Please wait..

تمہید در معنی ربط فرد وملت
(فرد و ملت کا ربط)

 
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است

مطلب: فرد کے لیے جماعت سے ربط پیدا کرنا رحمت کا باعث ہے ۔ اس کے تمام جوہروں (خوبیوں ) کو ملت ہی کی بدولت کمال حاصل ہوتا ہے ۔

 
تا توانی با جماعت یار باش
رونق ہنگامہ ی احرار باش

مطلب: تو کوشش کی آخری حد تک جماعت سے وابستہ رہ اور یوں تو آزاد لوگوں کے ہنگامے کے لیے باعث رونق بن جا ۔

 
حر ز جان کن گفتہ ی خیر البشر
ہست شیطان از جماعت دور تر

مطلب: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کو جان کے لیے تعویز بنا لے کہ جماعت سے شیطان دور رہتا ہے ۔

 
فرد و قوم آئینہ ی یک دیگراند
سلک و گوہر کہکشان و اختراند

مطلب: فرد اور قوم ایک دوسرے کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فرد و قوم کا تعلق، رشتے اور گوہر کا یا کہکشاں اور اختر کا تعلق ہے ۔ گوہر رشتے کے بغیر ایک لڑی نہیں بن سکتے ۔

 
فرد می گیرد ز ملت احترام
ملت از افراد می یابد نظام

مطلب: فرد ملت کی بنا پر عزت حاصل کرتا ہے، ملت افراد کے مل جانے سے ترکیب پاتی ہے ۔

 
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرہ ی وسعت طلب قلزم شود

مطلب : فرد جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کی صورت اس قطرے کی سی ہوتی ہے جو بڑھ کر سمندر کی شکل اختیار کر لے کہ جس طرح قطروں سے سمندر بن جاتا ہے اسی طرح افراد سے قو میں صورت پذیر ہوتی ہیں ۔

 
مایہ دار سیرت دیرینہ او
رفتہ و آیندہ را آئینہ او

مطلب: فرد پرانی سیرت کا سرمایہ دار ہوتا ہے وہ ماضی اور حال کا آئینہ بن جاتا ہے ۔ (یعنی ماضی کے اوصاف و خصاءص بھی اس میں موجود ہوتے ہیں اور آئیندہ کے عزام و مقاصد بھی اسی میں دیکھ جا سکتے ہیں ) ۔

 
وصل استقبال و ماضی ذات او
چون ابد لا انتہا اوقات او

مطلب: اس کی ذات میں ماضی اور مستقبل دونوں جمع ہوتے ہیں اور ابد کی طرح اس کے اوقات کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی (اس کا زمانہ لا محدود ہوتا ہے) ۔

 
در دلش ذوق نمو از ملت است
احتساب کار او از ملت است

مطلب: اس کے دل میں بڑھنے اور ترقی کرنے کا ذوق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ ملت کی صورت میں منظم ہو جاتا ہے ۔ ملت ہی اس کی سرگرمیوں کا محاسبہ کرتی ہے ۔ وہی اس کی اچھائی و برائی جانچتی ہے ۔

 
پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم
ظاہریش از قوم و پنہانش ز قوم

مطلب: وہی تمام گرم جوشیوں کو ضبط و نظم میں رکھتی ہے اس کا وجود بھی قوم ہے اور جان بھی قوم ہے ۔ اس کاظاہر و باطن دونوں قوم ہی کے مرہون منت ہیں ۔

 
در زبان قوم گویا می شود
بر رہ اسلاف پویا می شود

مطلب: وہ قوم کی زبان سے بولتا ہے اور بزرگوں کے راستے پر سرگرم تگ و دو میں رہتا ہے ۔

 
پختہ تر از گرمی صحبت شود
تا بمعنی فرد ہم ملت شود

مطلب: وہ اپنے جیسے دوسرے افراد کی صحبت میں پہنچتا ہے تواس کی برکت سے زیادہ پختہ اور پائیدار ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ حقیقت کے اعتبار سے خود ملت بن جاتا ہے ۔ یعنی اس کا سوچنا، کھانا پینا، سونا، اٹھنا، بیٹھنا سب ملت کے نقطہ نگاہ کی بنا پر متعین ہوتا ہے ۔

 
وحدت او مستقیم از کثرت است
کثرت اندر وحدت او وحدت است

مطلب: اس کی وحدت ّتنہائی) کثرت کی بدولت مضبوط و مستحکم ہوتی ہے اور کثرت اس کی وحدت میں پہنچ کر خود وحدت (اکائی) بن جاتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ فرد دوسرے افراد قوم کے ساتھ مل کر پائیدار و استوار ہوتا ہے کیونکہ وہ اکیلا نہیں رہتا بلکہ ہزاروں لاکھوں افراد اس کے ساتھ بن جاتے ہیں ۔

