تسخیر فطرت
میلاد آدم
نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزہ کہ صاحب نظری پیدا شد
مطلب: عشق نے نعرہ لگایا کہ ایک خوش جگر پیدا ہو گیا ۔ حسن لرز اٹھا کہ ایک صاحب نظر آ گیا ۔
فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گری خود شکنی خود نگری پیدا شد
مطلب: فطرت گھبرائی کہ جبر کی ماری دنیا کی خا ک سے خود کو بنانے ، خود کو توڑنے خود کو جاننے والا پیدا ہو گیا ۔ خود کو بنانے والا مظہر صفات الہیہ پیدا کر کے نائب خدا اور خلیفتہ الارض ہونے کے اعتبار سے اور خود کو توڑنے والا اپنے اندر کے بت خانہ نفس کو توڑنے کے لحاظ سے اور خود کو دیکھنے والا اپنی معرفت حاصل کرنے کے پس منظر میں ۔
خبری رفت ز گردون بہ شبستان ازل حذر ای پردگیان پردہ دری پیدا شد
مطلب: آسمان سے ازل کی خلوت گاہ میں خبر پہنچی ۔ اے پردہ نشینوں ! ہوشیار ہو جاوَ پردہ اٹھانے والا آ گیا ۔
آرزو بیخبر از خویش بآغوش حیات چشم وا کرد و جہان دگری پیدا شد
مطلب: آرزو زندگی کی آغوش میں اپنی سدھ بدھ بھولی ہوئی تھی اس نے آنکھ کھولی اور ایک اور ہی عالم پیدا ہو گیا ۔
زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازین گنبد دیرینہ دری پیدا شد
مطلب: زندگی نے کہا کہ میں تمام عمر خاک میں تڑپتی رہی تب کہیں جا کر اس پرانے گنبد سے ایک دروازہ نکلا ۔ نوٹ: زندگی مختلف شکلوں میں پہلے بھی تھی لیکن آدم نے اسے شعوری طور پر ظہور کیا ۔ زندگی کو پہلی بار اپنا شعور ملا ۔
انکار ابلیس
نوری نادان نیم، سجدہ بہ آدم برم او بہ نہاد است خاک، من بہ نژاد آذرم
مطلب: میں نادان فرشتہ نہیں کہ آدم کو سجدہ کروں وہ اصلاً خاک ہے اور میں آگ سے ہوں ۔
می تپد از سوز من، خون رگ کائنات من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم
مطلب: میری حرارت سے کائنات کی رگوں میں لہو جوش مارتا ہے ۔ آندھی کے تند جھکڑوں کے پیچھے میں ہوں ۔ بجلی کی کڑک بادلوں کی گرج کے پیچھے میں ہوں ۔ مراد ہے اگر میں آدم کو نہ بہکاتا تو آدم سوائے اللہ اللہ پکارنے کے اور کیا کرتا ۔ یہ سارے ہنگامے جن سے کائنات میں رونق ہے آد م کو عطا کردہ مرے افکار جذبات کی وجہ سے ہی ہے ۔
رابطہ ی سالمات ، ضابطہ امہات سوزم و سازی دہم آتش مینا گرم
مطلب: سالمات کے درمیان تال میل (مجھ سے ہے) عناصر میں کارفرما قانون (میری بدولت ہے) ۔ جلاتا ہوں اور بناتا ہوں ۔ میں آگ ہوں شیشہ ڈھالنے والی ۔
ساختہ ی خویش را در شکنم ریز ریز تا ز غبار کہن پیکر نو آورم
مطلب: اپنے ہی بنائے ہوئے کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہوں تا کہ پرانی مٹی سے نیا پیکر تراشوں (کائنات میں جتنا بھی حسن، دلکشی، ہنگامہ اور لذت ہے وہ میری وجہ سے ہے) ۔
از زو من موجہ ی چرخ سکون ناپذیر نقش گر روزگار ، تاب و تب جوہرم
مطلب: کہیں ٹھہراوَ نہ پکڑنے والا آسمان میرے دریا کی ایک لہر یا موج ہے ۔ میں زمانے کے نقوش بناتا ہوں ۔ میں اسکے جوہر کو تب و تاب عطا کرتا ہوں ۔
پیکر انجم ز تو گردش انجم ز من جان بجہان اندرم، زندگی مضمرم
مطلب: ستاروں کی گردش مجھ سے ہے ۔ میں کائنات کے اندر جان بن کر سمایا ہوا ہوں ۔ میں ہر شے میں چھپی ہوئی زندگی ہوں ۔
