رکن اول: توحید
در جہان کیف و کم گردید عقل پی بہ منزل برد از توحید عقل
مطلب: عقل اس مادی دنیا میں حیران و سرگردان پھرتی رہی (اور اس نے ہر طرف چکر لگائے) ۔ صرف توحید کے ذریعے سے اس کے لیے منزل پر پہنچنے کا بندوبست ہوا ۔
ورنہ این بیچارہ را منزل کجاست کشتی ادراک را ساحل کجاست
مطلب: اگر توحید کی روشنی نہ ملتی تو مسکین عقل منزل پر کیوں کر پہنچ سکتی فہم و دریافت کی کشتی کو ساحل کیونکر میسر آتا
اہل حق را رمز توحید ازبر است در اتی الرحمن عبدا مضمر است
مطلب: اہل حق توحید کی رمز کے ہر پہلو سے آگاہ ہیں ۔ یہ رمز سورہ مریم کی اس آیت نمبر 93 سے واضح ہے جس کے آخری الی الرحمٰن عبدا آتا ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے اشارہ ہے ترجمہ: آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اسی لیے ہے کہ اس کے آگے بندگی کا سر جھکائے حاضر ہو گا۔
تا ز اسرار تو بنماید ترا امتحانش از عمل باید ترا
مطلب: تو توحید کے بھیدوں سے اس وقت تک پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکتا جب تک عمل کے ذریعے اس کی آزمائش نہ کر لے(یعنی محض زبان سے اللہ کو ایک کہہ دینا کافی نہیں ، توحید پر عمل پیرا ہو اور اس کا امتحان کر) ۔
دین ازو حکمت ازو آئین ازو زور ازو قوت ازو تمکین ازو
مطلب: دین توحید سے ہے، عقل توحید سے ہے، شریعت توحید سے ہے ، زور و قوت اور اثبات و استحکام توحید سے ہے ۔
عالمان را جلوہ اش حیرت دہد عاشقان را بر عمل قدرت دہد
مطلب : توحید کی جلوہ افروزی عالموں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ عاشقوں کو عمل کی قوت و قدرت عطا کرتی ہے ۔
پست اندر سایہ اش گردد بلند خاک چون اکسیر گردد ارجمند
مطلب: جو شے رتبے میں پست ہے وہ توحید کے سایے میں پہنچتے ہی بلند ہو جاتی ہے ۔ بے حقیقت مٹی توحید کی بدولت اپنے اندر اکسیر کی قدروقیمت پیدا کر لیتی ہے ۔
قدرت او بر گزیند بندہ را نوع دیگر آفریند بندہ را
مطلب: توحید کی قوت انسان کو بلندی پر پہنچا دیتی ہے اور اس میں نئی طرح کی زندگی پیدا کر دیتی ہے ۔
در رہ حق تیز تر گردد تکش گرم تر از برق خون اندر رگش
مطلب: خدا کی راہ میں صاحب توحید کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے، اس کی رگوں میں جو خون ہے وہ بجلی سے بھی زیادہ گرم ہو جاتا ہے (ایسا انسان باطل قوتوں سے بے خوف ہو جاتا ہے ) ۔
بیم و شک میرد عمل گیرد حیات چشم می بیند ضمیر کائنات
مطلب: خوف اور شک اس کے دل سے نکل جاتے ہیں ، عمل کا جوش اور ولولہ زندہ ہو جاتا ہے ۔ آنکھ کائنات کے چھپے ہوئے حقائق دیکھنے لگتی ہے ۔
چون مقام عبدہ محکم شود کاسہ ی دریوزہ جام جم شود
مطلب: جب خدا کا بندہ عبدہ کے مقام پر جم کر بیٹھ جاتا ہے تو بھیک کا کاسہ جام جم کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
