Please wait..

(۶)

 
غم پنہان کہ بے گفتن عیان است
چو آید بر زبان یک داستان است

مطلب: میرا چھپا ہوا غم بغیر کہے تمام لوگوں پر ظاہر ہے ۔ جب زبان پر آتا ہے تو ایک داستان بن جاتا ہے ۔

 
رہے پر پیچ و راہی خستہ و زار
چراغش مردہ و شب درمیان است

مطلب: دشوار گزار راستے اور خستہ حال اور کمزور و ناتواں سفر کرنیوالا گویا چراغ بجھ گیا ہو اور رات درمیان میں ہو ۔

 
بہ راغان لالہ رست از نو بہاران
بصحرا خیمہ گستردند یاران

مطلب: سبزہ زار میں نئی بہار کے آنے سے لالے کے پھول کھل گئے اور دوستوں نے صحرا میں خیمے لگا لیے ۔

 
مرا تنہا نشستن خوشتر آید
کنار آبجوے کوہساران

مطلب: مجھے پہاڑوں کے سلسلے میں نہر کے کنارے اکیلے بیٹھنا زیادہ اچھا لگتا ہے ۔

(۷)

 
گہے شعر عراقی را بخوانم
گہے جامی زند آتش بجانم

مطلب: اقبال فارسی شعرا فخر الدین عراقی اور عبدالرحمٰن جامی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کبھی میں عراقی کے شعر پڑھتا ہوں ، کبھی جامی کے شعر میری جان میں آگ لگا دیتے ہیں ۔

 
ندانم گرچہ آہنگ عرب را
شریک نغمہ ہاے ساربانم

مطلب: اگرچہ میں عرب کے گیتوں کی لے نہیں جانتا لیکن ساربان کے نغموں میں شریک ہوتا ہوں ۔

 
غم راہی نشاط آمیز تر کن
فغانش را جنون انگیز تر کن

مطلب: راہی کے غم کو زیادہ خوشی عطا کر، اس کی فریاد کو زیادہ جنون عطا کر ۔

 
بگیر اے ساربان راہ درازے
مرا سوز جدائی تیز تر کن

مطلب: اے اونٹنی کی مہار پکڑ کر چلنے والے (مدینہ منورہ پہنچنے کے لیے) لمبا راستہ اختیار کر ، میری جدائی کی تپش کو مزید بڑھا دے ۔

(۸)

 
بیا اے ہم نفس باہم بنالیم
من و تو کشتہ شان جمالیم

مطلب: اے میرے دوست آ ہم اکھٹے ملکر روئیں ۔ کیونکہ ہم دونوں جلوہ محبوب (رسول اللہ ﷺ) کے مارے ہوئے ہیں ۔

 
دو حرفے بر مراد دل بگوئیم
بپاے خواجہ چشمان را بمالیم

مطلب: اپنے دل کی آرزو سے متعلق کچھ نہیں اور خواجہ (رسول اللہ ﷺ) کے پاؤں سے اپنی آنکھیں ملیں ۔

 
حکیمان را بہا کمتر نہادند
بنادان جلوہ مستانہ دادند

مطلب: یہاں مدینہ میں عقلمندوں کو کم قیمت پہ رکھا جاتا ہے ۔ اور نادانوں کو مست جلوے عطا کیے جاتے ہیں ۔

 
چہ خوش بختے چہ خرم روزگارے
در سلطان بہ درویشے کشادند

مطلب: کیا خوش قسمتی ہے اور کیا خوش و خرم زندگی ہے کہ میری طرح کے درویش کے لیے سلطان (رسول اکرمﷺ) کے دروازے کھول دیے گئے ہیں ۔

 
جہان چار سو اندر بر من
ہواے لامکان اندر سر من

مطلب: چاروں اطراف والا جہان میرے پہلو میں سما گیا ہے اب میرے سر میں لامکاں کی آرزو پیدا ہو گئی ہے ۔

