مناجات
آدمی اندر جہان ہفت رنگ ہر زمان گرم فغان مانند چنگ
مطلب: اس سات رنگوں والی دنیا میں آدمی ہر لمحہ ستار کی طرح فریاد کرتا رہتا ہے ۔
آرزوے ہم نفس می سوزدش نالہ ہاے دل نواز آموزدش
مطلب: محرم راز کی آرزو اسے ہر وقت جلاتی رہتی ہے اور وہی دل کو لبھانے والے نالے اسے سکھاتی رہتی ہے ۔
لیکن ایں عالم کہ از آب و گل است کے توان گفتن کہ داراے دل است
مطلب: لیکن یہ عالم جوپانی اور مٹی سے بنا ہوا ہے کے بارے میں کیسے کہیں کہ یہ بھی دل رکھتا ہے یا صاحب دل ہے ۔ (صاحبِ دل ہو تو اس پر انسان کی فریاد کا اثر ہوتا ہے) ۔
بحر و دشت و کوہ و کہ خاموش و کر آسمان و مہر و مہ خاموش و کر
مطلب: یہ سمندر اور بیابان، پہاڑ اور گھاس سبھی گونگے اور بہرے ہیں ۔ کسی کی آہ و فغاں کا اثر ان پر نہیں ہو سکتا ۔
گرچہ بر گردون ہجوم اختر است ہر یکے از دیگرے تنہا تر است
مطلب: اگرچہ آسمان پر ستاروں کا ایک ہجوم ہے لیکن ہر ایک دوسرے سے زیادہ تنہا ہے ۔ یعنی سارے ایک دوسرے سے بے خبر ہیں ۔
ہر یکے مانند ما بیچارہ ایست در فضاے نیلگون آوارہ ایست
مطلب: ا ن میں سے ہر ایک ہماری ہی طرح بے چارہ اور نیلی فضا میں آسمان پر آوارہ بے بس ہے یعنی اس کی گردش بے مقصد ہے ۔
کاروان برگ سفر ناکردہ ساز بیکران افلاک و شب ہا دیر یاز
مطلب: یہ ایک ایسا قافلہ ہے جس نے سفر کا کوئی سامان تیار نہ کیا ہو، جبکہ سفر کے لیے اس کے سامنے لامحدود آسمان اور لمبی راتیں ہیں ۔
این جہاں صید است و صیادیم ما یا اسیر رفتہ از یادیم ما
مطلب: یہ جہان شکار ہے اور ہم سب اس کے شکاری ہیں یا پھر ہم ایسے قیدی ہیں جنہیں قید کے بعد بھلا دیا گیا ہے ۔
زار نالیدم صداے برنخاست ہم نفس فرزند آدم را کجاست
مطلب: میں نے بہت آہ و زاری کی لیکن اس کے جواب میں کسی طرف سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی نہ سنائی دی کسی شے پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ فرزند آدم کا ہمراز کہاں ہے یعنی مجھ سے کسی نے بھی ہمدردی کا اظہار نہ کیا ۔
دیدہ ام روز جہان چار سوے آنکہ نورش بر فروزد کاخ و کوے
مطلب: میں نے اس چار طرفوں والے جہان کے دن کو دیکھا ہے جس کا نور محل و کوچے کو روشن کرتا ہے ۔
از رم سیارہ او را وجود نیست الا اینکہ گوئی رفت و بود
مطلب: اس کا وجود ایک سیارے کے چلنے سے ہے ۔ یہاں رفت و بود کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ وہ دن سوائے اس کے کہ تو کہے کہ وہ تھا اور چلا گیا ، کچھ نہیں ہے یعنی اس کا وجود سورج نکلنے سے ہے ۔
اے خوش آن روزے کہ از ایام نیست صبح او را نیم روز و شام نیست
مطلب: وہ دن بڑا ہی مبارک ہے جس کا تعلق ایام یعنی سورج کی گردش کے نتیجے میں طلوع ہونے والے دنو ں سے نہیں ہے اس کی صبح کی نہ تو دوپہر ہے اور نہ شام ہی ہے ۔
روشن از نورش اگر گردد روان صوت را چون رنگ دیدن می توان
مطلب: اگر انسان کی روح ایسے دن سے منور ، روشن ہو جائے تو آواز کو رنگ کی طرح دیکھا جا سکتا ہے ۔
غیب ہا از تاب او گردد حضور نوبت او لایزال و بے مرور
مطلب:ہر طرح کا غیب اسکی روشنی کے سبب حضور کی صورت اختیار کر لیتا یا حضوری میں بدل جاتا ہے ۔ وہ ہمیشہ رہتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا ۔
اے خدا روزی کن آن روزے مرا وارہان زین روز بے سوزے مرا
