Please wait..

(۱۱)

 
مرا تنہائی و آہ و فغان بہ
سوے یثرب سفر بے کاروان بہ

مطلب: میرے لیے تنہائی اور گریہ و زاری بہتر ہے ۔ میرے لیے بغیر قافلے کے مدینے کی طرف سفر کرنا بہتر ہے ۔

 
کجا مکتب کجا میخانہ شوق
تو خود فرما مرا این بہ، کہ آن بہ

مطلب: کہاں مدرسہ، کہاں شوق کا شراب خانہ (عشق) تو خود ہی بتا کہ میرے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ یعنی عشق پردے سے باہر نکالتا ہے ۔

 
پریدم در فضاے دلپذیرش
پرم تر گشت از ابر مطیرش

مطلب: میں اس کی پسندیدہ دل کو لبھانے والی فضا میں اڑا ۔ میرے پر اس کی برسنے والی بارش سے بھیگ گئے ۔

 
حرم تا در ضمیر من فرو رفت
سرودم آنچہ بود اندر ضمیرش

مطلب: جب کعبہ (اسلام) میرے ضمیر میں آبسا تو میں نے وہ نغمہ گایا جو میرے اس ضمیر میں تھا ۔ یعنی شاعری کے ذریعے اسلام کا پیغام سنایا ۔

 
بآن رازے کہ گفتم پے نبردند
ز شاخ نخل من خرما نخوردند

مطلب: وہ راز جو میں نے ظاہر کر دیا (مسلمان) اس پر نہ چلے ۔ انھوں نے میرے درخت کی شاخ سے کھجور نہیں کھائی ۔

 
من ای میر امم دل داد تو خواہم
مرا یاران غزلخوانے شمردند

مطلب: اے امتوں کے امام (حضرت محمد) میں تجھ سے داد وصول کرنا چاہتا ہوں ۔ لوگوں نے تو مجھے غزل کہنے والوں میں شمار کیا ۔

 
نہ شعر است اینکہ بروے دل نہادم
گرہ از رشتہ معنی کشادم

مطلب: یہ محض شعر نہیں ہے جس میں ، میں نے دل لگا رکھا ہے ۔ بلکہ میں معنی کی گرہیں شعر کے ذریعے کھول رہا ہوں ۔

 
بامیدے کہ اکسیرے زند عشق
مس این مفلسان را تاب دادم

مطلب: اس امید پر کہ عشق اکسیر (نہایت پختہ) بن کر لگے ۔ میں ان غریبوں کے تانبے کو آگ کی چمک دے رہا ہوں ۔

 
تو گفتی از حیات جاودان گوے
بگوش مردہ پیغام جان گوے

مطلب: تو نے کہا کہ ہمیشہ کی زندگی کی بات کر ۔ مردہ دلوں کے کان کو زندگی کا پیغام سنا ۔

 
ولے گویند این ناحق شناسان
کہ تاریخ وفات این و آن گوے

مطلب: لیکن یہ حق کو نہ پہچاننے والے مسلمان کہتے ہیں کہ اس کی اور اس کی تاریخ وفات کہہ ۔

 
رخم از درد پنہان زعفرانی
تراود خون زچشم ارغوانی

مطلب: میرا چہرہ چھپے ہوئے غم کی وجہ سے زرد ہے ۔ میری سرخ آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے(امت مسلمہ کی حالت زار دیکھ کر شاعر کا دل اور آنکھ خون کے آنسو رو رہا ہے) ۔

 
سخن اندر گلوے من گرہ بست
تو احوال مرا ناگفتہ دانی

مطلب: میری بات نے میرے حلق میں گرہ لگا دی ہے ۔ تو میرا حال احوال میرے بغیر کہے ہی جانتا ہے ۔

 
زبان ما غریبان از نگاہیست
حدیث دردمندان اشک و آہیست

مطلب: ہم غریبوں کی زبان سے نگاہ کو جان لے ۔ دردمندون کی گفتگو آنسو اور آ ہ میں چھپی ہوئی ہے ۔

 
کشادم چشم و بربستم لب خویش
سخن اندر طریق ما گناہیست

مطلب: میں نے آنکھ کھولی اور ہونٹ بند کیے ہوئے ہیں ۔ میرے طریق (مذہب) میں بات کرنا گناہ ہے ۔