 
چو بگزشتم ازیں بام بلندے
چو گرد افتاد پرواز از پر من

مطلب: جب میں اس بلند مقام (لامکان) سے گزر گیا تو میرے پروں سے پرواز کی طاقت گرد کی طرح جھڑ گئی (گویا ساری کائنات میرے اندر سما گئی ) ۔

 
دریں وادی زمانی جاودانی
ز خاکش بے صور روید معانی

مطلب: وادی زمانی میں ہمیشگی حاصل کرتا ہے اس کی خاک سے بغیر صورت کے معانی پیدا ہوتے ہیں ۔

 
حکیمان با کلیمان دوش بردوش
کہ این جا کس نگوید لن ترانی

مطلب: یہاں باحکمت لوگ اور اللہ سے کلام کرنے والے برابر ہیں ۔ کیونکہ اس جگہ کسی کو لن ترانی نہیں کہا جاتا ۔

(۹)

 
مسلمان آن فقیر کج کلاہے
رمید از سینہ او سوز آہے

مطلب: وہ مسلمان جو فقیری میں بھی بادشاہ ہے یعنی فقیری میں بھی اللہ کے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ اس کے سینے سے آہ کا سوز مٹ گیا ۔

 
دلش نالد چرا نالد نداند
نگاہے یا رسول اللہ نگاہے

مطلب: اس کا دل آہ و فریاد کر رہا ہے ۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کا دل کیوں آہ و فریاد کر رہا ہے ۔ اسے رسول اللہ ایک نگاہِ کرم کر کے اس کی تقدیر بدل دیجیے ۔

 
تب و تاب دل از سوز غم تست
نواے من ز تاثیر دم تست

مطلب: میرے دل کی حرارت اور سوز تیرے غم کی تڑپ سے ہے ۔ میری نوا میں اثر تیرے دم سے ہی ہے ۔

 
بنالم زانکہ اندر کشور ہند
ندیدم بندہ کو محرم تست

مطلب: میں رو رہاں ہوں کیونکہ ہندوستان کی سلطنت میں میں نے کسی کو تیری ذات کی حقیقت کو پہچاننے والا مومن نہیں دیکھا ۔

 
شب ہندی غلامان را سحر نیست
باین خاک آفتابے را گزر نیست

مطلب: ہندوستان کے غلاموں کی رات کی صبح نہیں ہے ۔ اس مٹی میں سورج کی روشنی کے گزارنے کا راستہ نہیں ہے یعنی مسلسل تاریکی چھائی ہوئی ہے ۔

 
بما کن گوشہ چشمے کہ در شرق
مسلمانے ز ما بیچارہ تر نیست

مطلب: ہماری جانب نظر کرم کر کیونکہ مشرق میں ہم غلام مسلمان سے زیادہ کوئی مسلمان بے بس نہیں ہے ۔

 
چہ گویم زان فقیرے دردمندے
مسلمانے بہ گہر ارجمندے

مطلب: میں اس درد رکھنے والے فقیر کے بارے میں کیا کہوں ۔ اس مسلمان کی ذات کا گوہر بڑا قیمتی ہے ۔

 
خدا این سخت جان را یار بادا
کہ افتاد است از بام بلندے

مطلب: خدا اس سخت جان کا مددگار ہو جو بہت بلند چھت (عروج) سے (پستی) میں گرا ہے ۔

 
چسان احوال او را بر لب آرم
تو می بینی نہان و آشکارم

مطلب: میں اس کے احوال کو کس طرح زبان پر لاؤں کہ تو میرے چھپی ہوئی اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے ۔

 
ز روداد دو صد سالش ہمین بس
کہ دل چوں کندہ قصاب دارم

مطلب: میں اس کی دو سو سالہ زندگی کے حال سے بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنا دل قصاب کے لکڑی کے اس موٹے ٹکڑے کی طرح رکھتا ہوں جس پر وہ قیمہ کوٹتا ہے ۔

