زمزمہ انجم
(ستارے کا گیت)
عقل تو حاصل حیات عشق تو سر کائنات پیکر خاک خوش بیا این سوے عالم جہات
مطلب: تیری عقل زندگی کا حاصل ہے اور تیرا عشق کائنات کا راز ہے ۔ اے مٹی کے پیکر یعنی اے خاکی انسان (اقبال) تو اس عالم جہات سے اس طرف خوشی خوشی آ (اس طرف آنا تجھے مبارک ہو) ۔
زہرہ و ماہ و مشتری از تو رقیب یک دگر از پئے یک نگاہ تو کشمکش تجلیات
مطلب: زہرہ اور چاند اور مشتری تیری وجہ سے ایک دوسرے کے رقیب بن گئے ہیں ۔
در رہ دوست جلوہ ہاست تازہ بتازہ نو بنو صاحب شوق و آرزو دل نہ دہد بکلیات
مطلب: محبوب حقیقی کی راہ میں نت نئے اور تازہ جلوے ہیں ۔ جو کوئی صاحب شوق اور آرزو والا ہے وہ کلیات ہی کو دل نہیں دیتا یا اس سے ہی دل نہیں لگاتا ۔
صدق و صفاست زندگی، نشوونماست زندگی تا ابد از ازل بتاز ملک خداست زندگی
مطلب: زندگی صدق و صفا کا نام ہے ۔ زندگی نشوونما کا نام ہے ۔ تو ازل سے ابد تک گھوڑا دوڑا (تگ و تاز جاری رکھ) زندگی تیرے خدا کا ختم نہ ہونے والا ملک ہے ۔
شوق غزلسراے را رخصت ہاے و ہو بدہ باز بہ رند و محتسب بادہ سبو سبو بدہ
مطلب: تو اپنے غزل سرائی کے شوق کو ہائے و ہو (نالہ و فریاد کرنے) کی اجازت دے ۔ ایک بار پھر رند اور محتسب کو مٹکے بھر بھر کے شراب دے ۔
شام و عراق و ہند و پارس خوبہ نبات کردہ اند خوبہ نبات کردہ را تلخی آرزہ بدہ
مطلب : شام اور عراق اور ہند اور ایران کے مسلمان مصری شیرینی کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ان مصری کھانے کے عادیوں میں آرزو کی تلخی پیدا کر ۔ ان میں بڑھنے کا جذبہ پیدا کر ۔
تابہ یم بلند موج معرکہ بنا کند لذت سیل تند رو با دل آبجو بدہ
مطلب: اس خاطر کہ وہ بلند موجوں والے سمندر سے معرکہ آرائی کا آغاز کرے تو ندی کے دل کو تیز رفتار سیلاب کی لذت عطا کر ۔
مرد فقیر آتش است، میری و قیصری خس است فال و فر ملوک را حرف برہنہ بس است
مطلب: مردِ درویش، فقیر آدمی آگ ہے جبکہ امیری اور شہنشاہی تنکا ہیں ۔ بادشاہوں کی شان وشوکت کو مٹانے کے لیے حق و صداقت پر مبنی ایک صاف اور بے باک بات کافی ہے ۔
دبدبہ قلندری، طنطہ ی سکندری آں ہمہ جذبہ کلیم ایں ہمہ سحر سامری
مطلب: قلندری دبدبہ سارے کا سارا حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا جذبہ ہے ۔ جبکہ طنطنہ سکندری سراسر سحر سامری ہے ۔ (سامری کے جادو کا توڑ حضرت موسیٰ نے کیا تھا ۔ کلیمی یا قلندری صاحب بقا ہے جبکہ سکندری و سامریت کو فنا ہے ) ۔
ان بہ نگاہ می کشد، این بہ سپاہ می کشد آن ہمہ صلح و آشتی ، این ہمہ جنگ و دادری
مطلب: قلندر تو نگاہ سے مارتا ہے جبکہ بادشاہ فوج کے ذریعے قتل و غارت کرتا ہے ۔ یعنی قلندر اپنی نگاہِ فیض اثر سے دلوں پر قابو پا لیتا ہے ۔ اور یوں کسی قتل و غارت گری کے بغیر اور انسانوں کی آزادی چھینے بغیر انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے ۔
ہر دو جہاں کشاستند ہر دو دوام خواستند این بہ دلیل قاہری آن بہ دلیل دلبری
مطلب: یہ دونوں قلندر اور بادشاہ دنیا کو فتح کرتے ہیں اور دونوں بقا کے آرزومند ہیں دوام چاہتے ہیں ۔ بادشاہ تو قہر و غضب اور ظلم و ستم کی دلیل سے ایسا چاہتا ہے جبکہ قلندر دلبری کی دلیل سے ایسا کرتا ہے ۔
ضرب قلندری بیار، سد سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن رونق ساحری شکن