 
خودی دادم ز خود نامحرمے را
کشادم در گل او زمزمے را

مطلب: میں نے خود (اپنی پہچان کے راز) سے ناواقف مسلمان کو خودی کی دولت عطا کی ۔ میں نے اس کی مٹی میں آب زمزم (اسلامی طرز زندگی کے حقائق ) کو ملایا ۔

 
بدہ آن نالہ گرمے کہ ازوے
بسوزم جز غم دین ہر غمے را

مطلب: مجھے وہ آہ و زاری عطا کر کہ جس سے میں دین کے غم کے سوا ہر غم کو جلا دوں ۔

 
درون ما بجز دود نفس نیست
بجز دست تو ما را دسترس نیست

مطلب: ہمارے سینے میں سانس کے دھوئیں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ تیرے ساتھ کے سوا ہماری کچھ پہنچ نہیں ہے ۔

 
دگر افسانہ غم با کہ گویم
کہ اندر سینہ ہا غیر از تو کس نیست

مطلب: پھر میں اپنے غم کا افسانہ کس سے بیان کروں کیونکہ میرے سینے میں سوائے تمہارے کوئی اور بسا نہیں ہے ۔

 
غریبے دردمندے نے نوازے
ز سوز نغمہ خود در گدازے

مطلب: ایک دردمند اور بانسری بجانے والا اجنبی شاعر جو اپنے نغمے کی حرارت سے پگھل کر نرم و ملائم ہو چکا ہے ۔

 
تو می دانی چہ می جوید چہ خواہد
دلے از ہر دو عالم بے نیازے

مطلب: تو جانتا ہے کہ وہ کیا تلاش کرتا ہے ۔ کیا چاہتا ہے اس کا دل دونوں جہانوں سے بے نیا زہے ۔

 
نم و رنگ از دم بادے نجویم
ز فیض آفتاب تو برویم

مطلب: میں تروتازگی اور رنگ ہوا کے جھونکے میں نہیں تلاش کرتا کیونکہ میں تیرے سورج کے فیض سے اگا ہوں ۔

 
نگاہم از مہ و پرویں بلند است
سخن را بر مزاج کس نگویم

مطلب: میری نگاہ مہ و پروین سے بھی بلند ہے ۔ میں کسی ایک کے مزاج کے مطابق بات نہیں کہتا ۔

 
در آن دریا کہ او را ساحلے نیست
دلیل عاشقان غیر از دلے نیست

مطلب: اس دریا میں جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے ۔ عاشقوں کی دلیل دل کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

 
تو فرمودی رہ بطحا گرفتیم
وگرنہ جز تو ما را منزلے نیست

مطلب: تو آپ نے کہا تو ہم نے مکہ معظمہ کا راستہ اختیار کیا ۔ وگرنہ تیرے سوا ہماری کوئی منزل نہیں ہے ۔

 
مران از در کہ مشتاق حضوریم
ازان دردے کہ دادی ناصبوریم

مطلب: مجھے اپنے دروازے سے دور نہ کر کیونکہ میں آپ کا آرزومند ہوں ۔ میں اس درد سے بے چین و بے قرار ہوں جو آپ نے مجھے دیا ۔

 
بفرما چہ می خواہی بجز صبر
کہ ما ازوے دو صد فرسنگ دوریم

مطلب: ماسوائے صبر کے تو ہمیں جو کچھ چاہتا ہے عطا کر کیونکہ ہم اس سے دو سو میل کے فاصلے پر ہیں (عشق اور صبر دو متضاد چیزیں ہیں ) ۔

 
بہ افرنگی بتان دل باختم من
ز تاب دیریان بگداختم من

مطلب: میں فرنگی بتوں سے دل ہار گیا ۔ میں بت پرستوں کی حرارت سے پگھل گیا ۔ یعنی ہندووں اور انگریزوں کے طور طریقوں سے متاثر ہو گیا ہوں ۔

 
چنان از خویشتن بیگانہ بودم
چو دیدم خویش را نشناختم من

مطلب: میں خود سے اس قدر بیگانہ ہو گیا جب میں نے خود کو دیکھا تو نہ پہچان سکا ۔

 
مے از میخانہ مغرب چشیدم
بجان من کہ درد سر خریدم

مطلب: میں نے مغرب کے شراب خانہ سے شراب پی ۔ مجھے اپنی جان کی قسم میں نے سر کا درد خرید لیا ۔