مطلب: اے خدا تو مجھے ایسا دن نصیب فرما اور اس بے سوز دن سے رہائی دلا دے ۔ مجھے تو اے خدا تو ایسے بے مقصد دن سے بچا کے رکھ ۔
آیہ تسخیر اندر شان کیست ایں سپہر نیلگون حیران کیست
مطلب: قرآن مجید میں آیہ تسخیر کس کی شان میں ہے ۔ یہ نیلا آسمان کس کی عظمت پر حیران ہے گویا اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت انسان کو بخشی ہے جس کو دیکھ کر آسمان حیرانی کا شکار ہے ۔
رازدان علَّمَ الاسما کہ بود مست آن ساقی و آن صہبا کہ بود
مطلب: علم الاسماء کا رازدان کون تھا ۔ اس ساقی اور شراب (الست) کا مست کون تھا ۔ (حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے سب اشیاء کے اسماء بتا دیے تھے جو فرشتے بھی نہ بتا سکے) ۔
برگزیدی از ہمہ عالم کرا کردی از راز درون محرم کرا
مطلب: اے خدا آپ نے سارے جہان میں سے کسے منتخب کیا اور پھر اس کائنات کے اندر کے رازوں سے کسے آگاہ کیا، محرم و واقف بنایا (وہ انسان ہی تھا جسے افضل مخلوقات بنایا گیا اور کائنات کے راز بھی اس پر ظاہر کیے گئے) ۔
اے ترا تیرے کہ ما را سینہ سفت حرف از ادعونی کہ گفت و با کہ گفت
مطلب: آپ کے تیر (ہجر) نے ہمارا سینہ چھید ڈالا ہے ۔ مجھے پکارو میں جواب دوں گا ۔ یہ بات کس نے کہی تھی اور کس سے کہی تھی
روئے تو ایمان من، قرآن من جلوہ داری دریغ از جان من
مطلب: آپ کا چہرہ ہی میرا ایمان اور میرا قرآن ہے یعنی میرے لیے سب کچھ ہے ۔ پھر کیا بات ہے کہ آپ اپنے جلوے سے مجھے محروم رکھ رہے ہیں
از زیان صد شعاع آفتاب کم نمی گردد متاع آفتاب
مطلب: سورج کی سینکڑوں شعاعوں کے نقصان بکھیرنے سے آفتاب کی روشنی کی متاع تو کم نہیں ہو جاتی وہ اسی طرح چمکتا رہتا ہے ۔
عصر حاضر را خرد زنجیر پاست جان بے تابے کہ من دارم کجاست
مطلب: یہ دورِ حاضر کے لیے خرد کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے ۔ میری جیسی بے تاب جان کہاں ہے
عمر ہا بر خویش می پیچد وجود تا یکے بے تاب جان آید فرود
مطلب: حیات مدتوں پیچ و تاب کھاتی ہے تب کہیں جا کر ایک جانِ بیتاب ظہور میں آتی ہے ۔
گر نرنجی این زمین شورہ زار نیست تخم آرزو را سازگار
مطلب: اگر آپ (اے خدا) ناراض نہ ہوں تو میں یہ عرض کروں گا کہ یہ شورہ زار زمین آرزو کے بیج کے لیے سازگار نہیں ۔ لوگوں کے دلوں میں جذبہ عشق پیدا کرنا محال ہے
از درون این گل بے حاصلے بس غنیمت دان اگر روید دلے
مطلب: اس بنجر مٹی میں سے اگر ایک دل بھی اگ آئے تو اسے غنیمت سمجھ ۔ دل سے مراد دلِ زندہ و بیدار ہے ۔
تو مہی اندر شبستانم گزر یک زمان بے نوری جانم نگر
مطلب: (اے محبوب حقیقی) آپ تو چاند ہیں ، میری محفل شب کی طرف آئیے اور ذرا میری جان کی تاریکی کو دیکھیے ۔ یعنی میری زندگی کی تاریک رات کو اپنے نور سے منور فرما دیں ۔
شعلہ را پرہیز از خاشاک چیست برق را از برفتادن باک چیست
مطلب: شعلے کو بھلا خشک تنکوں کو جلانے سے پرہیز کیوں ہو بجلی کو گرنے سے ڈر کیا ہے ۔ (خود کو خشک تنکے اور حاصل زندگی سے تشبیہ دی ہے جبکہ خدا کے جلوے کو بجلی سے )
زیستم تا زیستم اندر فراق وانما آنسوئے این نیلی رواق
مطلب : میں جب تک جیا فراق ہی میں زندہ رہا ۔ مجھے دکھائیے کہ اس نیلے آسمان کے پرے کیا ہے ۔ یہ مجھ پر ظاہر کر دیں ۔
بستہ در ہا را برویم باز کن خاک را با قدسیاں ہمراز کن