تو بہ بدن جان دہی شور بجان من دہم تو بہ سکون رہ زنی من بہ تپش رہبرم
مطلب: تو بدن کو جان دیتا ہے ۔ میں جان میں شور (ہلچل پیدا کرتا ہوں ) ۔ تو سکون کی طرف بے راہ کرتا ہے میں تڑپ اور حرارت دے کر اس کی راہبری کرتا ہوں ۔
من ز تنک مایگان گدیہ نکردم سجود قاہر بی دوزخم داور بی محشرم
مطلب: میں ان کم ظرفوں (فرشتوں ) سے سجدوں کی گدائی نہیں کرتا ۔ میں قاہر ہوں مگر بغیر دوزخ کے ، میں منصف ہوں مگر بغیر محشر کے (ابلیس نے اللہ تعالیٰ پر طنز کی ہے) ۔
آدم خاکی نہاد دون نظر و کم سواد زاد در آغوش تو پیر شود در برم
مطلب: خاک زاد آدم، کم نظر اور جاہل ہے (اس میں پہچان کی عقل نہیں ہے) ۔ تیری آغوش میں پیدا ہوا مگر بوڑھا میری گود میں ہوتا ہے(مراد ساری عمر میرے اشارے پر چلتا ہے) ۔
اغوای آدم (اغوائے آدم ،بہشت سے)
زندگی سوز و ساز ، بہ ز سکون دوام فاختہ شاہین شود، از تپش زیر دام
مطلب: دکھ سکھ سے بھری ہوئی رواں دواں زندگی ہمیشہ کے سکون (ٹھہراوَ) سے بہتر ہے ۔ جال میں تڑپنے پھڑکنے سے فاختہ بھی جدوجہد کی حرارت کی وجہ سے شاہین بن جاتی ہے ۔
ہیچ نیاید ز تو، غیر سجود نیاز خیز چو سرو بلند ای بعمل نرم گام
مطلب: یہاں جنت میں سوائے نیاز مندانہ سجدوں کے تجھ سے اور کچھ بن نہیں پڑتا ۔ اے سست عمل سروبلند کی طرح اٹھ کھڑا ہو (اور عمل اختیار کر) ۔
کوثر و تسنیم برد، از تو نشاط عمل گیر ز مینای تاک بادہ ی آئینہ فام
مطلب: کوثر و تسنیم نے تجھ سے سرگرم عمل ہونے کا لطف ختم کر دیا ہے ۔ اٹھ اور انگور کی صراحی سے آئینے کی طرح شفاف شراب حاصل کر ۔
زشت و نکو زادہ ی وہم خداوند تست لذت کردار گیر، گام بنہ ، جوی کام
مطلب: نیکی اور بدی تیرے خداوند کے وہم کی پیداوار ہے ۔ عمل کے مزے لوٹ، قدم بڑھا،اپنی مراد پا لے ۔
خیز کہ بنمایمت مملکت تازہ ئی چشم جہان بین گشا بہر تماشا خرام
مطلب: اٹھ کہ میں تجھے ایک نئی سلطنت دکھاؤں ۔ دنیا کو دیکھنے والی آنکھ کھول اور اس کے نظاروں میں سیر کر ۔
قطرہ ی بی مایہ ئی، گوہر تابندہ شو از سر گردون بیفت، گیر بدریا مقام
مطلب: تو (ابھی) ایک بے قیمت قطرہ ہے ۔ چمکدار موتی بن جا ۔ آسمان (بہشت) پر سے اتر، سمندر میں ٹھکانا پکڑ (قطرہ دریا میں گر کر موتی بن جاتا ہے) ۔
تیغ درخشندہ ئی ، جان جہانی گسل جوہر خود را نما آی برون از نیام
مطلب: تو چمکتی ہوئی تلوار ہے دنیا کا جی دھلا دے ۔ اپنا جوہر دکھا نیام سے باہر نکل ۔
بازوی شاہین گشا، خون تذروان بریز مرگ بود باز را ، زیستن اندر کنام
مطلب: شاہین کی طرح بازو کھول چکوروں کا لہو بہا دے ۔ گھونسلے میں بیٹھ رہنا باز کے لیے موت ہے (زندگی نہیں ہے) ۔
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیات دوام دوختن ناتمام
مطلب: تو ابھی نہیں جانتا وصال سے شوق مردہ ہو جاتا ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی کیا ہے (ہجر کی آگ) جلتے بلکہ سلگتے رہنا ۔ نوٹ: یہاں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ابلیس کا کام تو بہکانہ اور ورغلانا ہے پھرا س نے آدم پر اس صداقت کو کیوں ظاہر کیا اس کا جواب یہ ہے کہ راست گوئی کے بغیر ابلیس اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا اس لیے اس نے آدم کو بہکانے کے لیے فلسفیانہ قسم کا سچ بول دیا ۔