 
نشستم با نکویان فرنگی
ازان بے سود تر روزے ندیدم

مطلب: میں یورپ کے نیک لوگوں (فلسفی اور دانشور) کے ساتھ بیٹھا مگر اس سے زیادہ بیکار دن میں نے نہیں دیکھا ۔

 
فقیرم از تو خواہم ہر چہ خواہم
دل کوہے خراش از برگ کاہم

مطلب: میں فقیر ہوں تجھ سے طلب کرتا ہوں جو کچھ بھی چاہتا ہوں اس لیے تو میرے گھاس کے تنکے سے پہاڑ کے دل میں خراش پیدا کر ۔

 
مرا درس حکیمان درد سر داد
کہ من پروردہ فیض نگاہم

مطلب: مجھے عقلمندوں کے پڑھاپے ہوئے سبق سے درد سر دیا ۔ کیونکہ میں آپ کی نگاہ کے فیض سے پرورش پاتا ہوں ۔

 
نہ با ملا نہ با صوفی نشینم
تو میدانی کہ من آنم نہ اینم

مطلب: میں صوفی اور ملا کے ساتھ نہیں بیٹھتا ہوں ۔ تو جانتا ہے کہ میں یہ ہوں ، نہ وہ ہوں ۔

 
نویس اللہ بر لوح دل من
کہ ہم خود راہم اورا فاش بینم

مطلب: میرے دل کی تختی پر اللہ لکھ تاکہ میں اپنے آپ کو اور اس کو (اللہ) کو ظاہر میں دیکھوں ۔

 
دل ملا گرفتار غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش ، غمے نیست

مطلب: ملا کا دل غم (عشق کا غم) کا قیدی نہیں ہے ۔ وہ دیکھنے والی نگاہ رکھتا ہے لیکن اس کی آنکھ میں غم نہیں ہے ۔

 
ازان بگریختم از مکتب او
کہ در ریگ حجازش زمزمے نیست

مطلب: میں اس لیے اس کے مدرسے سے بھاگا کیونکہ اس کی حجازی ریت (دینی باتوں میں ) آب زمزم (لطافت) نہیں ہے (وہ دین کی باتیں تو ضرور کرتا ہے لیکن اس میں خلوص اور سوز نہیں ہوتا ) ۔

 
سر منبر کلامش نیشدار است
کہ او را صد کتاب اندر کنار است

مطلب: منبر پر اس کا کلام چبھنے والا ہے کیونکہ اس کے پہلو میں سو کتاب ہے ۔

 
حضور تو من از خجلت نگفتم
ز خود پنہان و بر ما آشکار است

مطلب: میں آپ کے حضور شرمندگی کی وجہ سے نہیں بیان کیا ۔ وہ خود سے اپنی حقیقت سے چھپا ہوا ہے اور ہم پر ظاہر ہے ۔

 
دل صاحبدلان او برد یا من
پیام شوق او آورد یا من

مطلب: وہ ملا دل والوں کا دل لے گیا یا میں وہ عشق کا پیغام لے کر آیا یا میں

 
من و ملا ز کیش دین دو تیریم
بفرما بر ہدف او خورد یا من

مطلب: میں ا ور ملا دین کے تیردان کے دو تیر ہیں ۔ مجھے بتا کہ نشانے پر وہ لگا یا میں یعنی اس کے تیر (طور طریقوں ) کا اثر کسی پر ہوا یا میرے تیر کا ۔

 
غریبم درمیان محفل خویش
تو خود گویا کہ گویم مشکل خویش

مطلب: میں اپنی ہی محفل میں اجنبی ہوں تو ہی بتا کہ میں اپنی مشکل کس سے کہوں

 
ازان ترسم کہ پنہانم شود فاش
غم خود را نگویم بادل خویش

مطلب: میں اپنے راز کی ظاہر ہونے سے ڈرتا ہوں ۔ اسی لیے میں اپنے غم کو اپنے دل سے بھی نہیں کہتا ۔

 
دل خود را بدست کس ندادم
گرہ از روے کار خود کشادم

مطلب: میں نے اپنے دل کو کسی کے ہاتھ (اختیار ) میں نہیں دیا ۔ میں نے اپنے کام کے چہرے سے خود گانٹھ کھول دی ہے ۔