ملت بیضا تن و جان لا الہ ساز ما را پردہ گردان لا الہ
مطلب: ملت بیضا جسم ہے اور اس کی جان کلمہ توحید لا الہ ہے ۔ سارے ساز کے پردوں سے نغمے صرف توحید کی بدولت نکل رہے ہیں ۔
لا الہ سرمای ی اسرار ما رشتہ اش شیرازہ ی افکار ما
مطلب: توحید (لا الہ) ہمارے تمام بھیدوں کا سرمایہ ہے ۔ توحید کا رشتہ ہمارے افکار و خیالات کے لیے شیرازے کا کام دیتا ہے ۔
حرفش از لب چون بدل آید ہمی زندگی را قوت افزاید ہمی
مطلب: جب لا الہ کا حرف لبوں سے گزرتا ہوادل میں اترتا ہے تو زندگی کی قوت بڑھا دیتا ہے ۔
نقش او گر سنگ گیرد دل شود دل گر از یادش نسوزد گل شود
مطلب: اگر پتھر لا الہ کا نقش قبول کر لے تو وہ دل بن جائے ۔ اگر دل لا الہ کی یاد سے حرارت حاصل نہ کرے تو وہ مٹی کی مانند حقیر ، ہیچ اور بے قیمت رہ جاتا ہے ۔
چون دل از سوز غمش افروختیم خرمن امکان ز آہی سوختیم
مطلب: ہم نے جب توحید کے غم میں دل کی آگ بھڑکائی تو اس دنیا کے خرمن کو ایک آہ سے جلا دیا ۔
آب دلہا درمیان سینہ ہا سوز او بگداخت این آئینہ ہا
مطلب: ہمارے سینوں میں دل پانی پانی ہو گئے ۔ توحید کی حرارت نے ان آئینوں کو پگھلا دیا ۔
شعلہ اش چون لالہ در رگہای ما نیست غیر از داغ او کالای ما
مطلب: لالہ کے پھول کی طرح توحید کا شعلہ ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے ۔ اس داغ کے سوا دنیا میں ہمارا کوئی سروسامان نہیں (یعنی ہمارا کل سرمایہ توحید ہے اور بس ) ۔
اسود از توحید احمر می شود خویش فاروق و ابوذر می شود
مطلب: توحید کی برکت سے سیاہ رنگ کا آدمی سرخ رنگ کے آدمی کا ہمسر بن جاتا ہے ۔ حضرت عمر فاروق اور حضرت ابوذر غفاری جیسے یگانہ بزرگان ملت سے رشتہ خویشی پیدا کر لیتا ہے ۔ (یہاں حضرت بلال کی مثال پیش کر دینا کافی ہے اگرچہ وہ حبشی تھے لیکن اسلام کی برکت نے انہیں وہ رتبہ عطا کیا کہ حضرت عمر فاروق انہیں سردار کہہ کر پکارتے تھے ۔ )
دل مقام خویشی و بیگانگی است شوق را مستی ز ہم پیمانگی است
مطلب: دل خویشی اور بیگانگی کا مقام ہے ۔ شوق کا تقاضا یہ ہے کہ اکٹھے بیٹھ کر پئیں اور مستی طاری ہو ۔
ملت از یک رنگی دلہاستی روشن از یک جلوہ این سیناستی
مطلب: ہماری ملت کی بنیاد دلوں کی یک رنگی پر قائم ہے اور تمام افراد قوم کے دلوں کا مقصد و مدعا ایک ہو ۔
قوم را اندیشہ ہا باید یکی در ضمیرش مدعا باید یکی
مطلب: قوم کا اندیشہ و فکر ایک ہو اور تمام افراد قوم کے دلوں کا مقصد و مدعا ایک ہو ۔
جذبہ باید در سرشت او یکی ہم عیار خوب و زشت او یکی
مطلب: قوم کی فطرت میں ایک ہی جذبہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے اچھائی برائی کا پیمانہ بھی ایک ہی لازم ہے ۔