 
ہنوز این چرخ نیلی کج خرام است
ہنوز این کاروان دور از مقام است

مطلب: ابھی تک آسمان ٹیڑھی چال چل رہا ہے ۔ ابھی تک یہ قافلہ اپنے مقام سے دور ہے ۔

 
ز کار بے نظام او چہ گویم
تو می دانی کہ ملت بے امام است

مطلب: میں اس کی زندگی کے بے ترتیب کام سے متعلق کیا کہوں ۔ تو جانتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا کوئی رہنما نہیں ہے ۔

 
نماند آن تاب و تب در خون نابش
نروید لالہ از کشت خرابش

مطلب: اس کے (دورِ حاضر کے مسلمان) کے خون میں پہلے والی طاقت، توانائی اور جذبہ نہیں اسی لیے ان کے ویران کھیت میں کوئی گل لالہ نہیں اگتا ۔

 
نیام او تہی چون کیسہ او
بطاق خانہ ویران کتابش

مطلب: اس (آج کا مسلمان) کی نیام اس کی جیب کی طرح خالی ہے ۔ یعنی نہ اس کی جیب میں پیسہ ہے اورنہ اس کی نیام میں تلوار ہے ۔ اور اس کی کتاب (قرآن )ویران گھر کے طاق میں رکھی ہوئی ہے

 
دل خود را اسیر رنگ و بو کرد
تہی از ذوق و شوق و آرزو کرد

مطلب: دورِ حاضر کے مسلمان نے اپنے دل کو رنگ و بو کا قیدی بنا لیا ہے ۔ اورر اس کا دل ذوق و شوق اور خواہشات سے خالی ہو گیا ہے ۔

 
صفیر شاہبازان کم شناسد
کہ گوشش باطنیں پشہ خو کرد

مطلب: وہ شاہبازوں کی آواز کو نہیں پہچانتا کیونکہ اس نے اپنے کانوں کو مچھر کی بھنبھناہٹ کا عادی کر لیا ہے ۔

 
بروے او در دل ناکشادہ
خودی اندر کف خاکش نزادہ

مطلب: اس کے سامنے دل کا دروازہ نہیں کھلا ہوا ۔ اس کی مٹی کی مٹھی (جسم) میں خودی پیدا نہیں ہوئی ۔ مراد اپنی ذات کے جوہر اور اپنی حقیقت کو نا آشنا ہے ۔

 
ضمیر او تہی از بانگ تکبیر
حریم ذکر او از پا فتادہ

مطلب: اس کا ضمیر اللہ اکبر کی آواز سے خالی ہے ۔ اس کے ذکر کا حریم (یعنی دل سے اللہ کا ذکر) ختم ہو چکا ہے ۔

 
گریبان چاک و بے فکر رفو زیست
نمیدانم چسان بے آرزو زیست

مطلب: اس کا گریبان پھٹ چکا ہے اور اسے رفو کرنے کی پرواہ کیے بغیر زندہ ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ خواہشات کے بغیر کیسے زندگی بسر کر رہا ہے ۔

 
نصیب اوست مرگ ناتمامے
مسلمانے کہ بے اللہ ہو زیست

مطلب: اس کی قسمت میں نامکمل موت لکھی ہوئی ہے ۔ وہ مسلمان جو اللہ ہو کے بغیر زندگی گزار رہا ہے یعنی نہ وہ زندہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور مردوں میں گویا غیر اللہ کی غلامی کر رہا ہے ۔

 
حق آن دہ کہ مسکین و اسیر است
فقیر و غیرت او دیر میر است

مطلب: اس کا حق عطا کر کیونکہ وہ مفلس بھی ہے اور قیدی بھی ۔ وہ فقیر ہے البتہ اس کی غیرت دیر سے مرنے والی ہے ۔

 
بروے او در میخانہ بستند
دریں کشور مسلمان تشنہ میر است

مطلب: اس کے لیے شراب خانے کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے ۔ اس سلطنت میں مسلمان پیاسا مر رہا ہے ۔