 
بر غیر اللہ کردم تکیہ یکبار
دو صد بار از مقام خود فتادم

مطلب: میں نے ایک مرتبہ اللہ کے سوا کسی دوسرے پر بھروسہ کیا تھا ۔ میں اس کی سزا کے طور پر دو سو بار خود اس میں (اپنے مقام سے )گرا ہوں ۔

 
ہمان سوز جنون اندر سر من
ہمان ہنگامہ ہا اندر بر من

مطلب: اسی طرح میرے سر میں دیوانگی کا سوز موجو د ہے ۔ اسی طرح میرے پہلو میں جوش و ولولہ ہے ۔

 
ہنوز از جوش طوفانے کہ بگزشت
نیا سود است موج گوہر من

مطلب: ابھی تک اس پرجوش طوفان سے گزر چکا ہے ۔ میرے گوہر کی موج کا کوئی فائدہ نہیں یعنی میرے دل یا عشق کی موج میں سکون نہیں وہ مسلسل بے قراری میں ہے ۔

 
ہنوز این خاک داراے شرر ہست
ہنوز این سینہ را آہ سحر ہست

مطلب: ابھی تک اس مٹی (جسم) میں (عشق کی) چنگاری موجود ہے ۔ ابھی تک اس سینے کو صبح کی نالہ و فریاد یاد ہے ۔

 
تجلی ریز بر چشم کہ بینی
باین پیری مرا تاب نظر ہست

مطلب: میری آنکھوں میں اپنا نور ظاہر کر کیونکہ اس بڑھاپے میں بھی میری آنکھوں میں نظر کی چمک موجود ہے ۔

 
نگاہم زانچہ بینم بے نیاز است
دل از سوز درونم در گداز است

مطلب: میری نگاہ جو کچھ بھی دیکھتی ہے میں اس کی پرواہ نہیں کرتا ۔ کیونکہ میرے اندر ونی سوز سے دل پگھلا ہوا ہے ۔ یعنی ظاہر سے ہٹ کر اندرونی دکھ درد محسوس کرتا ہے ۔

 
من و این عصر بے اخلاص و بے سوز
بگو با من کہ آخر این چہ راز است

مطلب: میں اور یہ سوز و اخلاص سے عاری زمانہ ہیں مجھ سے کہہ کہ آخر یہ کیا راز ہے یعنی میرا اس زمانے میں ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس زمانے کی برائیوں کا خاتمہ کردوں ۔

 
مرا در عصر بے سوز آفریدند
بخاکم جان پر شورے دمیدند

مطلب: مجھے اس بے درد زمانے میں پیدا کیا اور میری مٹی (جسم) میں پرشور روح پھونکی ۔

 
چو نخ در گردن من زندگانی
تو گوئی بر سر دارم کشیدند

مطلب: زندگی میری گردن میں ریشم کے پھندے کی مانند ہے جیسے کہ تو کہے مجھے پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا ہے ۔

 
نگیرد لالہ و گل رنگ و بویم
درون سینہ ام مرد آرزویم

مطلب: میرے رنگ و بو کو لالہ و گل قبول نہیں کرتے ۔ میرے سینے میں میری خواہش مر گئی ہے ۔

 
غم پنہان بحرف اندر نگنجد
اگر گنجد چہ گویم با کہ گویم

مطلب: میرا چھپا ہوا غم حروف میں نہیں بیان ہو سکتا ۔ اگر ایسا ہو سکتا ہو تو کیا کہوں اور کس سے کہوں

 
من اندر مشرق و مغرب غریبم
کہ از یاران محرم بے نصیبم

مطلب: میں مشرق اور مغرب میں اجنبی ہوں کیونکہ میں اپنے ہم راز دوستوں سے محروم ہوں ۔

 
غم خود را بگویم با دل خویش
چہ معصومانہ غربت را فریبم

مطلب: میں اپنا غم اپنے دل سے ہی کہتا ہوں ۔ کس معصومیت سے اپنی اجنبیت کا دھوکا دیتا ہوں ۔

 
طلسم علم حاضر را شکستم
ربودم دانہ و دامش گسستم

مطلب: میں نے دورِ حاضر کے علم کے جادو کو توڑ دیا ۔ میں نے اس کے دامن یا جال سے دانہ چھین لیا اور دامن چاک کر دیا ۔

