Please wait..

در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہَ کربلا
(بیان حریتِ اسلامیہ اور سرِ حادثہَ کربلا)

 
ہر کہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بند ہر معبود دست

مطلب: جس نے حاضر و ناظر اور زندہ و قائم خدا سے عبودیت کا رشتہ استوار کر لیا اس کی گردن ہر معبود کی بندش سے آزاد ہو گئی ۔ (مراد یہ ہے کہ خدا سے رشتہ استوار کر لینے کے بعد انسان نے تمام معبودوں کو ٹھکرا دیا ہے) ۔

 
مومن از عشق است و عشق از مومنست
عشق را ناممکن ما ممکن است

مطلب: مومن کی ہستی عشق پر موقوف ہے، عشق کا وجود مومن پر موقوف ہے ۔ عشق ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتا ہے ۔

 
عقل سفاک است و او سفاک تر
پاک تر چالاک تر بیباک تر

مطلب: عقل بڑی سنگدل اور خونریز ہے لیکن عشق اس سے بھی زیادہ خونریز ہے ۔ عشق اغراض سے پاک ہوتا ہے کبھی کسی مقصد کے لیے ناجائز تدبیریں گوارا نہیں کرتا ۔ راہ حق میں اس تیزی سے قدم اٹھاتا ہے کہ عقل کبھی وہ تیزی اختیار کر ہی نہیں سکتی ۔ سب سے آخر میں یہ کہ عشق ہر خوف اور ڈر سے کاملاً آزاد ہوتا ہے ۔

 
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چو گان باز میدان عمل

مطلب:عقل اپنے مقصد کے لیے قدم اٹھانے سے پہلے اسباب اور وسائل پر غور کرتی ہے اور یہ سوچتی ہے کہ فلاں قدم اٹھانے کا نتیجہ کیا ہو گا ۔ اس کے برعکس عشق عمل کے میدان کا شہ سوار ہوتا ہے وہ ہمیشہ آگے بڑھتا ہے ، سرگرم ہوتا ہے کہ اسباب اور ساتھیوں کا کیا حال ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ وہ صرف یہ جانتا ہے کہ فلاں کام اگر حق ہے تو ضرور ہونا چاہئے اور اس کے لیے میدان میں اتر آتا ہے ۔

 
عشق صید از زور بازو افکند
عقل مکار است و دامی میزند

مطلب : عشق اپنے بازو کی قوت سے شکار کرتا ہے لیکن عقل فطرتاً مکار ہے اور وہ مکر و فریب کے جال پھیلاتی رہتی ہے ۔

 
عقل را سرمایہ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لا ینفک است

مطلب: عقل کا سارا سرمایہ خوف اور شک و شبہ ہے ۔ اس کے برعکس عشق سے عزم اور یقین جدا ہو ہی نہیں سکتے ۔

 
آن کند تعمیر تا ویران کند
این کند ویران کہ آبادان کند

مطلب:عقل جو تعمیر کرتی ہے اس کا نتیجہ ویرانی ہوتا ہے ۔ لیکن عشق اس غرض سے ویران کرتا ہے کہ اسے مستقبل طور پر آباد کر دے ۔ عقل کی تعمیر میں تخریب کا پہلو ہوتا ہے جبکہ عشق کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔

 
عقل چون باد است ارزان در جہان
عشق کمیاب و بہای او گران

مطلب: عقل اس دنیا میں ہوا سے بھی زیادہ سستی ہے ۔ عشق بہت کمیاب ہے اور اسکی قیمت بہت زیادہ ہے ۔

 
عقل محکم از اساس چون و چند
عشق عریان از لباس چون و چند

مطلب: عقل چون و چند کی بنیاد پر مستحکم ہوتی ہے ۔ عشق چون و چند کا روادار ہو ہی نہیں سکتا وہ اس لباس سے عاری ہے ۔

 
عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق گوید امتحان خویش کن

مطلب: عقل کہتی ہے کہ اپنے آپ کو آگے بڑھا یعنی دولت، عزت، حکومت اور شہرت حاصل کر ۔ عشق کہتا ہے کہ آگے بڑھانے کا کیا مطلب اپنے آپ کو آزمانا چاہیے ۔