 
دگر پاکیزہ کن آب و گل او
جہانے آفریں اندر دل او

مطلب: اس کے پانی اور مٹی (جسم) کو دوبارہ پاک کر ۔ اس کے دل میں ایک نئی دنیا آباد کر ۔

 
ہوا تیز و بدامانش دو صد چاک
بیندیش از چراغ بسمل او

مطلب: ہوا تیز ہے اور اس کا دامن دو سو چاک سے بھر چکا ہے ۔ اس کو غور سے دیکھ اس کا دیا بجھنے کے قریب ہے ۔ مراد یہ کہ مسلمان نیست و نابود ہو رہے ہیں ان پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اسلام زندہ رہ سکے ۔

(۱۰)

 
عروس زندگی در خلوتش غیر
کہ دارد در مقام نیستی سیر

مطلب: زندگی کی دلہن ان غیروں کی خلوت میں ہے ۔ کیونکہ مسلمان مقام نیستی کی سیر کر رہا ہے ۔ مراد یہ کہ زندگی کی آسائشوں سے محروم ہو کر بے عملی کی زندگی بسر کر رہا ے ۔

 
گنہگاریست پیش از مرگ در قبر
نکیرش از کلیسا منکر از دیر

مطلب: وہ ایسا گنہگار ہے جو موت سے پہلے قبر میں جا چکا ہے ۔ اس سے منکر اور نکیر حساب کتاب لے رہے ہیں ۔

 
بچشم او نہ نور و نے سرور است
نہ دل در سینہ او ناصبور است

مطلب: اس کی آنکھ میں نہ نور ہے اور نہ سرور ۔ اور نہ ہی اس کے سینے میں بے قرار (عاشق ) دل ہے ۔

 
خدا آن امتے را یار بادا
کہ مرگ او ز جان بے حضور است

مطلب: خدا ہی اس امت کا مددگار رہے کیونکہ اس کی موت بے حضور زندگی سے ہے ۔ یعنی مسلمان کی زندگی کا زوال اللہ کے بے حضوری کی وجہ سے ہے ۔

 
مسلمان زادہ و نامحرم مرگ
ز بیم مرگ لرزان تا دم مرگ

مطلب: مسلمان ہو کر موت کی حقیقت سے نا آشنا ہے ۔ کیونکہ وہ موت تک موت کے خوف سے کانپتا رہتا ہے ۔

 
دلے در سینہ چاکش ندیدم
دم بگستہ بود و غم مرگ

مطلب: میں نے اس کے (مصائب اور غموں سے) چاک سینے میں دل نہیں دیکھا ۔ البتہ بزدلی اور گھبراہٹ والا سانس اور موت کا غم موجود ہے ۔

 
ملوکیت سراپا شیشہ بازی است
ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است

مطلب: نظام ملوکیت سراسر دھوکا دہی اور دکھاوا ہے ۔ اس سے نہ کوئی رومی اور نہ حجازی بچ سکتا ہے ۔

 
حضور تو غم یاران بگویم
بامیدے کہ وقت دل نوازی است

مطلب: میں آپ کے آگے دوستوں کا غم بیان کر رہا ہوں اس امید پر کہ یہ دلوں کو تسلی دینے کا وقت ہے ۔

 
تن مرد مسلمان پایدار است
بناے پیکر او استوار است

مطلب: مسلمان مرد کا جسم مضبوط ہے اس کے بدن کی بنیاد مستحکم ہے ۔ یعنی آج کا مسلمان جسم کی پرورش کر رہا ہے ۔

 
طبیب نکتہ رس دید از نگاہش
خودی اندر وجودش رعشہ دار است

مطلب: اس پر بات کی تہہ تک پہنچنے والے طبیب نے نظر ڈالی ۔ تو معلوم ہوا کہ اس کے وجود میں خودی کپکپا رہی ہے ۔ یعنی معرفت حق کی پہچان نہیں رکھتا ۔

