پہنای دریا بدید
مطلب: بارش کا ایک قطرہ بادل سے ٹپکا دریا کی وسعت کو دیکھ کر وہ شرما گیا ۔
کہ جائی کہ دریاست من کیستم گر او ہست حقا کہ من نیستم
مطلب: (کہنے لگا) کہ جہاں دریا ہو وہاں میں کیا ہوں (میری کیا ہستی ہے) ۔ اگر وہ ہے تو خدا کی قسم میں نہیں ہوں ۔
ولیکن ز دریا برآمد خروش ز شرم تنک مایگی رو مپوش
مطلب: لیکن دریا سے شور اٹھا (آواز آئی) بے سروسامانی کی شرم سے منہ مت چھپا (شرمسار نہ ہو) ۔
تماشای شام و سحر دیدہ ئی چمن دیدہ ئی، دشت و در دیدہ ئی
مطلب: تو نے شام و سحر کا تماشا دیکھا ہے ۔ باغ دیکھا ہے جنگل اور گھاٹی دیکھ رکھے ہیں ۔
بہ برگ گیاہی، بدوش سحاب درخشیدی از پرتو آفتاب
مطلب: گھاس کی پتی پر بادل کے دوش پر تو سورج کی کرن سے جگمگا (چمکا) ہے ۔
گہی ہمدم تشنہ کامان راغ گہے محرم سینہ چاکان باغ
مطلب: کبھی تو صحرا میں پیاس کے ماروں کا ساتھ بنا ۔ کبھی چمن کے سینہ چاکوں کا راز دار بنا ۔
گہی خفتہ در تاک و طاقت گداز گہی خفتہ در خاک و بی سوز و ساز
مطلب: کبھی تو انگور کی بیل میں سویا ہوا اور دم خم توڑ دینے والا بنا (انگور سے جو شراب بنتی ہے وہ عقل کو زائل کر تی ہے) کبھی تو مٹی میں سویا ہوا ہوتا ہے اورر سوزو ساز سے خالی ہوتا ہے ۔
ز موج سبک سیر من زادہ ئی ز من زادہ ئی در من افتادہ ئی
مطلب: تو میری تیز رفتار موج سے پیدا ہوا، مجھ سے جنم لیا اور مجھی میں آن گرا ۔
بیاسای در خلوت سینہ ام چو جوہر درخش اندر آئینہ ام
مطلب: میری چھاتی کی خلوت میں آرام کر، میرے آئینے میں جوہر کی طرح چمک ۔
گہر شو در آغوش قلزم بزی فروزان تر از ماہ و انجم بزی
مطلب: موتی بن کر دریا کے آغوش میں رہ ، چاند اور ستاروں سے زیادہ چمکتے ہوئے زندگی گزار۔