 
خدا داند کہ مانند براہیم
بہ نار او چہ بے پروا نشستم

مطلب: خدا جانتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی طرح اس کی آگ سے کس طرح لاپرواہ ہو کر بیٹھا ۔ یعنی حضرت ابراہیم کی طرح وقت کے غرور کی جھوٹی بادشاہت کا راز فاش کر رہا ہوں ۔

 
بچشم من نگہ آوردہ تست
فروغ لا الہ آوردہ تست

مطلب: میری آنکھ میں جو (مومنانہ بصیرت) کی روشنی ہے وہ آپ کی لائی ہوئی یعنی عطا کی ہوئی ہے ۔ لا الہ کا نور بھی آپ کا عطا کیا ہوا ہے ۔

 
دو چارم کن بہ صبح من ر آنی
شبم را تاب مہ آوردہ تست

مطلب: مجھے دیدار کی صبح سے دوچار کر ۔ میری رات کو چاند کی چمک آپ کی عطا کردہ ہے ۔

 
چو خود را درکنار خود کشیدم
بہ نور تو مقام خویش دیدم

مطلب: جب میں نے خود کو اپنے دامن میں کھینچ لیا تو میں نے آپ کے نور سے اپنے مقام کو دیکھ لیا ۔

 
دریں دیر از نواے صبحگاہی
جہان عشق و مستی آفریدم

مطلب: میں نے اس زمانے میں صبح کی نوا سے عشق و مستی کا جہان پیدا کیا ۔

 
دریں عالم بہشت خرمے ہست
بشاخ او ز اشک من نمے ہست

مطلب: اس دنیا میں ایک تروتازہ (توحید اور اسلام ) جنت ہے ۔ میرے آنسووَں کی نمی سے اس کی شاخ تر ہے ۔

 
نصیب او ہنوز آن ہا و ہو نیست
کہ او در انتظار آدمے ہست

مطلب: ابھی اس کی قسمت میں وہ آہ و بکا نہیں ہے کیونکہ اسے ایک آدم یعنی خلیفتہ اللہ کی ضرورت ہے ۔

 
بدہ او را جوان پاکبازے
سرورش از شراب خانہ سازے

مطلب: اس کو اسلام کو ایک پاکباز جوان دے ۔ اس کا سرور شراب خانے کے ساز سے ہو ۔ یعنی بادہَ اسلام سے سرشار ہو ۔

 
قوی بازوے او مانند حیدر
دل او از دوگیتی بے نیازے

مطلب: اس کے بازو حضرت علی کے بازووَں کی طرح مضبوط ہوں ۔ اور اس کا دل دونوں عالم سے بے پرواہ ہو ۔

 
بیا ساقی بگردان جام مے را
ز مے سوزندہ تر کن سوز نے را

مطلب: اے ساقی آ اور عشق کی شراب کے پیالے کو محفل میں گردش میں لا ۔ شراب سے بانسری کی صدا کو مزید تیز کر ۔

 
دگر آن دل بنہ در سینہ من
کہ پیچم پنجہ کاوَس و کے را

مطلب: پھر سے میرے سینے میں اس دل کی بنیاد رکھ تاکہ میں کیکاوَس اور کیخسرو کے پنجوں کو مروڑوں ۔

 
جہان از عشق و عشق از سینہ تست
سرورش از مے دیرینہ تست

مطلب: دنیا عشق سے ہے اور تیرے سینے سے اس کا تعلق ہے ۔ اس کا لطف تیری پرانی شراب (اسلام کی روح) سے ہے ۔

 
جز این چیزے نمیدانم ز جبریل
کہ او یک جوہر از آئینہ تست

مطلب: میں اس بات کے علاوہ جبرئیل کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ آپ کے آئینے کا ایک جوہر ہے ۔

 
مرا این سوز از فیض دم تست
بتاکم موج مے از زمزم تست

مطلب: میری عشق کی یہ حرارت آپ کے دم کے فیض سے ہے ۔ میری شراب کی ترنگ آپ کے آب زمزم (توحید کا پانی) سے ہے ۔ یعنی آپ ہی کے فیض کے بدولت ہے ۔

 
خجل ملک جم از درویشی من
کہ دل در سینہ من محرم تست

مطلب: میری درویشانہ طبیعت سے جمشید کا ملک (ایران) شرمندہ ہے ۔ کیونکہ میرے سینے میں موجود دل آپ کی محبت سے آشنا ہے ۔