 
لفظ چون از بیت خود بیرون نشست
گوہر مضمون بجیب خود شکست

مطلب: شعر الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن اگر ایک بھی لفظ شعر سے باہر نکل جائے تو اس کے مضمون کا موتی اپنی تھیلی ہی میں ریزہ ریزہ ہو جائے، ٹوٹ جائے گا ۔ اسی طرح فرد کے لیے بھی لازم ہے کہ اپنی اور قوم کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے جدائی اختیار نہ کرے ۔

 
برگ سبزی کز نہال خویش ریخت
از بہاران تار امیدش گسیخت

مطلب: جو سبز پتا درخت سے ٹوٹ کر گر گیا، الگ ہو گیا ظاہر ہے کہ فصل بہار سے اس کی امدی کا رشتہ ٹوٹ گیا، یعنی بہار آئے گی تو انہیں پتوں میں نئی تازگی پیدا کرے گی جو درخت کی شاخوں سے وابستہ ہوں گے ۔

 
ہر کہ آب از زمزم ملت نخورد
شعلہ ہای نغمہ در عودش فسرد

مطلب: جس کسی نے ملت کے چشمہ زمزم سے پانی نہ پیا، اس کے ساز میں نغموں کے شعلے ٹھٹھر کر رہ گئے ۔

 
فرد تنہا از مقاصد غافل است
قوتش آشفتگی را مایل است

مطلب: تنہا فرد کے دل میں مقاصد عالیہ کی تڑپ پیدا ہی نہیں ہو سکتی اور اسے قدرت نے عمل کی جو قوت عطا کی ہے وہ رائیگاں جائے گی(وہ انتشار کا شکار ہو جائے گی) ۔

 
قوم باضبط آشنا گرداندش
نرم رو مثل صبا گرداندش

مطلب: قوم اس کی فکر و نظر کو ایک ضابطے (ربط و ضبط) میں لاتی ہے بلکہ صبا کی طرح آہستہ آہستہ اور باقاعدہ چلنے لگتا ہے (مطلب یہ کہ فرد تنہا ہو تو وہ ضبط و نظم سے بے بہرہ ہوتا ہے جماعت میں آتا ہے تو ضبط و نظم کا پابند ہو جاتا ہے اور پابند ہوتے ہیں اس کی تمام سرگرمیاں مفید کاموں میں لگ جاتی ہیں ۔ )

 
پا بہ گل مانند شمشادش کند
دست و پا بندد کہ آزادش کند

مطلب: قوم فرد پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے جیسے باغ میں شمشاد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر (زمین میں دھنسا کر) آزاد کیا جاتا ہے ۔ (یہ پابندیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ فرد کے لیے حقیقی آزادی کا راستہ ہموار ہو جائے ۔ )

 
چون اسیر حلقہ ی آئین شود
آہوی رم خوی او مشکین شود

مطلب: جب ایک فرد ضابطے، ایک قانون اور ایک آئین کا حلقہ گردن میں ڈال لیتا ہے تو اس کے ادھر اُدھر بے مقصد دوڑنے والے (بے لگام) آہو میں نافہ پیدا ہو جاتا ہے یعنی اس کے طبعی جوہر کھلنے لگتے ہیں ۔

 
تو خودی از بیخودی نشناختی
خویش را اندر گمان انداختی

مطلب: اے مخاطب، تو نے خودی اور بیخودی میں تمیز نہیں کی اور خود وہم و گمان میں پڑا رہا (اور ملت سے کٹ گیا) ۔

 
جوہر نوریست اندر خاک تو
یک شعاعش جلوہ ی ادراک تو

مطلب: تیری مٹی (خمیر) میں ایک نورانی اور روشن جوہر ہے تجھ میں فہم و ریاضت کا جو مادہ پیدا ہوا ہے یہ بھی ایک جوہر کی کرن ہے ۔

 
عیشت از عیشش غم تو از غمش
زندہ ئی از انقلاب ہر دمش

مطلب: اگر وہ خوش ہے تو تو بھی خوش ہے اگر وہ غمگین ہے تو تو بھی غمگین ہے ۔ گویا وہ ہر لمحہ الٹ پلٹ میں لگا رہتا ہے اور اسکی یہی الٹ پلٹ تیرے لیے زندگی کا سروسامان ہے ۔