 
مسلمان شرمسار از بے کلاہی است
کہ دینش مرد و فقرش خانقاہی است

مطلب: مسلمان دنیا میں اپنی بے وقعتی کی وجہ سے شرمندہ ہے ۔ کیونکہ اس کا دین مردہ ہے اور اس کا فقر خانقاہی بے عمل ہے

 
تو دانی در جہان میراث ما چیست
گلیمے از قماش پادشاہی است

مطلب: تو جانتا ہے کہ دنیا میں ہماری میراث کیا ہے ہمارا ورثہ ایک گدڑی ہے جو اسلاف کے مال و متاع سے حاصل کیا گیا ہے ۔

 
مپرس از من کہ احوالش چسان است
زمینش بد گہر چون آسمان است

مطلب: مجھ سے مت پوچھ کہ مسلمان کا حال کیسا ہے کیونکہ اس کی زمین آسمان کی طرح اس کے لیے ناموافق ہے (وہ ذلت کی زندگی بسر کر رہا ہے ) ۔

 
بر آن مرغے کہ پروردی بانجیر
تلاش دانہ در صحرا گران است

مطلب: اس پرندے پر جس کی انجیر سے پرورش کی ہے اس کے لیے صحرا میں دانہ تلاش کرنا بھاری ہے ۔

 
بچشمش وا نمودم زندگی را
کشودم نکتہ فردا و دی را

مطلب: میں نے اس کی (مسلمان کی) آنکھوں کے سامنے زندگی کی حقیقت رکھی ۔ میں نے ماضی اور مستقبل کے راز کھولے ۔

 
توان اسرار جان را فاش تر گفت
بدہ نطق عرب این اعجمی را

مطلب: میں زندگی کے رازوں کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ تو مجھ عجمی کو عرب کی زبان عطا کر ۔ کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کی زبان ہے ۔

 
مسلمان گرچہ بے خیل و سپاہے است
ضمیر او ضمیر پادشاہے است

مطلب: مسلمان اگرچہ لشکری گھوڑے اور سپاہی نہیں رکھتا ۔ اس کا ضمیر بادشاہوں کے ضمیر جیسا ہے ۔

 
اگر او را مقامش باز بخشند
جمال او جلال بے پناہے است

مطلب: اگر اس کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس بخش دیا جائے تو اس کا جمال بہت زیادہ رعب و دبدبہ رکھتا ہے ۔

 
متاع شیخ اساطیر کہن بود
حدیث او ہمہ تخمین و ظن بود

مطلب: شیخ (روحانی و مذہبی امام) کا سارا علم پرانی داستانیں کہنے تک ہے ۔ اس کی ساری باتیں اندازے اور گمان پر مبنی ہیں یعنی وہ خود بھی حقیقی معنوں میں اسلام کی روح تک پہنچنے سے قاصر ہے ۔

 
ہنوز اسلام او زنار دار است
حرم چون دیر بود او برہمن بود

مطلب: ابھی تک اس کا اسلام زنار دار ہے ۔ اس کے لیے کعبہ مندر کی طرح ہے اس کا امام برہمن ہے ۔

 
دگرگون کرد لادینی جہان را
ز آثار بدن گفتند جان را

مطلب: آج لادینیت نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا ہے ۔ روح کو بھی جسم کے نشانات میں سے (مادی چیز) کہا جاتا ہے ۔

 
از آن فقرے کہ باصدیق دادی
بشورے آور این آسودہ جان را

مطلب: اس درویشی سے جو حضرت صدیق کو دی گئی اس مطمئن اور بے عمل مسلمان میں اسلام کو اپنانے کے لیے جوش پیدا کریں ۔

 
حرم از دیر گیرد رنگ و بوے
بت ما پیرک ژولیدہ موے

مطلب: کعبہ (اسلام) مندر سے خوبصورتی حاصل کر رہا ہے ۔ ہمارا بت بکھرے ہوئے بالوں والا مذہبی اور روحانی پیشوا ہے ۔ یعنی ہمارے امام کے ظاہر و باطن میں بھی فرق ہے ۔

