(۶۶)
این ہم جہانے، آن ہم جہانے این بیکرانے، آن بیکرانے
مطلب: یہ دنیا بھی ایک جہان ہے اور وہ آخرت بھی ایک جہان ہے ۔ اس کا بھی کوئی کنارہ نہیں اور یہ بھی بے کنار ہے ۔
ہر دو خیالے، ہر دو گمانے از شعلہ من موج دخانے
مطلب: دونوں ہی خیال اور دونوں ہی قیاس ہیں ۔ دونوں میرے شعلہ سانس کے دھوئیں کی لہریں ہیں ۔ (دنیا اور آخرت دونوں ہی خیال و قیاس ہیں ۔ لیکن اگر انسان اس دنیا میں نہ ہوتا تو کائنات کا وجود بھی نہ ہوتا) ۔
این یک دو آنے، آن یک دو آنے من جاودانے، من جاودانے
مطلب: یہ دنیا بھی ایک دو لمحہ کے لیے ہے اور وہ دنیا آخرت بھی ایکد و لمحے کے لیے ہیں ۔ اگر کسی کو دوام ہے تو وہ صرف میری ذات ہے ( میں ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوں ) ۔
این کم عیارے، آن کم عیارے من پاک جانے، نقد روانے
مطلب: یہ دنیا بھی کم قدرو قیمت رکھتی ہے اور وہ دنیا بھی کم قیمت رکھنے والی ہے ۔ (کم قیمت اس لیے کہ یہ خودی آشنا نہیں اور فنا اس کا مقدر ہے) میں ایک پاک جان ہوں کیونکہ میں خودی آشنا ہوں اور دنیاوی آلائشوں سے پاک ہوں ۔ میں ایک ایسی نقدی ہوں جو ہمیشہ کارگر ہو گی ۔ اللہ کے بندے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔
اینجا مقامے، آنجا مقامے اینجا زمانے ، آنجا زمانے
مطلب: اس جگہ (اس دنیا میں ) میرا کچھ عرصہ کے لیے مقام ہے اور وہاں (اس دنیا میں بھی کچ عرصہ میرا قیام رہے گا) میرا سفر جاری رہے گا ۔
اینجا چہ کارم آنجا چہ کارم آہے فغانے، آہے فغانے
مطلب: اس جگہ (دنیا) میں میرا کیا کام ہے اور اس جگہ اُس دنیا میں میں میرا کیا کام ہےعشق میں نالہ و شیون کرنا ۔
این رہزن من، آن رہزن من اینجا زیانے، آنجا زیانے
مطلب: یہ بھی میرا رہزن ہے اور وہ جہاں بھی لٹیرا ہے اس جگہ بھی نقصان ہے اور اس جگہ بھی گھاٹا ہے (یہ دونوں جہان میرے مقصدِ حقیقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں )
ہر دو فروزم، ہر دو بسوزم این آشیانے آن آشیانے
مطلب : میں ان دونوں جہانوں کو منور کرتا ہوں اور پھر دونوں کو جلا دیتا ہوں ۔ چاہے یہ آشیانہ چاہے اس دنیا کا چاہے وہ آشیانہ اس دنیا کا ہو ۔
(۶۷)
بہار آمد نگہ می غلطد اندر آتش لالہ ہزاران نالہ خیزد از دل پرکالہ پرکالہ
مطلب: بہار آ گئی ہے اور یہ نگاہ لالہ کے پھول کی آگ کی طرح سرخی میں لوٹ پوٹ ہو رہی ہے ۔ (چاروں طرف پھول کھلے ہیں ) لیکن میرے ٹکڑے ٹکڑے اس دل سے ہزاروں فریادیں نکل رہی ہیں ۔
فشان یک جرعہ برخاک چمن از بادہ لعلے کہ از بیم خزان بیگانہ روید نرگس و لالہ
مطلب: اپنے عشق کی سرخ شراب سے ایک گھونٹ چمن کی مٹی پر ڈال دے ۔ تاکہ لالے اور نرگس کے پھول خزاں کے خوف کے بغیر اگیں ۔ انہیں موسم خزاں کا ڈر نہ ہو ۔ جن پھولوں کی آبیاری شرابِ عشق سے کی جاتی ہے وہ فنا نہیں ہوتے ۔
جہان رنگ و بو دانی ولے دل چیست می دانی مہے کز حلقہ آفاق سازد گرد خود ہالہ
مطلب: اس جہان رنگ و بو کو تو جانتا ہے (اور اس کی دلفریبیوں میں کھو جانا چاہتا ہے ) لیکن دل کیا چیز ہےکیا تجھے اس کی خبر ہےدل ایک ایسا چاند ہے جو اپنے گرد آفاق کا ہالہ بناتا ہے (دل کائنات کا مرکز ہے اور وجہَ تخلیق کائنات بھی یہی ہے ۔ اس لیے ساری کائنات عشق میں جذب ہو کر اسی کا طواف کرتی ہے)
(۶۸)
صورت گرے کہ پیکر روز و شب آفرید از نقش این و آن بہ تماشاے خود رسید
مطلب: وہ تخلیق کار جس نے دن اور رات کے اجسام پیدا کئے ہیں وہ اپنے ان تخلیق کردہ نقوش کے آئینوں کے ذریعے اپنے تماشا تک پہنچا ہے (آپ اپنا تماشائی ہوا ہے) تخلیق اجسام کا مقصد یہ تھا کہ خدا اپنی ربوبیت ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔
