غزل نمبر۱۳
خوش آنکہ رخت خرد را بہ شعلہ مے سوخت مثال لالہ متاعے ز آتشے اندوخت
مطلب: مبارک ہے وہ شخص جس نے عقل کے لابس کو شراب کے شعلے سے جلا دیا (عقل کو عشق کی آگ سے جلا دے یعنی عقل کے بجائے عشق کی پیروی کر) اور گل لالہ کی طرح آگ ہی کو اپنی پونجی بنا لیا ۔
تو ہم ز ساغر مے چہرہ را گلستان کن بہار، خرقہ فروشی بہ صوفیان آموخت
مطلب: تو بھی پیالہ شراب سے چہرے کو گلستان (سرخ) بنا ۔ بہار نے تو اللہ والوں (زاہدوں ) سے خرقے نیلام کروا دیئے (وہ خرقہ فروشی کر کے شراب حاصل کر رہے ہیں جب زاہدوں نے توبہ توڑ دی ہے تو بھی شراب پی کر اپنے چہرہ پر سرخی پیدا کر لے) ۔
دلم تپید ز محرومی فقیہہ حرم کہ پیر میکدہ جامے بفتویٰ نفروخت
مطلب: مفتی حرم کی محرومی پر میرا دل کڑھا (بہت جلا) کہ شراب خانے کے پیر نے اس کے فتویٰ کے عوض شراب کا پیالہ بھی نہ دیا ۔ (ارباب طریقت کی نظر میں فقہا کے فتاویٰ کی کوئی قدرومنزلیت نہیں کیونکہ یہ لوگ ارباب حکومت کو خوش کرنے کے لیے اور ان سے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں ۔
مسنج قدر سرود از نواے بے اثرم ز برق نغمہ توان حاصل سکندر سوخت
مطلب: میری بے اثر پکار سے سرود کی قیمت کا اندازہ نہ کر ۔ نغمے کی بجلی سے سکندر کی کھیتی جل سکتی ہے ۔ یعنی عشق کے سامنے سکندر اعظم کی عظیم الشان سلطنت کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
صبا بہ گلشن ویمر سلام ما برسان کہ چشم نکتہ وران خاک آن دیار افروخت
مطلب: اے صبا! ویمر کے گلشن تک ہمارا سلام پہنچا دے کہ اس سرزمین کی خاک نے نکتہ وروں کی آنکھوں کو روشنی بخشی (ان کے دل و دماغ کو منور کر دیا)(اس شعر میں اقبال نے گوءٹے کی خدمت میں خراج تحسین پیش کیا ہے) ۔