 
نیابی در بر ما تیرہ بختان
دلے روشن ز نور آرزوے

مطلب: ہم بری قسمت والوں کے پہلو میں آرزو کے نور سے روشن دل نہیں ملیں گے ۔

 
فقیران تا بمسجد صف کشیدند
گریبان شہنشاہان دریدند

مطلب: جب تک فقیری رہی مسجد میں صفیں بناتے رہے یعنی باعمل اور شریعت کے پابند رہے اور بادشاہوں کے گریبانوں کو پھاڑنے والے ہو گئے ۔ یعنی جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہتے رہے ۔

 
چو آن آتش درون سینہ افسرد
مسلمانان بدرگاہان خزیدند

مطلب: جب وہ فقر کی آگ سینوں (مسلمانوں ) میں بجھ گئی اور وہ خانقاہی فقر (دنیا کی تگ و دو سے کنارہ کش فقر) کی طرف جانے والے ہو گئے ۔

 
مسلمانان بخویشان در ستیزند
بجز نقش دوئی بر دل نہ ریزند

مطلب: آج کس مسلمان اپنوں سے لڑنے والا ہے ۔ وہ اپنے دل پر دوئی (فرقہ پرستی) کے نقش کے سوا کچھ نہیں بنا رہے ۔

 
بنالند ار کسے خشتے بگیرد
ازان مسجد کہ خود ازوے گریزند

مطلب: ان کی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص (غیر مسلم) ان کی بنیاد (مسجد) کی کچی اینٹ بھی اکھاڑتا ہے تو اسے پکڑ لیتے ہیں ۔ باوجودیکہ وہ خود اس مسجد سے بھاگنے والے ہیں ۔

 
جبیں را پیش غیر اللہ سودیم
چو گبران در حضور او سرودیم

مطلب: ہم نے پیشانی کو غیر اللہ کے سامنے گھسایا ۔ اس کے سامنے آتش پرستوں کی طرح نغمے گائے ۔

 
ننالم از کسے می نالم از خویش
کہ ما شایان شان تو نبودیم

مطلب: میں کسی سے نالاں نہیں ہوں ۔ میں خود سے نالاں ہوں کیونکہ ہم تیری (آپ) کی شان کے قابل نہیں ہیں ۔

 
بدست میکشان خالی ایاغ است
کہ ساقی را بہ بزم می فراغ است

مطلب: شراب پینے والوں کے ہاتھ میں خالی پیالے ہیں کہ ساقی کو میری محفل میں فراغت ہے ۔ یعنی ہدایت دینے والے مدرسے میں موجود نہیں ہیں ۔

 
نگہ دارم درون سینہ آہے
کہ اصل او ز دود آن چراغ است

مطلب: میں اپنے سینے میں آہ پر نظر رکھے ہوئے ہوں ۔ کیونکہ اس کی اصل اس چراغ کے دھوئیں سے ہے ۔

 
سبوے خانقاہان خالی از مے
کند مکتب رہ طے کردہ را طے

مطلب: خانقاہوں کے مٹکے (معرفت حق) کی شراب سے خالی ہیں ۔ دینی مدارس اس راہ کو طے کر رہے ہیں جو پہلے طے کی جا چکی ہے ۔ یعنی جدید علوم کے بجائے قدیم علوم پڑھائے جا رہے ہیں ۔ زمانے کی رفتار کے مطابق تحقیق و تنقید کی کوئی بات نہیں کی جاتی ۔

 
ز بزم شاعران افسردہ رفتم
نواہا مردہ بیرون افتد از نے

مطلب: دورِ حاضر کا مسلمان مجلس شعراء میں گیا اور افسردہ واپس آیا ۔ کیونکہ ان کی بنسری سے پیدا ہونے والی صدائیں مردہ ہیں ۔

 
مسلمانم غریب ہر دیارم
کہ با این خاکدان کارے ندارم

مطلب: میں مسلمان ہوں ۔ مجھے ہر شہر میں اجنبی سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ میرا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔

