جواب ۔ دوسرا بند
فروغ دانش ما از قیاس است قیاس ما ز تقدیر حواس است
مطلب: ہماری دانش کی ترقی کا انحصار قیاس پر ہے ۔ اور ہمارا قیاس ہمارے حواس خمسہ کی بنیاد پر ہے ۔ قیاس کے نتاءج اکثر ناقابل اعتماد ہوتے ہیں ۔
چو حس دیگر شد این عالم دگر شد سکون و سیر و کیف و کم دگر شد
مطلب: جب حس بدل گئی تو جہان بدل گیا ۔ سکون، حرکت، کیفیت اور کمیت کی صورت بدل گئی ۔ اسی طرح قیاس بھی بدل جائے گا ۔
توان گفتن جہان رنگ و بو نیست زمین و آسمان و کاخ و کو نیست
مطلب: جب قیاس حواس خمسہ سے بدل جاتا ہے تو قیاس کے تحت ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ جہانِ رنگ و بو نہیں ہے ۔ اور یہاں کی زمین، آسمان، محل اور گلیاں نہیں ہیں ۔
توان گفتن کہ خوابے یا فسونے است حجاب چہرہ آن بے چگونے است
مطلب: پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جہاں خواب ہے یا فسوں ہے ۔ یہ بے مثل خدا کے چہرے کا پردہ ہیں ۔ جب وہ پردہ اٹھا دے گا تو کائنات ختم ہو جائے گی ۔ اس لیے کائنات ایک قیاس ہے وہم ہے یہاں دل لگانا فضول ہے ۔
توان گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است فریب پردہ ہاے چشم و گوش است
مطلب: یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سب کچھ ہوش و عقل کا شعبدہ ہے ۔ آنکھ اور آنکھ کے ہر دوروں کا فریب ہے ۔
خودی از کائنات رنگ و بو نیست حواس ما میان ما و او نیست
مطلب: لیکن خودی کا تعلق اس جہان رنگ و بو سے نہیں ۔ یہ اس سے ماورا کوئی چیز ہے ۔ خودی یہ بتاتی ہے کہ ہمارے حواس خمسہ ہمارے اورا س کائنات کے درمیان رکاوٹ نہیں ہیں ۔ خودی حواس پر انحصار نہیں کرتی ۔
نگہ را در حریمش نیست راہے کنی خود را تماشا بے نگاہے
مطلب: خودی کے گھر میں نگاہوں کی فریب کاری کا دخل نہیں ۔ کیونکہ نگاہ فریب کھا سکتی ہے لیکن خودی اپنا تماشا ظاہری نگاہ کے بغیر کرتی ہے ۔
حساب روزش از دور فلک نیست بخود بینی ظن و تخمین و شک نیست
مطلب: اس خودی کے دنوں کا شمار گردش فلک پر نہیں ۔ یہ اس گردش سے ماورا ہے اس کی خود بینی گمان، اندازہ اور شک کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ حقیقت پر مبنی ہے ۔
خلاصہ
اس بند میں کہا گیا ہے کہ قیاس میں ظن ، تخمین اور شک کا عمل دخل ہے کیونکہ اس کا تعلق حواس خمسہ سے ہے ۔ جبکہ خودی تخمین، ظن اور شک سے ماورا ہے ۔