آدم از بہشت بیروں آمدہ می گوید(آدم جنت سے نکل کر کہتا ہے) ۔
چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمی گداز کردن
مطلب: ساری زندگی کو سوز و ساز بنا لینا اچھا ہے ۔ پہاڑ اور میدان اور جنگل کا دل ایک لمحہ میں پگھلا دینا کتنا اچھا ہے ۔
ز قفس دری گشادن بہ فضای گلستانی رہ آسمان نوردن بہ ستارہ راز کردن
مطلب: گلستان کے بہار بھرے پھیلاوَ کی طرف قفس کا دروازہ کھولنا (قید سے رہائی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا کتنا اچھا ہے) ۔ آسمان کا راستہ طے کرنا ستاروں سے رازو نیاز کی باتیں کرنا (کتنا اچھا ہے) ۔
بگداز ھای پنہان، بہ نیاز ہای پیدا نظری ادا شناسی بحریم ناز کردن
مطلب: چھپے ہوئے گداز کے ساتھ، کھلی ہوئی بندگی کے ساتھ بے نیازی کی بارگاہ میں ایک ادا شناس نگاہ کرنا ۔
گہی جز یکی ندیدن ، بہ ہجوم لالہ زاری گہی خار نیش زن را ز گل امتیاز کردن
مطلب: کبھی باغ کے رنگارنگ ہجوم میں سوائے وحدت کے ا ور کچھ نہ دیکھنا کبھی چبھنے والے کانٹے کو (نرم) پھول سے الگ جاننا (امتیاز کرنا) ۔
ہمہ سوز ناتمامم ہمہ درد آرزویم بگمان دہم یقین را کہ شہید جستجویم
مطلب: میں سارے کا سارا (سر تا پا) ناتمام ہوں ، درد آرزو ہوں ۔ میں یقین دے کر گمان لیتا ہوں کیونکہ میں جستجو پر جان دیتا ہوں ۔
قیامت کی صبح (آدم اللہ تعالیٰ کے حضور میں )
ای کہ ز خورشید تو کوکب جان مستنیر از دلم افروختی شمع جہان ضریر
مطلب: اے باری تعالیٰ تیرے سورج سے ہماری روح کا ستارہ منور ہے ۔ میرے دل سے تو نے گھپ اندھیری دنیا کا چراغ روشن کیا ۔
ریخت ہنرہای من بحر بیک نای آب تیشہ ی من آورد از جگر خارہ شیر
مطلب: میرے ہنر نے دریا کو ایک نہر میں ڈال دیا ۔ میرا تیشہ پتھر کے جگر سے دودھ نکال لایا (پہاڑ سے دودھ کی نہر نکالی) ۔
زہرہ گرفتار من، ماہ پرستار من عقل کلان کار من بہر جہان دار و گیر
مطلب: زہرہ میرا گرفتار، چاند میرا پرستار ہے ۔ بڑے بڑے معرکے مارنے والی میری عقل کائنات کی فاتح ہے ۔
من بہ زمین در شدم، من بفلک بر شدم بستہ ی جادوی من ذرہ و مہر منیر
مطلب: میں زمین کی تہہ میں اترا، میں آسمان کے اوپر چڑھا ۔ ذرے سے لے کر چمکتے ہوئے سورج تک سبھی میرے جادو میں گرفتار ہیں ۔
گرچہ فسونش مرا برد ز راہ صواب از غلطم در گذر عذر گناہم پذیر
مطلب: گو کہ اس (شیطان) کے جادو نے مجھے سیدھے راستے سے بھٹکا دیا تو میری خطا بخش دے میرا عذر گناہ قبول کر لے ۔
رام نگردد جہان تا نہ فسونش خوریم جز بکمند نیاز ناز نگردد اسیر
مطلب: جب تک اس کا فریب نہ کھایا جائے یہ دنیا رام نہیں ہوتی عاجزی کے پھندے کے بغیر حسن مغرور قابو میں نہیں آتا ۔
تا شود از آہ گرم این بت سنگین گداز بستن زنار او بود مرا ناگزیر
مطلب: کیونکہ یہ پتھریلا بت آہ گرم سے پگھل جاتا ہے ۔ (لہذا) میرے لیے اس کی زنار گلے میں ڈالنا ضروری تھا ۔
عقل بدام آورد فطرت چالاک را اہرمن شعلہ زاد سجدہ کند خاک را
مطلب: میری عقل ابلیس کی فطرت چالاک کو اپنے دام میں لے آئی ۔ (پھر) ناری شیطان نے خاک کو سجدہ کیا ۔