 
باین بے طاقتی در پیچ و تابم
کہ من دیگر بغیر اللہ دچارم

مطلب: میں اپنی اس بے طاقتی پر بے چین و بے قرار ہوں کیونکہ میں ایک مرتبہ پھر غیر اللہ سے واسطہ ہے ۔ غیر اللہ سے مراد انگریز جو نمرود ، فرعون اور شداد کے نمائندے ہیں ۔

 
بآن بالے کہ بخشیدی پریدم
بسوز نغمہ ہاے خود تپیدم

مطلب: میں تیرے عطا کیے ہوئے ان پروں سے اڑا ۔ میں خود اپنے نغموں کے سوز و حرارت میں تڑپا ۔ یعنی اللہ اور رسول کے احکامات کی پیروی کی ۔

 
مسلمانے کہ مرگ از وے بلرزد
جہان گردیدم و او را ندیدم

مطلب: مسلمان جس سے موت کا نپتی ہے میں دنیا میں پھرا ہوں میں نے اس کو نہیں دیکھا ۔ یعنی سچے مسلمان کا وجود نہیں رہا ۔

 
شبے پیش خدا بگریستم زار
مسلمانان چرا زارند و خوارند

مطلب : میں ایک رات خدا کے سامنے زارو قطار رویا ۔ مسلمان دکھ اور تکلیف میں کیوں ہیں اور ذلالت اٹھا رہے ہیں ۔

 
ندا آمد نمی دانی کہ این قوم
دلے دارند و محبوب ندارند

مطلب: آواز آئی، کیا تو نہیں جانتا کہ یہ قوم دل تو رکھتی ہے لیکن محبوب (حضرت محمد) نہیں رکھتی ۔

 
نگویم از فرو فالے کہ بگزشت
چہ سود از شرح احوالے کہ بگزشت

مطلب: میں کچھ نہیں کہتا مسلمانوں کی شان و شوکت سے متعلق جو گزر گئی ہے ۔ اس احوال کی وضاحت کرنے کا کیا فائدہ جو گزر گیا ہے ۔

 
چراغے داشتم در سینہ خویش
فسرد اندر دو صد سالے کہ بگزشت

مطلب: میں اپنے دل میں ایک ایسا چراغ رکھتا تھا ۔ ان دو سو سالوں میں بجھ گیا ہے جر گزر چکے ہیں ۔

 
نگہبان حرم معمار دیر است
یقینش مردہ و چشمش بغیر است

مطلب: کعبہ کا محافظ بت خانہ بنا رہا ہے اس کا یقین مردہ اور اس کی آنکھ غیروں پر ہے ۔ یعنی اسلام سے بدظن ہو کر مغربیت پر فریفتہ ہے ۔

 
ز انداز نگاہ او توان دید
کہ نومید از ہمہ اسباب خیر است

مطلب: اس کی نگاہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی کے تمام اسباب سے نا امید ہے ۔

 
ز سوز این فقیر رہ نشینے
بدہ او را ضمیر آتشینے

مطلب: راستے میں بیٹھنے والے اس فقیر کے سوز سے اس کو آگ کی سی حرارت والا ضمیر دے ۔

 
دلش را روشن و پایندہ گردان
ز امیدے کہ زاید از یقینے

مطلب: اس کے دل کو روشنی اور ہمیشہ کی زندگی عطا کر ۔ اس امید سے جو اس میں یقین سے پیدا ہوتی ہے ۔

 
گہے افتم گہے مستانہ خیزم
چہ خون بے تیغ و شمشیرے بریزم

مطلب: کبھی میں گرتا ہوں کبھی مست حال اٹھتا ہوں ۔ کیا خون ہے جو میں تلوار اور تیغ کے بغیر بہا رہا ہوں ۔

 
نگاہ التفاتے بر سر بام
کہ من با عصر خویش اندر ستیزم

مطلب: چھت کے کنارے سے مہربانی کی نگاہ کر کیونکہ میں اپنے زمانے سے لڑ رہا ہوں ۔