حکمت فرنگ
مغرب کی دانائی
شنیدم کہ در پارس مرد گزین ادا فہم، رمز آشنا ، نکتہ بین
مطلب: میں نے سنا کہ فارس میں ایک برگزیدہ آدمی ادا فہم رمز آشنا نکتہ بیں تھا ۔
بسے سختی از جانکنی دید و مرد بر آشفت و جاں شکوہ لبریز برد
مطلب: اس نے مرنے سے پہلے جان کی بہت سختی دیکھی ۔ (اس لیے) وہ ناراضگی اور شکوہ سے لبریز جان لے کر یہاں سے رخصت ہوا ۔
بنالش درآمد بہ یزدان پاک کہ دارم دلے از اجل چاک چاک
مطلب: موت کے بعد یہ فریاد لیکر وہ خدائے پاک کی جناب میں دعویٰ دائر کیا کہ فرشتہ اجل کی سختی سے میرا دل پاش پاش ہو گیا ہے ۔
کمالے ندارد باین یک فنی نداند فن تازہ جان کنی
مطلب: وہ فرشتہ ایک ہی فن رکھنے کے باوجود کوئی مہارت نہیں رکھتا ۔ جان نکالنے کا نیا ہنر نہیں جانتا ۔
برد جان و ناپختہ در کار مرگ جہان نو شد و او ہمان کہنہ برگ
مطلب: وہ روح قبض کرتا ہے مگر (اب تک) اس کام میں کچا ہے ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر وہ ویسا ہی لکیر کا فقیر رہا ۔
فرنگ آفریند ہنرہا شگرف برانگیزد از قطرہ ئی بحر ژرف
مطلب: یورپ عجیب عجیب ہنر ایجاد کر رہا ہے ایک قطرے میں سے اتھاہ سمندر کھینچ لیتا ہے ۔
کشد گرد اندیشہ پرکار مرگ ہمہ حکمت او پرستار مرگ
مطلب: وہ فکر و خیال کے گرد موت کی پرکار گھماتا ہے اس کا سارا فلسفہ موت کا خدمتگار ہے ۔
رود چون نہنگ آبدوزش بہ یم ز طیارہ ی او ہوا خوردہ بم
مطلب : اس کی آبدوز سمندر کے اندر مگر مچھ کی طرح چلتی ہے اس کے ہوائی جہاز ہوا کے طمانچے کھاتے ہیں ۔
نہ بینی کہ چشم جہاں بین ہور ہمی گردد از غاز او روز کور
مطلب: کیا تو نہیں دیکھتا کہ سورج کی دنیا بھر کو دیکھنے والی آنکھ اس کی گیس سے اندھی ہو جاتی ہے ۔
تفنگش بکشتن چناں تیز دست کہ افرشتہ مرگ دارم گسست
مطلب: اس کی بندوق جان لینے میں ایسی تیزی دکھانے والی ہے کہ موت کے فرشتے کا دم ٹوٹ گیا (موت کا فرشتہ بھی دم بخود رہ جاتا ہے) ۔
فرست ایں کہن ابلہ را در فرنگ کہ گیرد فن کشتن بی درنگ
مطلب: اس بوڑھے بیوقوف کو یورپ بھیج دے تاکہ یہ جھٹ پٹ مارنے کا فن سیکھ جائے ۔ نوٹ : اس طنزیہ نظم میں اقبال نے واضح کیا ہے کہ اقوام مغرب نے انسان کو ہلاک کرنے کے لیے بہت سے نئے آلات ایجاد کئے ہیں ۔