 
دریں بتخانہ دل با کس نہ بستم
ولیکن از مقام خود گسستم

مطلب: میں نے اس بت خانے میں کسی سے دل نہیں لگایا ۔ اور لیکن میں اپنے مقام سے ہٹ گیا ۔

 
ز من امروز می خواہد سجودے
خداوندے کہ دی او را شکستم

مطلب: مجھ سے آج میرا خدا سجدہ کرانا چاہتا ہے کیونکہ کل اس کو میں نے توڑا تھا ۔

 
دمید آن لالہ از مشت غبارم
کہ خونش می تراود از کنارم

مطلب: میری گرد سے اٹی ہوئی مٹھی سے وہ لالہ پیدا کر جس کا خون میرے پہلو سے قطرہ قطرہ گر رہا ہے ۔

 
قبولش کن زراہ دل نوازی
کہ من غیر از دلے چیزے ندارم

مطلب: دل کو خوش کرنے کے طریقے سے اسے قبول کر کیونکہ میں اس دل کے سوا کچھ نہیں رکھتا ۔

 
حضور ملت بیضا تپیدم
نواے دلگدازے آفریدم

مطلب: میں روشن قوم کے سامنے تڑپا ہوں میں نے اس کے دل کو خوش کرنے والی صدا پیدا کی ۔

 
ادب گوید سخن را مختصر گوے
تپیدم ، آفریدم ، آرمیدم

مطلب: ادب بات کو مختصر کر کے بیان کرنے کو کہتا ہے ۔ میں تڑپا ، میں نے اپنے کلام کے ذریعے جوش پیدا کیا ۔ میں نے سکون پا لیا ۔

 
بصدق فطرت رندانہ من
بسوز آہ بیتابانہ من

مطلب : میری آزادنہ فطرت کے صدقے ، میری بے قرار آہ کے سوز سے ۔

 
بدہ آن خاک را بر بہارے
کہ در آغوش گیرد دانہ من

مطلب: اس مٹی (مسلمان قوم کو) کو بہار کا دل دے تاکہ میرے دانے کو گود میں لے لے ۔

 
دلے بر کف نہادم دلبرے نیست
متاعے داشتم غارتگرے نیست

مطلب: میں نے ہتھیلی پر اپنے دل کو رکھا، اس کو کسی نے نہیں لیا ۔ میں مال و دولت رکھتا تھا اس کو کسی نے نہیں لوٹا ۔

 
درون سینہ من منزلے گیر
مسلمانے ز من تنہا ترے نیست

مطلب: میرے سینے میں اپنی جگہ بنائیں مجھ سے زیادہ تنہا کوئی مسلمان نہیں ہے ۔ یعنی دل میں عشق رسول کو جگہ مل جائے ۔

 
چو رومی در حرم دادم اذان من
از و آموختم اسرار جان من

مطلب: میں نے مولانا رومی کی طرح کعبہ میں اذان دی تو میں نے اس سے زندگی کے راز سیکھ لیے ۔

 
بہ دور فتنہ عصر کہن او
بہ دور فتنہ عصر روان من

مطلب: وہ (مولانا رومی) پرانے فتنہ فساد والے زمانے میں تھے اور اس دورِ حاضر ک فتنے میں ، میں ہوں (مولانا رومی اور اقبال معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے) ۔

 
گلستانے زخاک من برانگیز
نم چشمم بخون لالہ آمیز

مطلب: میری مٹی سے (عشق کے سوز سے ) گلستان پیدا کر ۔ میری آنکھ کی نمی سے لالہ کے خون میں آمیزش کر ۔

 
اگر شایان نیم تیغ علی  را
نگاہے دہ چو شمشیر علی تیز

مطلب: اگر میں حضرت علی کی تلوار کے شایانِ شان نہیں ۔ تو حضرت علی کی تلوار کی طرح تیز نگاہ عطا کر ۔

 
مسلمان تا بساحل آرمید است
خجل از بحر و از خود نا امید است

مطلب: جب سے مسلمان (علم کے) سمندر کے کنارے آرام کرنے لگا ہے ، وہ سمندر سے شرمندہ اور خود سے نا امید ہے یعنی اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں رہا ۔