 
عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب

مطلب: عقل کا سارا زور خودنمائی پر ہے جبکہ عشق اپنا محاسبہ خود کرتا ہے ۔ عقل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسب سے حاصل کی جاتی ہے اور مشق سے بڑھ سکتی ہے ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسے غیر سے آشنائی پیدا کر نے میں تامل نہیں ہوتا (بشرطیکہ کوئی فائدہ پہنچنے کی امید ہو ) ۔ اس کے برعکس عشق صرف خدا کے فضل پر موقوف ہے ۔ غیر سے اسے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ وہ ہروقت اپنے ہی حساب اور جانچ پڑتال میں مصروف رہتا ہے ۔

 
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بندہ شو آزاد شو

مطلب: عقل کہتی ہے کہ عیش و عشرت اور موج مستی میں کھو کر زندگی گزار ۔ جبکہ عشق کہتا ہے کہ اللہ کا فرمانبردار بندہ بن جا اور ہر غلامی سے آزاد ہو کر زندگی گزار ۔

 
عشق را آرام جان حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است

مطلب: عشق کے لیے حریت آرام، سکون اور راحت کا باعث ہے ۔ اس کے ناقے (اونٹنی) کی ساربا ن حریت ہے ۔

 
آن شنیدستی کہ ہنگام نبرد
عشق با عقل ہوس پرور چہ کرد

مطلب: تو نے سنا کہ لڑائی کے وقت عشق نے ہوس پرور عقل سے کیا سلوک کیا (لڑائی سے مراد جنگ کربلا ہے ۔ عشق کے علمدار حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں اور عقل ہوس پرور یزید کو کہا گیا ہے )

 
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی ز بستان رسول

مطلب: وہ عاشقوں کے امام اور پیشوا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے فرزند ارجمند جنھیں رسول اللہ کے باغ میں سرو آزاد کی حیثیت حاصل تھی ۔

 
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

مطلب: ان کے والد ماجد حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کی ب تھے اور فرزند یعنی امام حسین قرآن مجید کی آیت ، وفدینہ بذبح عظیم کا مطلب و مفہوم بن گئے، ۔

 
بہر آن شہزادہ ی خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل

مطلب : سب سے بہتر امت یعنی ملت اسلامیہ کے اس شہزادے کی شان یہ تھی کہ رسول خاتم کا دوش مبارک اس کے لیے اچھی سواری قرار پایا ۔

 
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او

مطلب: عشق غیور حضرت امام حسین ہی کے خون سے سرخرو ہوا ۔ انہیں کے مضمون سے اس مصرع میں شوخی پیدا ہوئی ۔ عشق کو غیور اس لیے کہا کہ وہ باطل کے مقابلے میں دبنا یا پیچھے ہٹنا گوارا ہی نہیں کر سکتا ۔

 
درمیان امت ان کیوان جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب

مطلب: امت کے درمیان ان کی حیثیت وہی تھی جو سورۃ اخلاص کو قرآن کے درمیان حاصل ہے ۔ یعنی جس طرح سورہ اخلاص کو قرآن مجید میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اسی طرح امام حسین کو ملت اسلامیہ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے ۔

 
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید

مطلب: موسیٰ اور فرعون ، شبیر اور یزید یہ دو قوتیں ہیں جو زندگی سے ظاہر ہوئیں ۔ ان میں حضرت موسیٰ اور حضرت امام حسین حق کے علمدار ہیں ا ور فرعون اور یزید نے باطل کی پاسداری کی ۔ دونوں قوتیں ابتدا ہی سے چلی آ رہی ہیں ان کے درمیان کشمکش بھی ہوتی رہی ہے ۔

 
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

مطلب: تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوت شبیری سے زندہ ہے ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت امام حسین جیسے بزرگ اس کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔ باطل آخر حسرت کی موت کا داغ بن جاتا ہے ۔ (حق کا بول بالا قوت خیر سے ہوتا ہے جبکہ باطل قوتوں کا انجام ذلت و خواری ہے ۔ ) ۔

 
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

مطلب:جب خلافت نے قرآن مجید سے تعلق توڑ لیا تو حریت کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا ۔

 
خاست آن سر جلوہ ی خیر الامم
چون سحاب قبلہ بر باران در قدم

مطلب: یہ حالت دیکھ کر سب سے بہتر امت کا وہ نمایاں تر جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے اور اٹھتے ہی جل تھی ایک کر دیتی ہے ۔