گر نباشد سوز حق در ساز فکر نیست ممکن این چنین انداز فکر
مطلب: جب تک فکر کے ساز میں حق کا سوز موجود نہ ہو ، سوچنے کا انداز ہی پیدا نہیں ہو سکتا ( مراد یہ ہے کہ حق کی تڑپ سے قوم میں فکری اور عملی وحدت پیدا کی جا سکتی ہے اور دل کی تڑپ صرف توحید سے ہی پیدا ہو سکتی ہے ) ۔
ما مسلمانیم و اولاد خلیل از ابیکم گیر اگر خواہی دلیل
مطلب: ہم مسلمان ہیں اور حضرت ابراہیم خلیل کی اولاد ہیں ۔ اگر تجھے اس بارے میں کسی دلیل کی ضرورت ہے تو ابیکم پڑھ لے ۔ تو دیکھ، قرآن مجید نے حضرت ابراہیم کو ہمارا باپ کہا ہے ۔
با وطن وابستہ تقدیر امم بر نسب بنیاد تعمیر امم
مطلب: دنیا میں جتنی قو میں ہیں ان کی تقدیریں وطن سے وابستہ ہیں ۔ جغرافیائی حلقے کو اپنا وطن بنایا ہوا ہے یا قوموں نے نسب کی بنیاد پر اپنی تنظیم کا بندوبست کیا ہے (رنگ و نسل پر ان کی بنیاد ہے ) ۔
اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ
مطلب: بھلا وطن کو قوم کی بنیاد قرار دینا کیا مطلب ہے لغویت ہے ۔ کیا انسان کے لیے پانی، مٹی اور ہوا کی پرستش زیبا ہے
بر نسب نازان شدن نادانی است حکم او اندر تن و تن فانی است
مطلب: نسب پر فخر کرنا سراسر حماقت ہے ۔ نسب کی کارفرمائی صرف بدن تک محدود ہے اور بدن مرنے کے بعد فنا ہو جاتا ہے ۔
ملت ما را اساس دیگر است این اساس اندر دل ما مضمر است
مطلب: ہماری قوم کی بنیاد دوسری ہے، یہ بنیاد ہمارے دلوں میں پیوست ہے ۔
حاضریم و دل بغایب بستہ ایم پس ز بند این و آن وارستہ ایم
مطلب: ہم خود موجود ہیں لیکن ہمارے دل نے اس ذات پاک سے وابستگی پیدا کر لی ہے ۔ جو انسان کی گرفت سے بہت بلند ہے ۔ جسے قرآن کی اصلاح میں غائب کہا گیا ہے ۔ لہذا ہم ادھر ادھر کے تمام بندھنوں سے آزاد ہو گئے ۔
رشتہ ی این قوم مثل انجم است چون نگہ ہم از نگاہ ما گم است
مطلب: ہمارے افراد کو جو رشتہ ایک دوسرے سے وابستہ کئے ہوئے ہیں وہ ایسا ہی ہے جیسا تاروں کے درمیان قائم ہے ۔ وہ موجود ہے لیکن نگاہ کی طرح ہماری نگاہوں سے گم ہے ۔
تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما یک بین یک اندیشیم ما
مطلب: ہماری مثال ان تیروں کی سی ہے جن کے پیکان بڑے خوبصورت ہیں اور ہمارا ترکش ایک ہے ۔ ہم ایک نظر آتے ہیں ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور ایک طریق پر سوچتے ہیں ۔
مدعا ی ما مآل ما یکیست طرز و انداز خیال ما یکیست
مطلب: ہمارا مقصد ، ہمارا مقام رجوع اور ہمارا انداز خیال ایک ہے ۔
ما ز نعمتہای او اخوان شدیم یک زبان و یکدل و یکجان شدیم
مطلب: ہم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت رحمت بن کر نازل ہوئی اور اسکی بدولت ہم بھائی بھائی بن گئے ۔ ہماری زبانیں ایک ہو گئیں ، ہمارے دل ایک ہو گئے ، ہماری جانیں ایک ہوئیں ۔