 
جز این مرد فقیرے دردمندے
جراحت ہاے پنہانش کہ دید است

مطلب: اس دردمند مرد فقیر کے سوا (میرے سوا) کس نے اس کے چھپے ہوئے زخموں کے علاج کو دیکھا یا محسوس کیا ہے ۔

 
کہ گفت او را کہ آید بوے یارے
کہ داد اورا امید نو بہارے

مطلب: اس مسلمان کو کس نے کہا کہ دوست کی خوشبو آ رہی ہے کس نے اس کو نئی بہار کی امید بخشی ۔

 
چو آن سوز کہن رفت از دم او
کہ زد بر نیستان او شرارے

مطلب: جب وہ پرانا سوز اس کے سانس سے چلا گیا تو کس نے اس کے بانسوں کے جنگل میں چنگاری پر حملہ کیا ۔

 
ز بحر خود بجوے من گہر دہ
متاع من بکوہ و دشت و در دہ

مطلب: میری نہر کو اپنے سمندر سے گوہر عطا کر ۔ میری دولت کو پہاڑوں ، بیابانوں اور دروں میں پھیلا دے ۔

 
دلم نکشود ازان طوفان کہ دادی
مرا شورے ز طوفانے دگر دہ

مطلب: میرا دل طوفان سے نہیں کھلا جو تو نے عطا کیا ۔ مجھے کسی اور طوفان کا شور عطا کر یعنی ایسا طوفان جو دل میں عشق کا سوز جگا سکے ۔

 
بجلوت نے نوازی ہاے من بین
بخلوت خود گدازی ہاے من بین

مطلب: محفل میں میری بانسری بجانے کو دیکھ اور تنہائی میں مجھ پر بیتی ہوئی دیکھ ۔

 
گرفتم نکتہ فقر از نیاگان
ز سلطان بے نیازی ہاے من بین

مطلب: میں نے بزرگوں سے فقر کا باریک راز حاصل کر لیا (اب) بادشاہو ں کے آگے میری لاپرواہی کو دیکھ ۔

 
بہر حالے کہ بودم خوش سرودم
نقاب از روے ہر معنی کشودم

مطلب: بہرحال میں جیسا بھی تھا میں نے خوش کے گیت گائے ۔ میں نے ہر بات کے چہرے سے پردہ ہٹایا ۔ یعنی امید کا پیغام دے کر مسائل کا حل سمجھا دیا ۔

 
مپرس از اضطراب من کہ با دوست
دمے بودم، دمے دیگر نبودم

مطلب: میری بے چینی و بے قراری کا حال نہ پوچھ ۔ کیونکہ دوست کے ساتھ میں ایک لمحے کے لیے تھا تو دوسرے لمحے نہیں تھا ۔

 
شریک درد و سوز لالہ بودم
ضمیر زندگی را وانمودم

مطلب: میں لاے کے سرخ پھول کے درد اور سوز میں شامل تھا ۔ زندگی کے ضمیر کو میں نے ظاہر کیا ۔

 
ندانم با کہ گفتم نکتہ شوق
کہ تنہا بودم و تنہا سرودم

مطلب: میں نہیں جانتا کہ میں نے عشق کا راز کس سے بیان کیا ۔ جب میں تنہا تھا اور میں تنہا گیت گاتا تھا ۔

 
بنور تو بر افروزم نگہ را
کہ بینم اندرون مہر و مہ را

مطلب: میں اپنی نگاہ کو تمہارے نور سے روشن کر رہا ہوں ۔ کیونکہ میں سورج اور چاند کے باطن کو دیکھ رہا ہوں ۔

 
چو میگویم مسلمانم ، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را

مطلب: جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو میں کانپ جاتا ہوں کیونکہ لا الہ کی ذمہ داریان جانتا ہوں ۔

 
بکوے تو گداز یک نوا بس
مرا این ابتدا این انتہا بس

مطلب: تیری گلی میں ایک صدا کا گداز کافی ہے ۔ میرے لیے یہی ابتدا اور یہی انتہا کافی ہے ۔

 
خراب جراَت آن رند پاکم
خدا را گفت مرا مصطفی  بس

مطلب: میں اس رند پاک کا حیران کیا ہوا ہوں جس نے خدا کو کہا کہ میرے لیے حضرت محمد مصطفی کافی ہیں ۔