مطلب: آپ بند دروازے مجھ پر کھول دیں اور مجھ خاکی انسان کو فرشتوں کا ہمراز بنا دیں ۔
آتشے در سینہ من بر فروز عود را بگزار و ہیزم را بسوز
مطلب: میرے سینے میں عشق کی آگ روشن کر دیں ۔ عود کو چھوڑ دیں اور ہیزم (ایندھن) کو جلا دیں ۔ (عود عشق کا اور ہیزم عقل کا استعارہ ہے ۔ مطلب یہ کہ میرے سینے میں جذبہ عشق پیدا کر دیں ) ۔
باز بر آتش بنہ عود مرا در جہان آشفتہ کن دود مرا
مطلب: پھر میری عود کو آگ پر رکھیئے اور ساری دنیا میں میرا دھواں پھیلا دیں ۔ یعنی مجھے جذبہ عشق سے نواز کر اسے میری شاعری کے ذریعے لوگوں تک پہنچا دیں ۔
آتش پیمانہ من تیز کن باتغافل یک نگہ آمیز کن
مطلب: میرے پیمانے کی آگ تیز کر دے اور اپنے تغافل کے ساتھ ایک نگاہ بھی ملا دے ۔
ما ترا جوئیم و تو از دیدہ دور نے غلط، ما کور و تو اندر حضور
مطلب: ہم آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں ۔ نہیں یہ بات نہیں آپ تو ہمارے سامنے ہیں مگر ہم خود اندھے ہیں ۔
یا کشا این پردہ اسرار را یا بگیر این جان بے دیدار را
مطلب: یا تو تو ان رازوں کا پردہ ہٹا دے یا پھر تیرے دیدار سے محروم میری جان واپس لے لے ۔
نخل فکرم نا امید از برگ و بر یا تبر بفرست یا باد سحر
مطلب: میری فکر کا درخت پتوں اور پھل سے محروم ہے ۔ یا تو اسے کلہاڑی کی نذر کر دے کہ یہ کٹ کر ختم ہو جائے یا پھر صبح کی ہوا سے نوا ز دے تاکہ یہ خوب پھلے پھولے ۔
عقل دادی، ہم جنونے دہ مرا رہ بجذب اندرونے دہ مرا
مطلب: تو نے مجھے عقل دی ہے ۔ تو اب جنون سے بھی مجھے نواز دے مجھے اپنے اندرونی جذب تک کا راستہ بھی عطا فرما دے ۔
علم در اندیشہ می گیرد مقام عشق را کاشانہ لب لاینام
مطلب: علم کا مقام انسانی فکر میں ہے جبکہ عشق کا ٹھکانا ایسے دل میں ہے جو ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔
علم تا از عشق برخوردار نیست جز تماشا خانہ ی افکار نیست
مطلب: جب تک علم عشق سے فیض نہ پائے وہ تماشا خانہ افکار کے سوائے اور کچھ نہیں ۔
این تماشا خانہ سحر سامری است علم بے روح القدس افسونگری است
مطلب: علم کا یہ تماشاخانہ محض سامری کا جادو ہے ۔ روح القدس کے بغیر علم شعبدہ بازی یا جادوگری ہے ۔
بے تجلی مرد دانا رہ نبرد از لکد کوب خیال خویش مرد
مطلب: مردِ دانا تجلی کے نور کے بغیر راہ نہیں پاتا جبکہ نادان اس تجلی کے بغیر اپنے پریشان خیالوں کی دو لتیوں ہی سے مر جاتا ہے ۔
بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دین مجبوری است
مطلب: تجلی کے بغیر زندگی دکھ درد ہے اور عقل تو حقیقتِ زندگی سے دور لے جاتی ہے اور اس کا دین محض مجبوری بن کر رہ جاتا ہے ۔
ایں جہان کوہ و دشت و بحر و بر ما نظر خواہیم و او گوید خبر
مطلب: پہاڑ، بیابان اور سمندر اور خشکی کی یہ دنیا ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کی خبر دیتی ہے مگر ہم اس کے دیدار کے خواہاں ہیں ۔
منزلے بخش این دل آوارہ را باز دہ با ماہ این مہ پارہ را
مطلب: اے خدا تو میرے اس آوارہ دل کو منزل عطا کر اور چاند کے اس ٹکڑے کو چاند سے پھر ملا دے ۔ (مجھے عشق سے سرشار فرما کر اپنے دیدار یا اپنی تجلی سے نواز دے ۔ )
گرچہ از خاکم نروید جز کلام حرف مہجوری نمی گردد تمام