 
واحدست و بر نمی تابد دوئی
من ز تاب او من استم تو توئی

مطلب: وہ جوہر (خودی) واحد ہے اور دوئی کی روادار نہیں ۔ دوئی کو برداشت نہیں کرتی ۔ اسی کی چمک دمک سے میں ، میں ہوں اور تو ، تو ہے ۔ یعنی تمام افراد خودی کی بنا پر آگاہ اور باشعور افرا د بنتے ہیں ۔

 
خویش دار و خویش باز و خویش ساز
نازہا می پرورد اندر نیاز

مطلب: یہی جوہر (خودی) ہے جو اپنے آپ کو قائم بھی رکھتا ہے، اپنے جلوے بھی بکھیرتا ہے اور ترقی، تعمیر و استواری میں بھی لگا رہتا ہے ۔ وہ نیاز کے پردے میں ناز پالتا ہے ۔

 
آتشی از سوز او گردد بلند
این شرر بر شعلہ اندازد کمند

مطلب: اس کے سوز سے آگ بلند ہوتی ہے اور یہ چھوٹی سی چنگاری ہونے کے باوجود شعلے پر کمند ڈالتی ہے تا کہ اسے قابو میں لے آئے ۔ (مطلب یہ ہے کہ خودی میں بے پناہ زور ہوتا ہے وہ ہر چیز کو مسخر کر لینے کے لیے بیتاب ہوتی ہے اور قوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ چھوٹی سی چنگاری بڑے بڑے شعلے پر جا گرتی ہے) ۔

 
فطرتش آزاد و ہم زنجیری است
جزو او را قوت کل گیری است

مطلب: اس کی فطرت آزاد بھی ہے اور قید بھی اس کے جزو میں کل پر قابو پا لینے کی قوت موجود ہے (آزاد اس لیے کہ خودی جو چاہے کر سکتی ہے قید اس لیے کہ وہ اپنے ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی ) ۔

 
خوگر پیکار پیہم دیدمش
ہم خودی ہم زندگی نامیدمش

مطلب: میں نے اسے مسلسل جنگ و جدل ، جدوجہد میں دیکھا ہے، میں نے اسی جوہر کو خودی بھی قرار دیا ہے اور زندگی بھی (خودی کا نام بھی دیا ہے اور زندگی کا نام بھی) ۔

 
چون ز خلوت خویش را بیرون دہد
پای در ہنگامہ جلوت نہد

مطلب: جب یہ جوہر خلوت سے باہر نکلتا ہے تو جلوت کے ہنگامہ زار میں پاؤں رکھتا ہے

 
نقش گیر اندر دلش او می شود
من ز ہم می ریزد و تو می شود

مطلب: تو اس کے دل پر اور نقش ثبت ہو جاتا ہے ۔ من اپنے آپ سے کٹ کر درمیان سے نکل کر تو بن جاتا ہے میں سے تو بننے کا مطلب یہی ہے کہ جب تک میں ، میں ، تھا اس میں خود غرضی تھی، ایثار نہ تھا،جب میں ، او ، اور ، تو، بنا تو خود غرضی محو ہو گئی اور اس کی جگہ ایثار نے لے لی ۔

 
جبر قطع اختیارش می کند
از محبت مایہ دارش می کند

مطلب: جماعت خودی پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے گویا جبر خودی کا اختیار ختم کر دیتا ہے اور اسے محبت کی دولت بخش دیتا ہے ۔

 
ناز تا ناز است کم خیزد نیاز
نازہا سازد بہم خیزد نیاز

مطلب: ناز جب تک ناز ہے اس سے نیاز پیدا نہیں ہوتا ۔ جب بہت سے ناز اکھٹے ہو جاتے ہیں تو نیا نیاز رونما ہو جاتا ہے ۔

 
در جماعت خود شکن گردد خودی
تا ز گلبرگی چمن گردد خودی

مطلب: جماعت میں شامل ہونے پر خودی اپنے وجود کو ختم کر دیتی ہے ۔ اسی طرح وہ پھول کی پتی سے چمن کی صورت اور وسعت پا لیتی ہے ۔ یعنی خودی علیحدگی سے نکل کر جماعت میں پہنچتی ہے تو خود شکنی سے جماعت کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتی ہے ۔ غرض یہ ہوتی ہے کہ پھول کی ایک پنکھڑی باغ کی صورت اختیار کر ے ۔

 
نکتہ ہا چون تیغ پولاد است تیز
گر نمی فہمی ز پیش ما گریز

مطلب: خودی اور بیخودی کا تعلق واضح کر چکنے کے بعد مولانا روم کا مشہور شعر دہراتے ہیں کہ میں جو نکتے بیان کر رہا ہوں وہ فولاد ی تلوار سے زیادہ تیز ہیں ۔ اگر تو انہیں نہیں سمجھتا تو میرے سامنے سے دور ہو جا، بھاگ جا ۔