 
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہا کارید و رفت

مطلب: یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور چھٹ گئی ۔ ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا اور چل دی ۔

 
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد

مطلب: قیامت تک کے لیے ظلم و جور اور مطلق العنانی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ۔ امام حسین کی موج ِ خون نے حریت کا گلزار کھلا دیا ۔

 
بہر حق در خاک و خون غلتیدہ است
پس بنای لا الہ گردیدہ است

مطلب: امام حسین حق کی خاطر خاک و خون میں تڑپے ، اس وجہ سے کلمہ توحید لا الہ کی بنیاد بن گئے ۔ امام حسین نے یہ جنگ اس لیے لڑی کہ خلافت ان اصولوں کے مطابق قائم ہو جو قرآن مجید نے پیش کئے ۔

 
مدعایش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر

مطلب: ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خود سلطنت حاصل کریں ۔ اگر وہ سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے ساتھیوں اور معمولی سامان کے ساتھ کیوں مکہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جاتے ۔

 
دشمنان چون ریگ صحرا لا تعد
دوستان او بہ یزدان ہم عدد

مطلب: ان کے دشمن صحرا کی ریت کے ذروں کی طرح بے شمار تھے ۔ دوستوں اور رفیقوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی یزدان کے اعداد کی ہے ۔ یزدان کے عدد بہ قاعدہ ابجد بہتر ہوتے ہیں ۔ امام حسین کے تمام ساتھی بھی کربلا میں اتنے ہی تھے ۔

 
سر ابراہیم و اسماعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود

مطلب: امام حسین حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی کے آئینہ دار تھے ۔ یعنی وہ قربانی تو اجمال کی حیثیت رکھتی تھی اس کی تفصیل امام حسین نے پیش کر دی ۔

 
عزم او چون کوہساران استوار
پایدار و تند سیر و کامگار

مطلب: ان کا عزم پہاڑوں کی طرح پختہ ، پائیدار اور تیز اور کامیاب تھا ۔ کیوں اس لیے کہ تلوار صرف دین کی عزت کے واسطے بے نیام ہو سکتی ہے ۔

 
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس

مطلب: ان کی غرض یہ تھی کہ امام نے صرف دین کے لیے تلوار اٹھائی اور اس میں ان کی ذاتی غرض کوئی نہ تھی ۔

 
ما سوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونی بسرش افکندہ نیست

مطلب: یاد رہے کہ مسلمان خدا کے سوا کسی کا غلام نہیں ہو سکتا اس کا سر کسی فرعون کے آگے نہیں جھک سکتا ۔

 
خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد

مطلب: امام حسین کے خون نے دین حقہ اسلام کا یہ راز کھول کر بیان کر دیا اور سوئی ہوئی ملت کو جگا دیا ۔ یعنی ملت اس حق سے غافل تھی امام حسین نے اس کی غفلت دور کر دی ۔

 
تیغ لا چون از میان بیرون کشید
از رگ ارباب باطل خون کشید

مطلب: انھوں نے لا کی تلوار میان سے باہر کھینچی تو صاحبان باطل کی رگوں سے خون نکال دیا ۔

 
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت

مطلب: انھوں نے لا الہ یعنی توحید کا نقش صحرا کے سینے پر بٹھا دیا ۔ یہ نقش ہماری نجات کے عنوان کی سطر لکھ دی ۔

 
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم

مطلب: ہم نے قرآن مجید کی رمز امام حسین سے سیکھی ہے اور انہیں کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے جمع کرتے رہے ہیں ۔

 
شوکت شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت

مطلب: شام کی شوکت مٹ گئی ۔ بغداد کا جاہ و جلال رخصت ہو گیا ۔ غرناطہ کی شا ن و عظمت یاد بھی نہ رہی ۔

 
تار ما از زخمہ اش لرزان ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز

مطلب: اس کے مقابلے میں امام حسین کی مضراب ہمارے ساز کے تار اب تک بدستور چھیڑ رہی ہے ۔ اور اس سے نغمے نکل رہے ہیں ۔ اب تک ان کے نعرہ تکبیر سے ہمارے ایمان تازہ ہوتے ہیں ۔

 
ای صبا ای پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاک او رسان

مطلب: اے صبا اے دور افتادہ لوگوں کی قاصد، ہمارے آنسووَں کا ہدیہ امام حسین کے حرم مقدس پر پہنچا دے ۔