مطلب: اگرچہ میری خاک سے کلام کے سوا اور کچھ نہیں پیدا ہوتا مگر میرا کلام ہجر کی پوری داستان بیان نہیں کر سکا ۔
زیر گردون خویش را یابم غریب ز آنسوئے گردون بگو انی قریب
مطلب: اپنے آپ کو اس دنیا میں اجنبی سمجھتا ہوں ۔ تو اے خدا آسمان کے اس جانب سے مجھے صدا دے کہ میں قریب ہوں ۔
تا مثال مہر و مہ گردد غروب این جہات و این شمال و این جنوب
مطلب: تاکہ جہان کی یہ طرفیں اور یہ شمال اور یہ جنوب سب سورج اور چاند کی طرح نظروں سے اوجھل ہو جائیں ۔ تاکہ میں قیدِ مکان سے آزاد ہو جاؤں ۔
از طلسم دوش و فردا بگزرم از مہ و مہر و ثریا بگزرم
مطلب: میں گزرے ہوئے کل اور آنے والے کلی ماضی اور مستقل کے جادو سے نکل جاؤں اور چاند اور سورج اور پروین سے گزر جاؤں ۔
تو فروغ جاودان ما چون شرار یک دو دم داریم و آن ہم مستعار
مطلب: اے خدا تو ہمیشہ رہنے والا نور ہے جبکہ ہم چنگاری کی مانند عارضی و فانی ہیں ۔ ہماری زندگی کے دو ایک سانس ہی ہیں اور وہ بھی ادھار ہیں ۔
اے تو نشناسی نزاع مرگ و زیست رشک بر یزدان برد این بندہ کیست
مطلب: اے ذاتِ اقدس تجھے موت اور زندگی کے باہمی نزاع کا پتہ نہیں ہے ۔ یہ ناچیز خدا پر رشک کرنے والا کون ہوتا ہے ۔
بندہ ی آفاق گیر و نا صبور نے غیاب او را خوش آید نے حضور
مطلب: خدا پر رشک کرنے والا یہ بندہ کائنات کو مسخر کیے ہوئے ہے لیکن پھر بھی وہ صبر کرنے والا نہیں ہے ۔ نہ تو اسے تجھ سے دوری اچھی لگتی ہے اور نہ تیری حضوری ہی اچھی لگتی ہے ۔وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب
آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا
مطلب: میری زندگی ایک لمحہ کی زندگی ہے اسے جاوداں کر دے ۔ گو میں زمینی ہوں لیکن تو مجھے آسمانی بنا دے ۔
ضبط در گفتار و کردارے بدہ جادہ ہا پیداست، رفتارے بدہ
مطلب: مجھے گفتار اور کردار میں ضبط عطا فرما دے ۔ راستے ظاہر ہیں ان پر چلنے کے لیے تو مجھے رفتار عطا فر ما دے ۔
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است این کتاب از آسمانے دیگر است
مطلب: میں نے جو کچھ اس کتاب (جاوید نامہ) میں کہا ہے اس کا تعلق کسی اور جہان سے ہے ۔ یہ کتاب کسی اور آسمان سے ہے ۔
بحرم و از من کم آشوبی خطاست آن کہ در قعرم فرو آید کجاست
مطلب: میں ایک سمندر ہوں اور یہ خیال کرنا کہ مجھ میں طوفان نہیں ہے ایک غلط بات ہے ۔ وہ شخص جو میرے افکار کی گہرائی میں اترے کہاں ہے
یک جہان بر ساحل من آرمید از کران غیر از رم موجے ندید
مطلب: ایک دنیا نے میرے ساحل پر آرام کیا مگر ان بے شمار لوگوں نے ساحل سے سوائے موجوں کے چلنے کے اور کچھ نہ دیکھا ۔ (مطلب یہ کہ لوگوں نے میری شاعری کو عام شاعری کی طرح پڑھا اور اس کی تہ یا گہرائی میں اترنے کی کوشش نہیں کی) ۔
من کہ نومیدم ز پیران کہن دارم از روزے کہ می آید سخن
مطلب: میں جو پرانے بوڑھوں سے نا امید ہوں میں آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں (مطلب یہ کہ بوڑھوں نے تومیری شاعری کی طرف توجہ نہیں دی تاہم مجھے آنے والی نوجوان نسل سے توقع ہے کہ وہ اس کی طرف توجہ کریں گے ) ۔
بر جوانان سہل کن حرف مرا بہرشاں پایاب کن ژرف مرا
مطلب: اے خدا تو جوانوں کے لیے میری شاعری آسان کر دے ان کے لیے میرے سمندر کو عبور کرنا آسان بنا دے ۔
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کر دے