صوفی بروں ز بنگہ تاریک پابنہ فطرت متاع خویش بسوداگری کشید
مطلب: اے صوفی! اپنے تاریک حجرہ سے باہر قدم رکھ اور دیکھ کہ فطرت نے اپنے متاع تخلیق کو سوداگری کے لیے بازار میں لا رکھا ہے ۔
صبح و ستارہ و شفق و ماہ و آفتاب بے پردہ جلوہ ہا بنگاہے توان خرید
مطلب: صبح، ستارہ، شفق، چاند اور سورج ان سب کے بے پردہ نظاروں کو ایک نگاہ کے بدلے خریدا جا سکتا ہے (اگر وہ نگاہ معرفت شناس ہے) ۔
(۶۹)
باز این عالم دیرینہ جوان می بایست برگ کاہش صفت کوہ گران می بایست
مطلب: اس پرانے بوڑھے کو پھر سے جوان ہونا چاہیے اور اسکے تنکے کو بھاری پہاڑی کی مانند ہونا چاہیے (یہ تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی خودی سے آشنا ہو) ۔
کف خاکے کہ نگاہ ہمہ بیں پیدا کرد در ضمیرش جگر آلودہ فغان می بایست
مطلب: وہ مٹھی بھر خاک جس نے ہر چیز کو دیکھنے والی آنکھ پیدا کیا ہے (ہر شے کو پرکھنے کا ہنر سیکھا ہے) اس کے دل میں جگر کے خون سے آلودہ فریاد بھی ہونی چاہیے ۔
این مہر و ماہ کہن راہ بجاے نہ برند انجم تازہ بہ تعمیر جہان می بایست
مطلب: یہ صدیوں پرانے چاند اور سورج کسی منزل پر نہیں جاتے ۔ اس لیے اب جہان کی تعمیر کے لیے کوئی نیا ستارہ طلوع ہونا چاہیے ۔ پرانے نظام معاشرے کی اصلاح میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ اب نیا نظام جو قرآن کی صورت میں موجود ہے آزمانا چاہے تب ہی نئے معاشرے کی تعمیر ہو سکتی ہے ۔ ) ۔
ہر نگاہے کہ مرا پیش نظر می آید خوش نگارے است ولے خوشتر ازان می بائست
مطلب: ہر وہ محبوب جو میری نگاہوں کے سامنے آتا ہے خوب ہے ۔ لیکن (حسنِ محبوب) کو اور بھی زیادہ اچھا ہونا چاہیے ۔
گفت یزدان کہ چنین است و دگر ہیچ مگو گفت آدم کہ چنین است و چنان می بائست
مطلب: خدا نے آدم سے کائنات کی تخلیق کے بارے میں کہا کہ ایسا ہی ہے اور تم کچھ اور نہ کہو ۔ (ہم نے دنیا جیسی بنا دی ہے ٹھیک بنا دی ہے تم اس میں ترمیم و اضافہ کے لیے نہ کہو ۔ آدم نے کہا کہ اگر یہ ایسی ہے جیسی کہ تو نے بنائی ہے ٹھیک ہے ۔ لیکن یہ ویسی ہونی چاہیے جیسی کہ میں چاہتا ہوں ۔
(۷۰)
لالہ این گلستان داغ تمناے نداشت نرگس طناز او چشم تماشاے نداشت
مطلب: اس چمن میں گل و لالہ تمنا کا داغ نہ رکھتا تھا اور اس کی شوخ و بیباک نرگس نگاہ شوق نہیں رکھتی تھی ۔ چمن میں بے عملی کا دور دورہ تھا ۔
خاک را موج نفس بود و دلے پیدا نبود زندگانی کاروانے بود و کالاے نداشت
مطلب: مٹی (آدم) میں سانس کی موج تو موجود تھی ۔ زندگی تو تھی لیکن اس کے اندر سوز والا دل پیدا نہیں ہوا تھا ۔ زندگی اک کارواں تو تھی لیکن اس کے ساتھ کوئی زادہِ راہ نہ تھا ۔ (زندگی میں ذوق عمل کی کمی تھی) ۔
روزگار از ہاے و ہوے میکشان بیگانہ بادہ در میناش بود و بادہ پیماے نداشت
مطلب: زمانے کا میکدہ ، میکشوں کے شور و غل سے خالی تھا ۔ اس کی صراحی میں شراب عشق تو موجود تھی لیکن کوئی شراب پینے والا عاشق موجود نہیں تھا ۔
برق سینا شکوہ سنج از بے زبانی ہاے شوق ہیچ کس در وادی ایمن تقاضاے نداشت
مطلب: وادی سینا کی تجلی عشق کی بے زبانی کا شکوہ کر رہی ہے ۔ (جلوہَ حسن تو موجود ہے لیکن نظارہ کرنے والا کوئی نہیں ) دیدار کا تقاضا کرنے والا موجود نہیں ۔
عشق از فریاد ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد ورنہ این بزم خموشان ہیچ غوغاے نداشت
مطلب: عشق نے ہماری فریاد سے سارے ہنگامے برپا کئے ہیں ۔ ورنہ یہ خاموش بزم کوئی ہنگامہ (شور و غوغا) نہیں رکھتی تھی ۔